251

قربانی کی حکمت و فلسفہ. رابعہ ناصر

ذوالحج کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، یہ اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ اس مہینے میں حج جیسی بابرکت عبادت کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے اور قربانی کی جاتی ہے۔

قربانی کیا ہے؟

لفظ قربانی قرب سے مشتق ہے جس کے معنی ہے “نزدیک ہونا”، قربان صیغہء مبالغہ ہے۔ امام راگب اصفہانی قربانی کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، شرع میں یہ قربانی یعنی جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔”

قرآن کریم میں قربانی کے لیے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
• سورة المائدہ کی آیت نمبر 27 میں قربانی کا لفظ استعمال ہوا ہے:
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ.
(اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ جب دونوں نے (اﷲ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی تو اس (قابیل) نے (ہابیل سے حسداً و انتقاماً) کہا: میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا، اس (ہابیل) نے (جواباً) کہا: بیشک اﷲ پرہیزگاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہے۔

• سورة الحج آیت نمبر 22 میں منسک کا لفظ استعمال ہوا ہے:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ۔

اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اﷲ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام لیں، سو تمہارا معبود ایک (ہی) معبود ہے پس تم اسی کے فرمانبردار بن جاؤ، اور (اے حبیب!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔

• سورة الکوثر آیت نمبر 2 میں لفظ نحر استعمال ہوا ہے:
اِنَّآ اَعْطَيْنٰکَ الْکَوْثَرْO فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْO إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُO

بیشک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔ پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّ ہے)۔ بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا۔

گزشتہ اقوام میں رائج قربانی:

یہ بات مسلّم ہے کہ گزشتہ اقوام میں بھی قربانی رائج تھی اور یہ صرف امت محمدیہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خاصہ نہیں ہے بلکہ قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے رائج ہے لیکن ہر ایک کا قربانی کا طریق جداگانہ تھا۔

روئے زمین میں ہونے والی سب سے پہلی قربانی:

روئے زمین پر سب سے پہلی قربانی کا ذکر سورة المائدہ کی آیت نمبر 27 میں موجود ہے:”(اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ جب دونوں نے (اﷲ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی تو اس (قابیل) نے (ہابیل سے حسداً و انتقاماً) کہا: میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا، اس (ہابیل) نے (جواباً) کہا: بیشک اﷲ پرہیزگاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہے۔”

یہ قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندگان نے دی تھی ایک بھائی نے زمین کے پھلوں میں سے پھل چنے اور قربانی کے لیے پیش کیے اور ایک نے اپنے ریوڑ سے عمدہ جانور کو نذر کیا، لہذا عمدہ کو قبول کر لیا گیا اور پھر دنیا میں پہلا قتل حسد کے نتیجے میں ظاہر ہوا۔

حضرت نوح علیہ السلام کی تعمیر کردہ قربان گاہ:

حضرت نوح علیہ السلام نے ایک جگہ عمارت تعمیر کی تھی جہاں بہت سے جانور بطور قربانی ذبح کیے جاتے تھے ان جانوروں کو اس جگہ جلادیا جاتا تھا۔ قربانی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ آسمان سے آگ آتی اور قربانی کے جانور کو جلا دیتی جس کے جانور کو آگ لے جاتی تھی اس کی قربانی قبول ہوجاتی تھی۔ پھر اس میں بھی سرکش لوگوں نے سرکشی کی اور ایک حصہ اللہ کے نام پر اور دوسرا حصہ بتوں کے نام پر مختص کرنے لگے۔ جو کہ سراسر گمراہی ہی گمراہی کا عمل تھا۔

امت محمدیہ کا خاصہ:

اگر قرطاس تواریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گزستہ امتوں کو قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن امت محمدیہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس کی اجازت دی گئی اور یہ اللہ کریم کا ہم پر خاص انعام ہے۔

ذبیح اللہ:

جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا دور آفرین تھا تو خواب میں آپ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم ملا۔ جب بیدار ہوئے تو حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنا خواب اپنے فرزند انجمن کے گوش گزار کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جو تابعداری کا پیکر تھے، بلا تردد اپنے والد کے ہمراہ (مکہ سے منٰی) قربان گاہ کی طرف ہو لیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ ترجمہ: اے میرے بیٹے میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ میں آپ کو ذبح کرتا ہوں، پس بیٹا آپ کی کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کیا ہی خوب جواب دیا۔ ابا جان، آپ کو جو حکم ہوا ہے، اس پر عمل کر گزریئے، آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورۃ الصافات، آیت نمبر : 102)

جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام جب ذبح گاہ پہنچے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا:” ”والد محترم ! اگر آپ نے مجھے ذبح کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو پہلے مجھے رسیوں کے ساتھ مضبوطی سے باندھ لیں تاکہ میں تڑپ نہ سکوں اور اپنے کپڑے بھی سمیٹ لیں تاکہ میرا خون آپ کے کپڑوں پر نہ آئے اور میرا اجر کم نہ ہو کیوں کہ موت بہت سخت ہوتی ہے اور اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کر لیں تا کہ وہ مجھ پر آسانی سے چل جائے اور جب آپ مجھے ذبح کرنے کے لئے لٹائیں تو پہلو کے بل لٹانے کی بجائے پیشانی کے بل لٹائیں کیوں کہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ جب آپ کی نظر میرے چہرے پر پڑے گی تو اس وقت آپ کے دل میں رقت پیدا ہو گی اور وہ رقت اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور آپ کے درمیان حائل ہو سکتی ہے اور اگر آپ مناسب سمجھیں تو میری قمیص میری والدہ ماجدہ کو دے دیجیے گا تا آن کہ انہیں تسلی ہو اور انہیں مجھ پر صبر آ جائے۔”

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ” اے میرے تابعدار فرزند ! تم اللہ کریم کی اطاعت میں میرے معاون و مددگار ثابت ہوئے۔” اس کے بعد فرزند کی خواہش کے مطابق پہلے انہیں اچھی طرح باندھ دیا، پھر اپنی چھری کو تیز کیا اوراپنے فرزند کومنہ کے بل لٹا کر ان کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں، پھر ان کے حلق پر چھری چلادی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں چھری کو پلٹ دیا،اس وقت غیب سے ایک ندا کی گئی ”اے ابراہیم ! تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا اور اپنے فرزند کو ذبح کے لئے پیش کر کے اطاعت وفرمانبرداری کو کمال عروج پر پہنچا دی، بس اب یہی بات کافی ہے، یہ ذبیحہ تمہارے بیٹے کی طرف سے فدیہ ہے اسے ذبح کر دو۔ یہ واقعہ منیٰ میں واقع ہوا۔”

شیطان کا مکر و فریب:

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند کو لے کر روانہ ہوئے تو شیطان مرد کی صورت میں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے پاس پہنچا اور ذبح کے متعلق بتا کر کہنے لگا کہ اس خواب کو حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم خداوندی گمان کرتے ہیں۔” تو حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے فرمایا:” اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو بخوشی انہیں اس کی تعمیل کرنی چاہیے۔” شیطان کو جب یہاں سے مات ملی تو وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاس گیا اور کہا: “آپ کے والد آپ کو اللہ کے حکم کی تکمیل کے لیے ذبح کے ارادے سے لے کر جارہے ہیں۔” آپ علیہ السلام نے کہا:” اگر ایسا ہے تو والد محترم کو اس حکم کی تکمیل کرنی چاہیے اور ذرا تامل نہیں کرنا چاہیے مجھے اطاعت گزار پائیں گے۔”جب شیطان نے یہاں سے بھی شکست کھائی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس گیا اور کہا:”اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ شیطان آپ کے خواب میں آیا اور اس نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔

اس کی بات حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے کانوں پر جب پڑی تو اسے پہچان گئے اور فرمایا”اے دشمن خدا! مجھ سے دور ہٹ جا، میں اپنے خالق و مالک کے حکم کو ضرور باالضرور من و عن بجا لاؤں گا۔ یہاں سے بھی شیطان کو شکست فاش ہوئی۔

یہ وہ عظیم قربانی تھی جس کی یادگار کے طور پر اسے امت محمدیہ کے ساتھ مشروع کیا گیا اور ہر صاحب استطاعت و نصاب پر قربانی کرنا واجب قرار پائی گئی۔

قربانی کے دن محبوب عمل:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو”۔(امام ترمذی و ابن ماجہ)

اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے میں حکمت:

اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اس سے انسان اس حکم کی تعمیل کرتا ہے جو اسے اس کے رب نے دی، لہذا ہر ایک کو چاہیے کہ وہ قربانی اپنے ہاتھ اور دلجمعی سے کرے اور یہ بات ذہن میں رکھے کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا، اور اللہ کریم کی اطاعت کا عہد کرے کہ زندگی کے ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت لازمی کرے گا۔

قربانی کا مقصد:

یاد رہے کہ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ہمیں تسلیم و رضا کا درس دیتی ہے، ہمیں ایثار و قربانی پر برانگیختہ کرتی ہے اور یہ باور کرواتی ہے کہ اپنے مسلمان غرباء و مساکین بھائیوں کو مت بھول جانا جو بھوک و افلاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں، اللہ کریم نے تمہیں موقع دیا ہے کہ ان غرباء و مساکین کا خیال کر کے اس کا قرب حاصل کرسکو اور اپنے لیے سامان نجات جمع کرسکو اور یہ عمل سارا سال جاری رکھو۔

اللہ کریم ہمیں حسن نیت کے ساتھ یہ فریضہ انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں