362

ماحولیاتی آلودگی کا تدارک اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

ماحولیاتی آلودگی کا تدارک اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
تحریر : مفتی گلزار احمد نعیمی
اللہ سبحانہ وتعالی نے زمین کو تخلیق فرمایا اور اسکی آباد کاری کیلیے حضرت انسان کو ذمہ داری سونپی،اپنی خلافت عظمیٰ کا تاج اس کے سر پہ سجا کر اسے زمین کو آباد کرنے اور اس پر امن و امان کے قیام کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنے کا حکم دیا۔اللہ تعالی نے حضرت انسان کی تخلیق بھی زمین سے فرمائی اور اسکی جملہ جسمانی ضروریات کو بھی اسی زمین کے ساتھ وابستہ فرمادیااور اسے آباد بھی اسی زمین میں فرمایا۔اس حقیقت کی طرف قرآن حکیم اشارہ فرماتا ہے: ھو انشائکم من الارض واستعمرکم فیہا(ھود:61)۔ترجمہـ:”اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اوراسی میں تمہیں آباد کیا” زمین کی آباد کاری کے لیے جن چیزوں کی ضرورت تھی انہیں بھی پیدا کیا اور اس پر زندگی گزارنے کے لیے جن وسائل کی تمہیں ضرورت تھی وہ بھی پیدا کیے۔وہ تمام اسباب جو زمین کی آبادکاری اور تمہاری آبادکاری کے لیے ضروری تھے انہیں تخلیق کیا۔مکان بنانے کے لیے،درخت لگانے کے لیے،نہریں کھودنے کے لیے اور فصلیں اگانے کے لیے تمہیں علوم وفنون سے آراستہ کیا۔اس ابتدائی گفتگو کے بعد ہم آتے ہیں آج کے موضوع کی طرف۔
آج ماحولیات کو بے شمار خطرات لاحق ہیں۔زمین کی آلودگی،پانی اور ہوا کی آلودگی کے باعث ماحولیات کو ہمیشہ نقصان پہنچا ہے۔اس آلودگی نے انسانی روح اور اسکے بدن پر بہت گہرے اورعمیق اثرات مرتب کیے ہیں۔انسانی کی مایوسیوں اور اسکی روحانی وجسمانی امراض میں اضافہ کیا ہے۔اسی طرح ماحولیاتی آلودگی اور انسان کے منفی اور تخریبی رویوں کے درمیان بھی ماہرین نفسیات کے مطابق بہت گہرا ربط پایا جاتا ہے۔اسکی قرآن حکیم بھی بہت حد تک تائید فرماتا ہے۔اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا: والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ والذی خبث لایخرج الا نکدا(اعراف:58)ترجمہ:پاکیزہ زمین اپنے رب کے حکم سے سبزہ اگاتی ہے اور شوریدہ زمین بے سود چیزوں کے سوا کچھ نہیں نکالتی۔زمینوں کی ان مختلف اقسام کی طرح انسانوں کے رویے بھی مختلف ہوتے ہیں،کوئی آبادکاری اور تعمیر کو پسند کرتے ہیں اور کوئی تخریب او فساد کے دلدادہ ہوتے ہیں۔سید نصیر الدین نصیرعلیہ الرحمہ نے کہا تھا:
صورت میں اگرچہ ہو نگینوں کی طرح
پر فرق ہے سیرت میں زمینوں کی طرح
اہل ایمان اور اہل محبت انسانیت کی فلاح وبہبود کے منصوبہ بناتے ہیں۔انسانیت اور اہل زمین کی فلاح و بہبود کے عملی اقدامات کرتے ہیں جبکہ دولت ایمان ومحبت سے تہی دامن افرادہمیشہ نسل انسانی کے دشمن رہے ہیں اور انہوں نے اللہ کی زمین کو اپنے تخریبی منصوبوں کے ذریعہ ہمیشہ فتنہ وفساد سے دوچار کیے رکھا ہے۔دین متین نے ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی اور انکی تخریبی سوچ کو تشت از بام بھی کیا۔قرآن مجید میں ارشاد ہوا:واذاتولی سعی فی الارض لیفسد فیھا ویھلک الحرث والنسل واللہ لایحب الفساد(البقرہ:205)ترجمہ۔اور جب وہ لوٹتا ہے تو زمین میں فساد بپا کرتا ہے تاکہ کھیتیاں اور جانیں تباہ وبرباد ہوں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
شریعت مطہرہ نے ماحولیات کے مسائل پر اپنے ماننے والوں کی بہت ہی شاندار طریقہ سے رہنمائی فرمائی ہے۔ایک فرد کو حکم دیا ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اپنا حصہ یوں ملائے کہ وہ اپنے آپ کو صاف ستھرا اور خوشبودار رکھے،اپنے لباس کونظیف اور اپنے گھر کوخوبصورت بنائے۔اپنے محلے کے گلی کوچوں اور عوامی مقامات کو آلودگی سے بچائے۔اگر کوئی شخص کسی راستے میں پڑی بدبودار چیز یا اذیت رساں چیز کو ہٹا کر راستے سے گزرنے والوں کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے تو وہ شخص یقینا جنتی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ایک راستہ پہ چل رہا تھا وہاں اس نے کسی خاردار شاخ کو پایااوراسے راستے سے ہٹا دیا تو اللہ نے اسکے اس عمل کی تحسین فرمائی اور اسے جنت میں داخل کردیا۔(بخاری ومسلم)ایک اور حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے مسلمانوں کے راستے سے کسی ضرررساں چیز کو ہٹایاتو اللہ اس کے لیے نیکی لکھ دیتا ہے اور وہ جس کے لیے نیکی لکھ دے اسے جنت میں داخل فرمادیتا ہے۔(المصنف ابن ابی شینہ) اس حدیث کی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں راستے سے مراد فقط زمینی راستہ نہیں بلکہ اس سے مراد وہ تمام راستے ہیں جہاں جہاں سے انسان کا گزر ہوتا ہے۔وہ بری راستہ ہو،بحری راستہ ہو یا فضائی تمام راستے مراد ہیں۔اسی طرح ضرررساں چیز کا عموم بتارہاہے کہ ان راستوں کو ہر اس چیز سے پاک رکھا جائے جو چیز باعث اذیت ہے۔سڑکوں پر پھینکا جانے والا کوڑاکرکٹ ہو یا کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں،صوتی آلودگی ہو،فضائی آلودگی ہو،آبی آلودگی ہویا ٹریفک کا بے ہنگم رش،یہ سب ماحول کو آلودہ کرنے والی چیزیں ہیں اور ان سے معاشرے کو پاک رکھنے کا شریعت نے حکم ارشاد فرمایا ہے۔اسکا اہتمام کرنے والاشریعت کی نظر میں قابل تعریف ہے۔اس کے برعکس اگر کوئی فرد یا اجتماعی نظم ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے اقدامات نہیں کرتا تو وہ قہر خداوندی کو دعوت دیتا ہے۔اگر کارخانوں کے دھویں اور ویسٹ(waste) فضاء کو آلودہ کررہے ہوں،عوامی مقامات گند سے اٹے پڑے ہوں،پارکیں آلودہ اور مسافر خانوں کی بدبو ایک تعفن کی کیفیت پیدا کررہی ہوتو یاد رکھیں!!! اس کا فرد بھی مجرم ہے اور حکومت بھی بڑی مجرم تصور کی جائے گی۔قرآن وسنت کی رو سے سب جہنم رسید ہونگے۔ جو لوگ پاکیزہ فطرت ہوتے ہیں وہ معمولی سی آلودگی کو بھی پسند نہیں کرتے۔حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ جس راستے پر سفر فرماتے تو کسی ڈھیلے اور پتھر کو پڑا دیکھتے تو سواری سے اتر کر اسے ہٹا کر راستہ صاف فرما دیتے۔
قرآن مجید نے جہاں کرہ ارض کی دیگر چیزوں کو موضوع غور وفکر بنایا ہے وہاں ماحولیات کو بطور خاص اپنے موضوعات میں شامل کیا ہے۔قرآن مجید کی تقریبا دوسو کے قریب آیات ہیں جن میں ماحول کو آلودگی سے بچانے اور ماحول کو درست رکھنے کابالواسطہ یا بلاواسطہ حکم ہے۔دین اسلام نے ہر اس چیز سے منع کیا ہے جوکسی بھی صورت میں ہو اور اس سے ماحول پراگندہ ہو۔صحابی رسول حضرت معاذبن جبل(ان کے مزار پر راقم کو حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی،یہ ادرن میں ہے) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین لعنتی باتوں سے بچو۔پانی پینے کی جگہوں،راستے اور سائے میں پاخانہ کرنے سے بچو۔(ابوداؤد)
ماحول کو آلودگی سے بچانے کا سب سے بڑا ذریعہ درخت ہیں۔اس لیے اسلام نے شجرکاری پر بہت زور دیا ہے اور فرامینِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہمیں اسکی بہت تاکید ملتی ہے۔اسی طرح درختوں کو بلا وجہ کاٹنے پر سخت وعید کی گئی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی شخص نے کوئی پودالگایا(سایہ دار یا پھلدار) اس پودے سے انسان اور جانور جب تک کھاتے رہیں گے یا استفادہ کرتے رہیں گے تو اسکا اجر اس شخص کو ملتا رہے گا۔ سرکار دوعالم نے درخت لگانے کوصدقہ کا قرار دیا ہے اور جس کے لگائے ہوئے درخت سے لوگ فائدہ اٹھاتے وہ سرکار کے اس فرمان کے مطابق عند اللہ ماجور ہوگا۔ایک اور بہت ہی اہم حدیث ہے جس سے شجرکاری کی اہمیت واضح ہوتی ہے آپ نے فرمایا:ان قامت الساعۃ وفی ید احدکم الفسیلۃ فان استطاع ان لاتقوم الساعۃحتی یغرسھا فلییغرسھا۔(المتسدرک،کنزالعمال) اگر قیامت سر پہ کھڑی ہواور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی پودا ہواور وہ اسے لگا سکتا ہو تو اسے ضرور لگانا چاہیے۔
بلاوجہ درختوں کے کاٹنے والوں کے لیے وعید سناتے ہوئے فرمایا،حضرت ابو قتادہ بن ربیع روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا،آپ نے فرمایا یہ جنازہ آرام والا ہے یا آرام دینے والا ہے؟ صحابہ نے عر ض کی اے اللہ کے رسول ہم آپکے فرمان کا مفہوم نہیں سمجھ سکے۔فرمایا: جب مسلمان فوت ہوتا ہے تو وہ مصائب دنیا اور اسکے صدمات سے جان چھڑا کر آرام وسکون میں چلا جاتا ہے اورجب کافر مرتا ہے تو اس سے جن وانس بستیاں،درخت اور جانور آرم پالیتے ہیںکیونکہ وہ بندوں کو ستاتا ہے،درختوں کو کاٹتا ہے اور جانوروں کو ناحق مارتا ہے(نسائی،ج1،ص272،مکتبہ رحمانیہ لاہور)۔
آج پوری دنیافضائی آلودگی کا شکار ہے۔یہ مسئلہ اب بین الاقوامی صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ صحت کے بین الاقوامی مقتدراداروں کے مطابق ہر سال ستر لاکھ سے زائد لوگ فضائی آلودگی کی وجہ سے لقمہء اجل بن جاتے ہیں۔اگر ہم اس پر تھوڑی سی توجہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ انسان نے اپنے لیے خود کھڑا کیا ہے۔اسلام نے اس فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے پودے اور درخت لگانے اور پرانے لگے ہوئے درختوں کو محفوظ رکھنے کا بڑی سختی سے حکم دیا ہے۔بلا وجہ درخت کاٹنے کو فساد فی الارض سے تعبیر کیا گیا ہے،دوران جہاد بھی درختوں اور خصوصا پھلداراور سائیہ دار درختوں کو کاٹنے سے منع کیا گیا ہے۔اس سے بڑھ کر اور سختی کیا ہوسکتی ہے کہ پھلدار درخت کو پتھر مارنا بھی جرم قرار دے دیاجائے۔حضرت رافع بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں انصار کی کھجوروں کو پتھر مارکر گرا رہاتھاکہ وہ مجھے پکڑکر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے،آپ نے مجھے فرمایا کہ آپ انکی کھجوروں کو کیوں پتھر مارہے تھے؟ میں نے عرض کی اللہ کے رسول بھوک کی وجہ سے،آپ نے فرمایا:جو گری ہوئی ہوں وہ کھالیا کرو، پتھر نہ مارا کرو۔اللہ سبحانہ وتعالی آپکو سیر کرے اور آسودہ حال کرے۔(ترمذی)لیکن آج پوری دنیا میں ٹمبر مافیا موجود ہے جو درختوں کا دشمن ہے۔پاکستان میں بھی اس مافیا نے اپنی جڑیں بہت مضبوط کی ہوئی ہیں۔مختلف ایوانوں میں اس مافیا کے نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں اور انکی سرپرستی میں جنگلوں کے جنگل تباہ برباد کردیے گئے ہیں۔اس ظالم ٹمبر مافیا نے ہرے بھرے اور سرسبزوشادات جنگلوں کو اپنی ہوس زر کا نشانہ بناتے ہوئے سنگلاخ چٹانوں میں تبدیل کردیا ہے۔آج آپ اگر جنگلوں کو دیکھنے جائیں تو آپکو افسوس ہوگا کہ یہاں کوئی کارآمد اور بڑا درخت موجود نہیں ہے۔میں پچھلے دنوں اپنے گاوں میں ایک سرکاری جنگل سے گزررہاتھا،2000 کنال پر محیط اس جنگل میں مجھے کوئی جوان یا بوڑھا درخت تاحد نگاہ نظر نہیں آیا۔انگریز کے دورکا یہ جنگل بڑے درختوں سے ٹمبر مافیا نے خالی کردیا ہے۔ یہی حال پورے پاکستان میں جنگلوں کا ہے۔
آج پوری دنیا میں موسم تبدیل ہورہے ہیں،یہ کلائمیٹ چینج انہی درختوں پر کلہاڑے چلانے کی وجہ سے آرہی ہے۔یہ درخت اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے،یہ درجہء حرارت کو کنٹرول کرے،یہ سیلابوں کو کنٹرول کرے،یہ ہمیں مفید اور جانفزا آکسیجن عطا کرے اور یہ زندگی کے دشمن مادوں کو اپنے اندر جذب کرے۔۔ ہم ہیں کہ اس کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ہم اس کے نہیں اپنی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ مافیاز دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہیں مگر ان کو کنٹرول کرنا ہر ملک کا بین الاقومی فریضہ ہے۔یہ بات خوش آیند ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت نے اس ایشو پر توجہ دی ہے اور شجرکاری کو اپنے ایجنڈے پر رکھا ہے۔وزارت ماحولیات کو اپنے فرائض سے
غافل نہیں ہونا چاہیے۔وزارت ماحولیات کو دیگر اداروں کے ساتھ کوآرڈینیشن کو مضبوط کر کے ان سے مدد لینی چاہیے۔یونیورسٹیز،کالجز اور سکولوں سے شجرکاری کے حوالے سے بہت مدد لی جاسکتی ہے۔
ہم پاکستانی بے شمار آلودگیوں کا شکار ہیں۔ہمارے بڑے بڑے شہروں کی گلیاں محلے اور سڑکیں کوڑا کرکٹ سے اٹے پڑے ہیں۔اسلام آباد کا سی ڈی اے ایک بڑا ادارہ ہے جسکا اربوں روپئے کا سالانہ بجٹ ہے مگر سڑکوں پر پڑے کوڑے کے ڈبے تعفن پھیلا رہے ہیں۔لاہور کا ایل ڈی اے لاہور کو صاف ستھرا رکھنے میں بالکل ناکام ہے اسی طرح کراچی کا کے ڈی اے خدا جانے کہاں ہے۔کراچی میں جو اس کوڑے کی وجہ سے فضائی آلودگی اور تعفن ہے الامان والحفیظ۔آپ کراچی جائیں اور صفائی کی صورت حال دیکھیں دو کروڑ آبادی کا شہر اداروں کے غیر ذمہ دارانہ رویوں نے اسے کیسے آلودہ رکھا ہوا۔ایران کا شہر تہران بھی دوکروڑ آبادی سے زائد کا شہر ہے آپ جائیں تو آپ کو یوں لگے کا کہ کس خوبصورت جنت میں آگئے ہیں۔اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک کے شہر گنجان آباد ہونے کے باوجود خوبصورتی میں میں بھی بے مثال ہیں۔
ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ حکومتی ادارے جتنے بھی متحرک ہوجائیں جب تک عوام اداروں کا ساتھ نہیں دیتے اور اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے تب تک کوئی بندوبست اور انتظام کامیاب نہیں ہوسکتا۔حکومتی ادارے اپنی ذمہ داری کا حساس کریں اور ہم عوام اپنے سماجی رویوں میں تبدیلی لائیں توفضائی آلودگی اور دیگر تمام مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔زندگی آسان ہو سکتی ہے۔وماتوفیقی الا باللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں