53

مغر ب کا انسانی حقوق پر دوہرا معیار

مغر ب کا انسانی حقوق پر دوہرا معیار
تحریر : مفتی گلزار احمد نعیمی

22 ء کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو پورا مغرب تلملااٹھا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں میدا ن میں آگئیں۔ مغرب نے بہت مضبوط مشترکہ حکمت عملی اپنائی۔ مغرب نے یوکرینی باشندوں کے لیے اپنی سرحدات کھول دیں روس کے 24 فروری 2022کو یوکرین پر کیے گئے حملے سے مغرب کی منافقانہ پالیسی نے ان خبث باطن کو بالکل واضح کر دیا ہے۔
اگر یوکرین پر روسی حملے سے یوکرینی عوام کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوئے ہیں تو کیا مشرق وسطی میں جب سے ایک ناجائز ریاست اسرائیل کی صور ت میں بنائی گئی اس وقت سے مظلوم فلسطینوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال نہیں ہو رہے ہیں مغرب نے یوکرینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولیں تو کیا انہوں نے فلسطینوں کے لیے کبھی ایسی ہمدردی کا اظہار کیا؟کیا انہوں نے کبھی یمنی مسلمانوں ، شامی مسلمانوں اور کشمیری مسلمانوں کے لیے ایسا اظہار ہمدردی کیا؟
مشرق وسطی میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہوئیں شمالی افریقہ کے خطے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
تم اگر انسانی حقوق کے چیمپئن بننا چاہتے ہو تو پھر فلسطین کے مظلوموں کے حق میں بھی آواز اٹھائو ۔ دنیا میں ظلم کی چکی میں پسنے والے مظلوموں کے حق میں بھی آواز اٹھاو ۔
آج دنیائے اسلام کی دو بڑی قومیں اور دو عظیم خطے بطور خاص سامراجی قوتوں نے قتل گائیں بنائی ہوئی ہیں ۔ آئے دن فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے۔ یہ تصور کرتے ہوئے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ فلسطینی مسلمانوں کو مسجد اقصی میں عین حالت نماز میں جب وہ ایک امام کے پیچھے کھڑے تھے ، انہیں دھکے مار مار کر گرا دیا گیا۔ وہ عظیم مسجد جو پوری انسانیت کا قبلہ قرار پائی تھی اس میں گیس بم چلائے گئے ، نمازیوں پر گولیاں چلائی گئیں ۔ اللہ کے گھر اور قبلہ اول میں ظلم و ستم کیا جار ہا ہے۔ کشمیر کے مظلوم بھی اسی طرح ہندو سامراج کی بر بریت کا شکار ہیں۔
روہنگیا کے مسلمان جنہیں اقوام متحدہ نے روئے زمین کی مظلوم ترین قوم قرار دے رکھا ہے۔ وہ ایسے مظلوم ہیں کہ سامراج نے ان سے حق شہریت بھی چھین لیا ہے۔ آج اگر دنیا کے سب سے زیادہ بے آسرا قوم روہنگین مسلمان بن چکے ہیں۔
آج دہشت گرد ، انتہاء پسند اور خو د کش کے نہایت توہین آمیز القاب کو سامراج نے بڑی چالاکی سے مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیاہے۔ خود کش بمبار کی اصلاح 1940میں جرمنی کے خلاف استعمال کی گئی ۔ مگر بدقسمتی ہے کہ سامراج نے 9/11کے بعد اسکو اور ایسے تمام القابات کو مذہب اسلام کے ساتھ جوڑ دیا۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ نے 2023ءاور 2024ءکے اپنے بجٹ کے دفاعی حصہ میں 40%اضافہ کیا ہے ظاہر ہے یہ بجٹ انسانیت کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ اسکی تباہی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ دنیا کو بارود اور بلٹس کے حوالہ کرنے کے لیے ہے۔ یہ دنیا میں لڑائیوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ ایشاء میں چین کی کامیاب سفارت کاری امریکہ کے مکروہ عزائم خاک میں ملائے گی ۔ چین کی محنت سے ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال ہو چکے ہیں اور اسی طرح شام اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی میں بھی کافی حد تک پیش رفت ہو چکی ہے۔ 10مارچ2023 کے بعد ایران اور سعودی عرب کے حکام باہمی رابطے میں آچکے ہیں بین الاقوامی امور کے ماہرین چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدہ کو مشرق وسطی میں ایک بڑا انقلاب قرار دے رہے ہیں۔ 2016کے بعد پہلی دفعہ سعودی عرب سے گذشتہ ہفتے ایک وفد نصیر الغنوم کی قیادت میں ایران کے دورے پر آیا جسکا ایرانی حکام نے بہت پر تپاق استقبال کیا ۔ سفارتی مشن دوبارہ کھولنے کے لیے مذکرات ہوئے۔ سعودی عرب نے تہران میں سفارت خانہ اور مشھد القدس میں کونسلیٹ دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا اور حکام کے درمیان اس کے طریقہ کار پر کامیاب مذکرات ہوئے۔
یہ ایک بہت بڑی ڈیویلپمنٹ ہے جس سے مشرق وسطی اور جنوبی ایشاء میں نئے دور کا آغاز ہوگا۔ ہماری دانست کے مطابق اگر سعودی عرب نے بین الاقوامی بدمعاشوں کا اثر قبول نہ کیا تو یقینا خطے میں اس امن وآشتی کا دور دوبارہ لوٹ آئے گا۔ اسلامی ممالک میں بھی خوشحالی آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
انسانی زندگی میں نیکی اور اچھائی کی ترویج بہت ہی اہم اثرات مرتب کرتی ہے ۔ ایک فرد یا قوم جب اچھائی اور نیکی کی علمبرداری کا فریضہ ادا کرتی ہے تو افراد اور معاشرہ دنوں اس سے مستفیض ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جب کوئی فرد یا قوم برائی کی علمبردار ہوتی ہے تو اس کے اثرات بد افراد پر بھی پڑتے ہیں اور معاشروں پر بھی۔ سرکار دو عالم رحمت للعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا إِنَّ مِنَ النَّاسِ مَفَاتِيحَ لِلْخَيْرِ، مَغَالِيقَ لِلشَّرِّ، وَإِنَّ مِنَ النَّاسِ مَفَاتِيحَ لِلشَّرِّ مَغَالِيقَ لِلْخَيْرِ، فَطُوبَى لِمَنْ جَعَلَ اللهُ مَفَاتِيحَ الْخَيْرِ عَلَى يَدَيْهِ وَوَيْلٌ لِمَنْ جَعَلَ الله مَفَاتِيحَ الشَّرِّ عَلَى يَدَيْهِ( رواہ ابن ماجہ :237)
ترجمہ:بعض لوگ خیر کی چابی اور شر کا تالا ہوتے ہیں اور بعض لوگ شر کی چابی اور خیر کا تالا ہوتے ہیں۔خوشخبری ہے اس کے لیے کہ جس کے ہاتھ پر اللہ نے خیر کی چابیاں رکھ دی ہیں اور ہلاکت ہے اس کے لیئے کہ جس کے ہاتھ پر اللہ نے شر کی چابیاں رکھ دی ہیں۔
ہمیں بحثیت فرد یا قوم اچھائی کے چابی بننا ہو گا جس سے خیر کے دروازے کا تالہ کھل جائے گا اور شر کا دروازہ بند ہوجائے ۔ بین الاقوامی طور پر فی الوقت چائنا ایک ایسی چابی بن چکا ہے جس سے بھلائی کے دروازوں کے تالے کھل رہے ہیں امریکہ اور اس کے حواری شر کے تالوں کی چابیوں کاکردار ادا کر رہے ہیں جس سے شر اور فساد کے دروازے دنیا پر کھلے ہیں ۔ مثبت کردار بھی واضح ہیں اور منفی کردار بھی ۔ دنیا اب شر اور فساد سے تنگ آچکی ہے اور شر اور فساد کے دروازوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مقفل کر دینا چاہتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں