ansar-abbasi urdu articles 118

محترم مفتی تقی عثمانی کا غم اور سپریم کورٹ

ابھی نسلہ ٹاور کے متعلق فیصلہ کی بازگشت تھمی نہیں کہ سپریم کورٹ نے طارق روڈ کراچی میں واقعہ مدینہ مسجد کو گرانے کا حکم دے دیا ہے اور یہ ہدایت جاری کی ہے کہ مسجد کو ایک ہفتہ کے اندر گرا دیا جائے۔

مدینہ مسجد کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ پارک کی زمین پر غیر قانونی طور پر بنائی گئی۔

نسلہ ٹاور کو گرانے کے فیصلہ پر صوبائی حکومت، سیاسی جماعتوں، بلڈرز، کاروباری طبقہ اور میڈیا نے بار بار سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سے گزارش کی کہ ٹاور میں رہنے والے مکینوں جنہوں نے کروڑوں روپے خرچ کر کے اپنے فلیٹ خریدے، کی روداد اور سسکیوں کو سنا جائے ،لیکن سپریم کورٹ اپنے فیصلہ سے پیچھے نہ ہٹی اور اب ٹاور کو گرانے کا کام جاری و ساری ہے۔

اب سپریم کورٹ نے مدینہ مسجد کو گرانے کا حکم دے دیا جس پر علمائے کرام کی جانب سےبالخصوص سخت ردعمل سامنے آیا۔

گزشتہ روز کسی نے مجھے محترم مفتی تقی عثمانی کا سپریم کورٹ کے اس فیصلہ متعلق ایک آڈیو پیغام بھیجا جو میں اس کالم میں اس امید کے ساتھ شائع کر رہا ہوں کہ اسے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس تک پہنچایا جا سکے تاکہ ایسا نہ ہوکہ کسی جلد بازی میںایک ایسے فیصلہ پر عمل درآمد کر دیا جائے جس کے پورے حقائق ہی سپریم کورٹ کے سامنے نہ تھے۔

تقی صاحب نے اس واقعہ کو افسوس ناک قرار دیا اور حیرانی کا اظہار کیا کہ چالیس سال پرانی اتنی بڑی مدینہ مسجد جو پورے طارق روڈ پر واحد مسجد ہے، اُس کے بارے میں حکم دے دیا ڈھا دو، گرا دو اور زمین پر پارک بنا دو جبکہ مسجد کے پیچھے پارک موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں خدا کا خوف کرنا چاہیے، لوگ اس بارے میں بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔کہتے ہیں کہ یہ درست بات ہے کہ اگر ایک غیر قانونی جگہ پر مسجد قائم کی جائے تو وہ صحیح نہیں۔ پھر واضح کرتے ہیں کہ اگر کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے مسجد بنائی جائے توبالکل ناجائز ہے، حرام ہے۔

اسی طرح اگر کسی سرکاری جگہ پر بنائی جائے گی تو بھی غلط ہے۔لیکن صورتحال یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق مساجد بنائے لیکن حکومت تو اپنا یہ فرض پورا نہیں کر رہی، کوئی ایک مسجد بتائیں جو حکومت نے بنائی ہو۔

مفتی صاحب کہتے ہیں کہ حکومت نے مندر تو تعمیرکر دیا، گردوارہ بھی تعمیر کر لیا لیکن کیا کوئی مسجد تعمیر کی۔جب حکومت اپنے اس فریضہ پر کوتاہی کر رہی ہے تو کیا شہر مسجدوں سے خالی ہو جائیں۔ ایسی صورت میں مسلمان اگر کسی ایسی جگہ پرجو کسی کی ملکیت نہیں ہے، سرکاری ہی سہی وہاں پر اگر مسجد تعمیر کرتے ہیں تو یہ اُن کا فریضہ ہے۔

اگر حکومت مساجد تعمیر نہیں کر رہی تو مسلمانوں کا فریضہ ہے مساجد بنائیں۔ اب اس جگہ (جہاں مدینہ مسجد واقع ہے) کے آس پاس دور دور تک کوئی مسجد نہیں۔ تقی صاحب نے مزید کہا کہ ایسا نہیں کہ اس مسجد کو راتوں رات زمین پر قبضہ کر کے تعمیر کر لیا گیا، اُس کے لیے سوسائٹی کی اجازت لی گئی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے نقشہ پاس کروایا اور اُس کے بعد یہ مسجد بنی اور چالیس سال سے چلی آ رہی ہے۔

اس مسجد میں ہر نماز میں ہزاروں کی تعداد میں نمازی شرکت کرتے ہیں۔ اب کہتے ہیں یہ پارک کی جگہ تھی، چالیس سال یہ پارک کی جگہ نظر کیوں نہ آئی؟جن لوگوں نے این او سی دیا وہ کیسے دیا،؟ جن لوگوں نے نقشہ پاس کیا وہ کیسے کیا؟ آپ چالیس سال کے بعد آ کر کہتے ہیں یہ غیر قانونی ہے!! تقی صاحب فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے عدالتی فیصلہ بھی دیکھا، اتنا بڑا مسئلہ لیکن مشکل سے بیس پچیس ستروں میں لکھا گیا ہے۔

فیصلہ میں بتایا کہ کمیٹی کا ایک ممبر ہمارے سامنے پیش ہوا جس سے پوچھا گیا کہ کیا مسجد کی تعمیر کی کوئی قانونی اجازت ہے جس پر اُس نے کہا کہ میرے پاس تو نہیں ہے۔

تقی صاحب کہتے ہیں کہ ایک ممبر ہے کمیٹی کا، کوئی صدر بھی نہیں، مسجد کا متولی بھی نہیں جس نے کہہ دیا اُس کے پاس تو کچھ نہیں ،جس پر فیصلہ دے دیا گیا کہ مسجد کو ایک ہفتہ کے اندر گرا دو۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے ۔

تقی صاحب نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کا فرض ہے کہ اس فیصلہ پر نظر ثانی کرے اور یہ فیصلہ واپس لے۔ مفتی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ پر آواز اُٹھانا صرف علماء کا ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے۔

ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ قانون کے دائرہ میں رہ کر اس فیصلہ کے خلاف آواز بھی اُٹھائیں اور عدالتی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے اس فیصلہ پر نظرثانی کے لیے بھی اقدامات کریں۔

یہ ہر مسلمان کا فرض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مساجد کو گرانے کا سلسلہ اس طرح چل نکلا تو نجانے یہ کہاں جا کر رکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں