199

’مودی جی، آپ کی خاموشی نفرت انگیز آوازوں کو تقویت دیتی ہے‘

چند معروف بھارتی اداروں نے وزیر اعظم مودی کے نام ایک مکتوب میں کہا ہے کہ ان کی خاموشی سے ملک میں نفرت انگیز آوازیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ کچھ روز قبل ہی سخت گیر ہندوؤں نے مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان کیا تھا۔
بھارت کے بہت باوقار اور معروف ادارے ’انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ‘ (آئی آئی ایم) کے طلبہ اور اساتذہ نے سات جنوری جمعے کے روز وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط لکھ کر انہیں ملک میں نفرت انگیز تقریروں اور اقلیتوں پر حملوں کے خلاف خبردار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی اس معاملے میں خاموشی نفرت کی ایسی آوازوں کو مزید تقویت اور حوصلہ دے رہی ہے۔
وزیر اعظم کے دفتر کو بھیجے گئے اس خط پر 183 افراد نے دستخط کیے ہیں۔ بہت سے طلبہ کے ساتھ ساتھ اس پر دستخط کرنے والوں میں آئی آئی ایم بنگلور کے 13 فیکلٹی ارکان اور آئی آئی ایم احمد آباد کے تین فیکلٹی ممبرز بھی شامل ہیں۔
خط میں لکھا کیا گیا ہے؟
اس خط میں بھارت میں مسلمانوں اور مسیحی برادری کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں اور ان کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کی جانب حکومت کی توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں وزیر اعظم پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ملک کو ’’ان قوتوں سے دور رکھیں، جو ہمیں تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔‘‘
اس خط میں لکھا گیا ہے، ’’جناب وزیر اعظم صاحب، ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر آپ کی خاموشی ہم سب کے لیے بہت ہی مایوس کن ہے، جو اپنے ملک کے کثیر الثقافتی ڈھانچے کی قدر کرتے ہیں۔ آپ کی خاموشی نفرت سے بھری آوازوں کو تقویت بخشتی ہے اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔‘‘
یہ خط بظاہر ہری دوار میں سخت گیر ہندوؤں کی اس حالیہ ’دھرم سنسد‘ (مذہبی اجلاس) کے تناظر میں لکھا گیا ہے، جس میں کئی ہندو مذہبی رہنماؤں نے عام لوگوں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لینے اور مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے کہا تھا۔

اس خط میں کہا گیا ہے، ’’مذہب یا ذات پات کی شناخت کی بنیاد پر مختلف برادریوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کا مطالبہ ناقابل قبول ہے۔‘‘ خط کے دستخط کنندگان نے لکھا ہے کہ اگرچہ بھارتی آئین نے تمام شہریوں کو اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات پر باوقار انداز میں عمل درآمد کا حق دیا، تاہم اس وقت ملک میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔

اس مکتوب کے مطابق، ’’ہمارے ملک میں اب ایک خوف کا ماحول ہے۔ حالیہ دنوں میں گرجا گھروں سمیت بہت سی عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ ہوتی رہی ہے، اور ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے خلاف تو ہتھیار اٹھانے کی بھی آوازیں آ رہی ہیں۔ یہ سب کچھ بغیر کسی کارروائی کے ڈر سے کیا جا رہا ہے اور ایسا کرنے والوں کو قانونی استثنیٰ حاصل ہے۔‘‘

اس خط میں وزیر اعظم سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ان قوتوں کے خلاف ڈٹے رہیں، جو شہریوں کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ ’’ہم آپ سے کہتے ہیں کہ بحیثیت قوم آپ ہمارے ذہنوں اور دلوں کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف نفرت انگیزی سے بچائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یا تو معاشرہ تخلیقی صلاحیتوں، اختراعات اور ترقی پر توجہ دے سکتا ہے یا پھر وہ اپنے اندر انتشار اور تقسیم پیدا کر سکتا ہے۔‘‘

’’ہم ایک ایسے بھارت کی تعمیر کے خواہاں ہیں، جو دنیا میں جامعیت اور تنوع کی مثال کے طور پر سامنے آئے۔‘‘
گزشتہ ماہ بھارتی شہر ہری دوار میں منعقدہ ایک جلسے میں ہندو مذہبی رہنماؤں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کے قتل عام کی باتیں کی تھیں۔ اس سے متعلق کئی ویڈیوز بھی وائرل ہو چکی ہیں اور تمام مقررین واضح طور پر پہچانے جا سکتے ہیں۔ تاہم پولیس نے اس امر کی کسی تفتیش کی نہ تو کوئی بات تو کی ہے اور نہ ہی اب تک ایسے کسی رہنما کو گرفتار کیا گيا ہے۔

ایک انتہا پسند ہندو خاتون رہنما نے تو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چند سو ہندو اگر مذہب کے سپاہی بن کر بیس کروڑ مسلمانوں کو ہلاک کر دیں تو وہ فاتح بن کر ابھریں گے۔ اس خاتون رہنما نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ایسا کرنے سے ہندو مت کی اصل شکل ‘سناتن دھرم‘ کو تحفظ حاصل ہو گا۔

ایک دوسرے ہندو رہنما نے اپنے خطاب میں ہندوؤں سے کہا کہ وہ مرنے یا مارنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس لیڈر نے جلسے میں مسلمانوں کی نسلی تطہیر پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ میانمار کی طرح پولیس، سیاستدانوں، فوج اور ہر ایک ہندو کو ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہے اور اسی سے ملک میں ‘صفائی‘ ہو گی۔

یہ امر اہم ہے کہ سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ملک میں مسلم اور دیگر اقلیتوں پر مظالم کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ بی جے پی تاہم اپنے خلاف اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں