Skip to content

معاشرے پرتمباکونوشی کے زہریلے اثرات اور اس کی شرعی حیثیت . فیض الرحمن

معاشرے پرتمباکونوشی کے زہریلے اثرات اور اس کی شرعی حیثیت

فیض الرحمن

ہمارے معاشرے کے بگاڑ کے جواسباب ہیں ان میں ایک سبب’’تمباکونوشی‘‘بھی ہے اورمزے کی بات ہے کہ عوام الناس اسے برا بھی خیال نہیں کرتے بلکہ عجیب وغریب اوراُلٹی سیدھی منطقیں بیان کرتے ہیں مثلاً یہ ایک مخصوص بوٹی ہے جسے حکیم لقمان نے دمہ‘ کھانسی اوردیگربلغمی امراض کے لئے تشخیص (Treat)کیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ
حالانکہ اس کے پیچھے کسی قسم کی دلیل نہیں ہے بلکہ سیدنا لقمان علیہ السلام پراتہام ہے۔ذیل میں ہم اس کے مضر اثرات اور شرعی حیثیت کا جائزہ لیتے ہیں۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا
’’نھی رسول اللہ عن کل مسکر ومفتر‘‘
’ہرنشہ آور چیز اورہروہ شے جس سے دماغ میں فتور پیدا ہو‘ وہ حرام ہے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ میں دو الفاظ’’ مسکراورمفتر‘‘ استعمال ہوئے ہیں۔ ’’سکر‘‘کی بابت صاحب منجد لکھتے ہیں
’’سَکّرًاوَسَکْرًاوَسُکْرًا وَسُکُرًاوَسَکْرَاناً مِنَ الشَّرَابِ‘‘اَسْکَرَہ مست کرنا‘مدہوش کرنا‘ لفظ مسکر اس باب سے اسم فاعل ہے معنی ہوا‘ نشے سے مدہوش کردینے والا۔(ص۔۴۸۲) ’’اسکرحالۃ تعرض بین امسرء وعقلہ‘‘سکرایک ایسی حالت کانام ہے جو انسان اوراس کی عقل کے درمیان پردہ کردیتی ہے۔‘‘
دوسرے لفظ ’’مفتر‘‘ کی بابت ہے۔ فترا فتوراً۔’’تیزی کے بعد ساکن ہونا اورسختی کے بعد نرم پڑنا۔‘‘
اَفتَرَ الداء اَوِالسْکرا
بیماری یا نشہ کا کسی کو ضعیف کردینا۔ (المنجدی عربی اردو ص۔۷۲۷)نیز مجمع الجار میں ہے’’ھوالذی اذاشرب احمی الجسد وصاد فیہ فتورٌ وھوضعفٌ وانکسار‘‘ مفتر وہ ہے کہ جب پئے تو جثہ کوگرم کردے اور اس میں فتور پیدا ہوجائے اور فتور کمزوری اورشکستگی کوکہتے ہیں۔ان ہردوالفاظ کی لغوںوضاحت سے معلوم ہوا کہ مسکرا اور مفتر سے انسانی جسم میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تمباکونوشی (خواہ حقہ میں ہو یا سگریٹ میں یاپان میں)سے توجسم کی تھکان وغیرہ دور ہوتی ہے اور اس سے نشہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ حقہ نوش اور سموکر بہکتا نہیں ہے۔ اس لغوبات کاجواب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’ما اسکر کثیرہ حرام فقلیلہ حرام‘‘’’جس چیز کی زیادتی نشہ لائے تواس کا تھوڑا استعمال بھی حرام ہوگا۔‘‘ اب شراب خوب نشہ لاتی ہے ۔لیکن اگر اس کاایک آدھ گھونٹ پیا جائے تو عموماً اس سے نشہ پیدا نہیں ہوتا‘ لیکن چونکہ شرعی قاعدہ ہے اس لئے اس کاتھوڑاپینا بھی قطعی حرام ہے۔ذیل میں ہم اس کا چند وجوہ کی وجہ سے حرام ہونے کا جائزہ لیتے ہیں۔

-1تمباکوکانشہ آور ہونا اوردماغ میں فتورپیداکرنا:

ابوداؤد میں حدیث ہے۔
نھی رسول اللہ عن کل مسکر ومفتررسول کریمﷺ فداہ انا وابی وامی نے ’’نشہ والی اشیاء اورعقل میں فتور پیدا کرنے والی شے سے منع فرمایا ہے‘‘ اور اس (نہی)میں کوئی شبہ نہیں کہ حقہ‘ سگریٹ سے دماغ میں فتور پیدا ہوتا ہے اوراس ’’نہی‘‘میں اصل تحریم ہے۔ کیونکہ کوئی بھی سلیم الفطرت شخص اگر تمباکونوشی کرتاہے تواس کے جسم وعقل میں فتور پیدا ہوتا ہے اورمعاملہ مدہوشی تک پھیل جاتاہے۔ مثلاً آپ سگریٹ سلگائیں اور کسی ایسے شخص یا بچے کو جو اس کاعادی نہ ہو ‘کش لگوائیں آپ دیکھیں گے کہ ابھی کش پورابھی نہ ہوگا کہ اسے یکدم ’’اتھو‘‘ لگ جائے گا اور سانس اکھڑ جائے گی۔ لہٰذا اس وجہ سے تمباکونوشی حرام ثابت ہوئی۔

-2تمباکومیں زہر کااستعمال:
واضح رہے کہ تمباکومیں دوقسم کے زہر پائے جاتے ہیں ۔ نکوٹین ‘کیفین…ان ہر دوزہروں میں زیادہ موثر زہر ’’نکوٹین‘‘ ہے۔ یہ ایک ایسازہریلا مادہ ہے جس کا ستر ملی گرام کا انجکشن بھی کسی شخص کو ہلاک کردینے کے لئے کافی ہے اوریہ ’’نکوٹین‘‘ 0.5سے2 ملی گرام ایک سگریٹ میں موجود ہوتاہے۔ جوشخص سگریٹ کا دھواں اندر کھینچے اس سے امکان ہے کہ یہ زہر نوے فیصد تک اس کے خون میں تحلیل ہوجائے۔تمباکو کے مسلسل استعمال سے دل ودماغ اورپھیپھڑوں پر بہت برا اثر پڑتاہے۔ چنانچہ اس کے کثرت استعمال سے ضعف حافظہ‘ بے خوابی‘ بھوک نہ لگنا وغیرہ کے عوارضات پیدا ہوجاتے ہیں۔اب زہر کے متعلق شریعت کے احکام بالکل واضح ہیں کیونکہ اسے کھانا خودکشی کے لئے ہوتاہے اورخودکشی اسلام میں بالا تفاق حرام وممنوع ہے۔لہٰذا اس وجہ سے تمباکونوشی حرام ہوئی۔ ( ملخص از امراض قلب ‘صابر ملتانی ص ۱۴۵)

-3سخت بدبو سے مسلمان کو ایذاء پہنچانا:
نبی کریمﷺ نے فرمایا’’جوشخص کچا پیاز یا کچا لہسن کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب بھی نہ پھٹکے۔‘‘ نیز ایک موقع پر فرمایا ’’جو اسے کھائے اسے بقیع (قبرستان)کی طرف دھکیل دیاجائے۔‘‘ اب پیاز اور لہسن کی بابت یہ حکم کیوں صادر کیا گیا ‘حالانکہ یہ حلال اشیاء ہیں‘ صرف اس لئے کہ ان سے منہ میں سخت بدبوپیدا ہوتی ہے جودیگر لوگوں کے لئے بہت تکلیف دہ ہوتی ہے اور جس شے سے بنی آدم ایذا پائیں اس سے فرشتے بھی ایذا پاتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے مسلمان امن میں رہیں۔‘‘ اصحاء بینھم کے قاعدے کے تحت ’’تمباکونوشی‘‘ کی سخت گندی بوسے تکلیف دینا غلط اقدام ہے۔ اگر’’سموکر‘‘ نماز باجماعت اداکررہاہے توساتھ والے نمازی کو اس کی بوسے سخت اذیت محسوس ہوگی‘ اس کا تجربہ وہ لوگ کرسکتے ہیں جو سگریٹ نوش نہ ہوں اور کسی سگریٹ نوش کے قریب کھڑے ہوں۔ ایک مرتبہ راقم کے ایک عزیز کے ساتھ اس نوعیت کا واقعہ پیش آچکاہے۔ وہ بھائی ایک سموکرتھے‘ ایک مرتبہ وہ اپنے چھوٹے بچے کواٹھاکر پیار کرنے لگے توبچے نے فوراً منہ پرے کرلیا اور کہا ’’ابوآپ کتنے گندے ہیں‘ برش بھی نہیں کرتے‘ آپ کے منہ سے کتنی گندی بو آرہی ہے‘‘ اس بھائی کو فوراً اپنے اس عمل پر ندامت ہوئی اورآئندہ کے لئے اس نے اس عمل گناہ سے توبہ کرلی۔ بعض لوگ کہتے ہیں‘حقہ پی کر بعد میں کلی وغیرہ کرلیں تو…بوجاتی رہتی ہے۔ یہ بالکل لغوبات ہے کیونکہ یہ بومعدے سے آتی ہے جس کا واحدحل ترک تمباکو نوشی ہے۔ اس دلیل سے معلوم ہوا کہ ’’تمباکو‘‘ اپنی سخت بدبوکی وجہ سے بھی حرام ہے۔
-4بے فائدہ اور اسراف:
تمباکونوشی کا کوئی فائدہ نہیں‘بلکہ الٹانقصان ہی نقصان ہے۔ تو جس چیز کا فائدہ ہی نہ ہو تو وہ فضول اوراسراف ہے اور ’’مسرفین‘‘ کو قرآن نے شیطان کے بھائی قرار دیاہے۔ (دیکھئے سورۃ الاسراء آیت ‘۲۷) اوراس سے پچھلی آیت میں ’’نہی‘‘ بھی آئی ہے ’’ ولا تبذر تبذیراً‘‘اسراف اور فضول خرچی نہ کر اور’’نہی‘‘تحریم کے لئے ہوتی ہے۔‘‘(فتاویٰ اہلحدیث ۔ص۔۵۵۹‘جلد۲)
نیز یہ کہ اللہ عزوجل نے مطعومات کو دو حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ ماکولات…مشروبات… اوریہ بدبخت تمباکوایسی چیز ہے کہ نہ تو’’ماکولات‘‘(کھانے کی اشیاء)میں شامل ہے کہ معدے میں جاکر بھوک کو ختم کرے اور جسم کو تازگی بخشے اور نہ ہی ’’مشروبات‘‘ (پینے کی اشیاء)میںشامل ہے۔ یعنی ’’لا یُسْمِنُ ولا یغنی من جوع‘‘ (غاشیہ۔7)نہ موٹا کرے اورنہ بھوک دور کرے۔ کی فہرست مذمومہ میں شامل ہے۔ تواللہ اس چیز کو اسراف میں شامل کرتے ہیں اس وجہ سے حرام ثابت ہوئی۔
علاوہ ازیں پاکستان کے سنجیدہ علماء کے علاوہ سعودی کبار علماء کی کمیٹی نے بھی اسے حرام کہاہے۔ سماحۃ الشیخ عبداللہ بن باز ؒ فتویٰ دیتے ہوئے لکھتے ہیں ’’سگریٹ نوشی حرام… تمباکونوشی اپنی تمام قسموں سمیت پاکیزہ چیزوں سے نہیں بلکہ گندی چیزوں سے ہے۔‘‘ اسی طرح تمام نشہ آوراشیاء بھی گندی چیزوں میں ہیں۔ تمباکو پینا جائز ہے نہ اس کی بیع جائزہے اورنہ ہی اس کی تجارت جائز ہے جیسا کہ شراب کی صورت ہے۔ جوشخص سگریٹ پیتاہے یا اس کی تجارت کرتاہے اسے جلد ہی اللہ تعالیٰ کے حضور رجوع اورتوبہ کرنی چاہئے۔ (فتاویٰ ابن بازؒ ‘اردو ‘ص۲۳۸)
محترم بھائیو! درج بالا اسباب کی وجہ سے تمباکونوشی قطعاً حرام ہے اور ہمیں حرام کے ارتکاب سے باز آجاناچاہئے۔ یہ سطور صرف ہمدردی اور دینی اخوت کی وجہ سے ضبط تحریر میں لائی گئیں ہیں۔اگرہم میں بھی یہ مذموم عادت ہے تو اسے درج بالا دلائل کی وجہ سے فی الفور ترک کردینا چاہئے۔ پہلے اگرمسئلے کاعلم نہیں تھا تو الگ بات تھی لیکن اب بات کھل کرآجانے کی وجہ سے حجتپوری ہوچکی ہے۔ اگراب بھی اس شنیع فعل کوترک نہیں کریں گے توعنداللہ مجرم ہوں گے۔ اللہ ہدایت سے نوازے۔آمین