187

مہنگائی :وجوہات اور قومی روئیے

وزیر خزانہ شوکت ترین نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی عوام کو خبردار کیا ہے کہ حالیہ دنوں مہنگائی کا جو طوفان اٹھا ہے وہ کم نہیں ہو گا۔جناب شوکت ترین نے دنیا بھر میں تیل و دیگر اشیا کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی وجوہات سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت معیشت کی بہتری کے لئے جامع اقدامات کر رہی ہے‘ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی وبا کے اثرات کم ہونے پر مہنگائی کی سطح میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔وزیر خزانہ نے مہنگائی سے متاثرہ آبادی کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ مہنگائی کی حالیہ لہر بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے ابھری ہے۔پٹرولیم مصنوعات چونکہ ٹرانسپورٹ‘ذرائع آمدورفت‘کارخانوں اور پیداواری شعبے کی بنیادی ضرورت ہیں اس لئے ان مصنوعات کی قیمت بڑھتے ہی ہر چیز کے نرخ بڑھ جاتے ہیں‘پاکستان دنیا سے الگ تھلگ نہیں۔دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی مہنگالی کی لپیٹ میں ہے۔تحریک انصاف کی حکومت پچھلے تین سال سے اچھے دن آنے کی امید دلاتی رہی ہے‘رواں برس کے بجٹ میں جو اعداد و شمار دیے گئے تھے انہیں دیکھ کر حوصلہ محسوس ہوا کہ برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے‘تارکین وطن جو رقوم بھیج رہے ہیں ان کا حجم بڑھ کر 29ارب ڈالر سالانہ ہو گیا ہے۔بیرونی قرضے باقاعدگی سے ادا کئے جا رہے ہیں۔اگرچہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے نئے قرض لینے کی روش نے عوام کو خدشات کا شکار کر رکھا ہے۔موجودہ مہنگائی نے طمانیت کا یہ احساس ہوا کر دیا ہے۔حالیہ دنوں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔اس رپورٹ میں پاکستان کے درآمدی بل کو بھاری بنانے والی درآمدات کا ایک جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ادارہ برائے شماریات کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تیل کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات جو پچھلے برس اس مدت کے دوران 2.32ارب ڈالر تھے‘اس سال ان کا حجم 4.59ارب ڈالر ہو گیا ہے۔یوں پاکستان کو سوا دو ارب ڈالر اضافی خرچ کرنا پڑے۔اس حساب سے رواں برس پاکستان کو صرف پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر لگ بھگ سوا نو ارب ڈالر اضافی خرچ کرنا ہوں گے۔پام آئل خوردنی مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس کے درآمدی بل میں 53.91فیصد اضافہ ہوا ہے۔رواں برس جولائی سے ستمبر تک اس کی درآمد پر 579.08ملین ڈالر خرچ ہوئے‘اگلے سال ان تین ماہ میں یہ حجم 891.15ملین ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان چینی‘گندم ‘ تیل اور دالیں باہر سے درآمد کر رہا ہے۔گندم اور چینی کی مقامی ضروریات پوری کرنے کے لئے حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں 338.036ٹن گندم درآمد کی ہے۔گزشتہ برس درآمد کی جانے والی گندم کی مقدار 431593ٹن تھی۔گندم کی درآمد پر حکومت کو 983.326ملین ڈالر خرچ کرنا پڑے۔رواں برس چینی کی درآمد میں 42.3فیصد اضافہ ہوا ہے۔چائے کی درآمد میں 36فیصد کے قریب اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یقینا بعض انتہائی ضروری درآمدات ہماری ضرورت ہیں، خصوصاً بجلی پیدا کرنے والی مشینری اور آلات کی ٹیکنالوجی ہمیں درآمد کرنا پڑ رہی ہے لیکن مقامی ضروریات کو کس ایندھن سے پورا کیا جائے اور درآمدی بل کو کم کرنے کے لئے کس طرح خود کفالت حاصل کی جائے اس معاملے کی جانب سابق حکومتوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ماضی میں جب کبھی مہنگائی کے بین الاقوامی اثرات پاکستان پہنچے حکومتوں نے قرضے لے کر عوام کو سبسڈی دیدی۔یہ طریقہ عوام کو خاموش کراتا رہا۔حکومتوں کو اس امر کا احساس تھا کہ پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا۔برآمدات میں اضافہ نہ ہو اور درآمدات بڑھنے لگیں تو روپے کی قدر میں کمی ہوتی ہے۔آہستہ آہستہ تمام کاروبار درآمدی مال کے محتاج ہو جاتے ہیں۔مجرمانہ طرز عمل سے حکومتوں نے مسائل کو قلیل المدتی پالیسیوں سے ٹالنے کی روش اپنائے رکھی۔قومی ترقی کے لئے طویل المدتی منصوبوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔یہ اسی طرز فکر کا نتیجہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے لئے تیل سے چلنے والے یونٹ لگائے گئے یا رینٹل یونٹ حاصل کئے گئے۔سستی بجلی کے لئے ڈیم بنانے پر توجہ نہ دی گئی۔زراعت پر خاطر خواہ توجہ نہ دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ زرخیز زمین اور موزوں موسمی حالات کے باوجود پاکستان ضرورت کی غذائی اشیا درآمد کر رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے طویل المدتی منصوبہ بندی پر توجہ دی ہے جس کی وجہ سے عبوری سہولت فراہم کرنے والے کئی منصوبے بند کئے جا رہے ہیں۔آئی ایم ایف کی جانب سے سبسڈیز ختم کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ان حالات میں وزیر خزانہ کس طرح 40فیصد آبادی کو ٹارگٹڈ ریلیف فراہم کر سکیں گے؟انتظامی پہلو سے یہ سوال بھی اہم ہے کہ حکومت بجٹ میں جن ٹیکس اہداف کا تعین کر چکی ہے وہ حاصل ہوتے نظر کیوں نہیں آرہے۔سب سے اہم بات مہنگائی بڑھنے پر حکومت اور عوام کا طرز عمل ہے۔ہر وزیر‘مشیر اور اعلیٰ سرکاری افسر کو پٹرول کا وافر کوٹہ دیا گیا ہے‘وقت آ پہنچا کہ یہ اعلیٰ شخصیات اپنے پٹرول کوٹہ میں پچاس فیصد تک رضا کارانہ کمی کا فیصلہ کریں۔اس سے پٹرول کے ضمن میں خاصی بچت ہو سکتی ہے۔مہنگائی یقینا ناقابل برداشت ہو رہی ہے لیکن اس کی بڑی وجوہات کا تعلق بین الاقوامی منڈی سے جڑا ہے۔پاکستانی قوم کو خود کو وقتی ریلیف کی بجائے مسائل کے مستقل حل کے لئے کیوبن عوام کی طرح سادگی اپنانا ہو گی۔درآمدی اشیا کا استعمال کم کیا جائے تو مہنگائی میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں