216

قابل ِفکر باتیں. ڈاکٹر عبد القدیر خان

افغانستان اور ایران کی زمینیں بے حد زرخیز اور مردم خیز ہیں۔ نہایت جیّد عالم پیدا کئے ۔خاص طور پر مولانا جلال الدین رومیؒ، شیخ سعدیؒ، نظام الملک طوسی، عمر خیّام وغیرہ عالمی شہرت یافتہ شخصیتیں ہیں اور ان کی کتب کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے اور مغربی ممالک کے مفکرین اور فلسفی ان سے بے حد متاثر اور مستفید ہوئے ۔ آج شروع کروں گا ۔ شیخ سعدی شیرازیؒ کے ایک قول سے مگر اس سے پہلے چند باتیں ان کی شخصیت کے بارے میں۔

شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی شیراز میں 1200 کے اوائل میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد محترم ایک شاعر تھے۔ بعض تاریخ دان آپ کی تاریخ پیدائش 1184 بتاتے ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم شیراز اور بعد ازاں بغداد میں حاصل کی ۔ آپ کی دو کتب بوستان اور گلستان عالمی شہرت کی حامل ہیں ، ان میں نہایت اعلیٰ سبق آموز حکایتیں درج ہیں۔ آپ کی رحلت 1291میں بتائی گئی ہے۔

دیکھئے چودھویں صدی میں پہلی مرتبہ مغرب نے اسلام اور اسلامی فلسفہ و تصوّف کے بارے میں دلچسپی لینا شروع کی اور فارسی زبان میں موجود اعلیٰ لٹریچر کا انگریزی، فرانسیسی وغیرہ زبانوں میں ترجمہ شروع کردیا۔ سب سے پہلے عمر خیامؒ کی رباعیات کا ترجمہ کیا گیا۔ اس کے بعد مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی شائع ہوئی اور اس نے دھوم مچادی۔ اس کے بعد شیخ سعدیؒ کی گلستان اور بوستان کا ترجمہ کیا گیا اور انھوں نے بے حد شہرت حاصل کی۔ شیخ سعدیؒ کا جو منفرد مقام ہے اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے مسائل آپ نے نہایت چھوٹی چھوٹی حکایات کے ذریعے حل کرکے ان کا اخلاقی خلاصہ بیان کردیا ہے۔ آپ نے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل اور گہرے سے گہرا قضیہ چند سطور میں بیان کردیا ہے۔ جب آپ شیخ سعدیؒ کی بیان کردہ چھوٹی چھوٹی حکایتیں پڑھتے ہیں تو بات سمجھ میں آجاتی ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ اتنی گہری بات اس قدر آسانی سے بیان کرگئے ہیں۔ جن خوش قسمت افراد کو گلستان اور بوستان پڑھنے کا موقع ملا ہے وہ اس بات کو بخوبی محسوس کرسکتے ہیں کہ ان حکایات میں شیخ سعدیؒ مرحوم نے قرآنی احکامات کی ترجمانی اور عکاسی کی ہے۔ حضرت شیخ سعدیؒ نے ایک مرتبہ فرمایا:

خر عیسیٰ خرش بہ مکّہ برند

چوں بہ آید ہنوز خر باشد

یعنی حضرت عیسیٰ کا گدھا بار بار مکّہ گیا مگر جب بھی واپس آیا تو گدھا ہی تھا۔ مطلب یہ کہ انسان بار بار حج یا عمرہ کرنے سے عالم یا اچھا مسلمان نہیں ہوجاتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیخ سعدیؒ غالباً سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۱۹ سے متاثر ہوئے تھے۔ یہ آیت اس طرح ﷲ تعالیٰ نے بیان کی ہے۔ ’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور خانہ کعبہ کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کی راہ میں (مال و جان سے) جہاد کرتا ہے۔ یہ لوگ ﷲ کے نزدیک برابر نہیں ہیں اور ﷲ ظالم (گنہگار) لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ہے۔‘‘ یہ ہی حالت ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کی اکثریت کی ہے۔

شیخ سعدیؒ نے ایک اور اعلیٰ قول فرمایا ہے جو بعض حکمرانوں پر واجب آتا ہے۔

’’ماراچہ ازیں قصّہ کہ گائو آمد و خر رفت‘‘

یعنی ہمیں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا (یا ہمیں اس سے کیا غرض) کہ کون آیا اور کون چلا گیا یعنی حکمرانوں کے بدلنے سے عوام کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔

ایک مرتبہ شاہ عبدﷲ نے (جب وہ ولی عہد تھے) مجھے ریاض آنے کی دعوت دی تھی میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ گیا تھا۔ لنچ پر میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ شاہ عبدﷲ نے مجھ سے ایک حکمراں کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا کہ میرا ان سے تعلق نہیں رہا ہے اور میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بعد میں ، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ لاتعداد اسلامی ممالک کے سربراہوں کو روضہ مبارک اور خانہ کعبہ میں اندر جانے کی سہولت دیتے ہیں خدا کے لئے یہ نا کیجئے۔ آپ کو علم ہے کہ بعض حکمران بدکردار ہوتے ہیں۔ رسول کریم ؐ کی روح مبارک کو بہت تکلیف ہوتی ہوگی۔ انھوں نے سنجیدگی سے میری جانب دیکھا اور کہا واقعی آپ سچ کہہ رہے ہیں مگر ہماری مجبوری یہ ہے کہ یہ لوگ دوست ممالک کے سربراہ ہوتے ہیں اور یہ خود درخواست کرتے ہیں اور ہمارےلئے یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ ہم انکار کردیں۔ میں نے کہا آپ ایک آرڈر جاری کر دیں کہ کسی بھی شخص کو روضۂ مبارک اور خانہ کعبہ کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہوگی سوائے مشہور علمائے دین کے۔ یہ قانون ہمیشہ کے لئے بدکرداروں کا راستہ بند کر دے گا۔ وہ چپ ہوگئے اور مجھے یہ احساس ہوگیا کہ جومیں کہہ رہا ہوں ممکن نہیں ہوگا ۔

(نوٹ) شیخ سعدیؒ نے ایک حکایت میں بیان فرمایا ہے کہ خاموشی بہت سی بھلائیوں کی جڑ ہے اور دانائوں کا قول ہے کہ کم سونا، کم کھانا اور کم بولنا بہت سی برائیوں کو روکتا ہے جو انسان کم گو ہوتا ہے اس کی زبان غیبت، چغل خوری، بہتان بازی اور دیگر گمراہ کرنے والی باتوں سے محفوظ رہتی ہے۔ ہے کوئی حکمراں یا سیاست داں جو اس پر عمل کرے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں