95

وزیراعظم کا اہم انٹرویو

افغانستان سے دو عشروں کی جنگ کے بعد امریکی افواج کی واپسی، ملک پر طالبان کے مکمل کنڑول اور عبوری حکومت کے قیام کے بعد نئی عالمی صف بندیاں تیزی سے نمایاں ہورہی ہیں۔ امریکہ اپنے عالمی مفادات کے تحفظ کی خاطر نئے اتحاد تشکیل دے رہا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے ممتاز امریکی جریدے نیوز ویک کو گزشتہ روز منظر عام پر آنے والے اپنے انٹرویو میں وقت کے اہم موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ 40سال بعد افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہوئی ہے جس کی عمل داری پورے ملک میں ہے لہٰذا توقع ہے کہ اب افغان سرزمین میں مکمل امن وامان قائم ہو سکے گا۔ وزیراعظم نے تحریک طالبان پاکستان کے کردار کو زیر بحث لاتے ہوئے صراحت کی کہ ہمیں افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں بالخصوص ٹی ٹی پی کو بےاثر کرنے کیلئے کابل حکام کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دہشت گردی روکنا پاکستان ہی نہیں امریکہ کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس ہدف کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ معاشی بحالی اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانے میں افغان حکومت سے تعاون کیا جائے۔ افغان حکومت کے تسلیم کئے جانے کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ عبوری نہیں بلکہ مستقل حکومت کو ہمسایہ ملکوں کے اتفاقِ رائے سے تسلیم کیا جائے گا۔ اس سوال پر کہ کیا افغانستان سے افواج کی واپسی سے امریکہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، وزیراعظم کی رائے تھی کہ امریکہ نے اپنی فوج رضاکارانہ طور پر واپس بلائی ہے لہٰذا مجھے نہیں لگتا کہ اس کی ساکھ متاثر ہوئی ہے تاہم اصل سوال اب افغانستان کی تعمیر نو کا ہے جس میں تعاون امریکہ سمیت پوری عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ اپنے موقف کی مزید وضاحت انہوں نے یوں کی کہ طالبان نے سی پیک منصوبے اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات کا خیر مقدم کیا ہے اور اگر چین نے افغانستان کو اقتصادی امداد کی پیشکش کی تو افغان عوام یقیناً اسے قبول کریں گے لہٰذا امریکہ بھی افغانستان کی بحالی اور تعمیر نو میں حصہ ڈال کر اور انسدادِ دہشت گردی میں تعاون کر کے اہم اور مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ اپنے نقطہ نظر کی تائید میں انہوں نے موجودہ صورت حال کے پسِ منظر پر یوں روشنی ڈالی کہ دوحہ امن عمل کے دوران امریکہ نے طالبان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کی لہٰذا مجھے یقین ہے کہ امریکہ افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے۔ امریکی قیادت کو وزیراعظم پاکستان کا یہ مشورہ واضح طور پر حکمت و دانش پر مبنی ہے، اس پر عمل کرکے امریکہ افغانستان پر فوج کشی کے غلط فیصلے اور اس کے نتائج کا بڑی حد تک ازالہ کر سکتا اور خطے میں اپنے لئے مثبت سوچ کو فروغ دے سکتا ہے۔ تاہم امریکی قیادت عملاً دنیا میں نئی گروہ بندیوں اور عداوتوں کو ہوا دینے کے راستے پر گامزن نظر آرہی ہے۔ بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر کواڈ نیز برطانیہ اور آسٹریلیا کی شمولیت سے اوکس نامی گروپ تشکیل دیے گئے ہیں جن کا مقصد واضح طور پر چین کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے انٹرویو میں اسی رائے کا اظہار کیا اور امریکہ کی جانب سے بھارت کی ناز برداریوں پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی ستر فی صد فوجی صلاحیت پاکستان کے خلاف تعینات کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ چین اور اس کے دوستوں کے خلاف محاذ آرائی نہ صرف جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ عالمی کشیدگی کو بھی نئی انتہاؤں تک پہنچا کر پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے جس کے نتائج خود امریکہ کے لئے بھی اچھے نہیں ہوں گے اور امریکی قیادت کے مزید غلط فیصلے مستقبل میں بھی امریکہ کے لئے مسائل کا سبب بنیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں