199

فلسطین کا مقدمہ اور اقوام عالم.تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم

فلسطین کا مقدمہ اور اقوام عالم
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
اقوام متحدہ کا 76واں سالانہ اجلاس رواں ہے۔ ہر سال یہ اجلاس ماہ ستمبر کے آخری ہفتہ سے شروع ہو کر چند دن جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ اس اجلاس میں جہاں دنیا بھر کے سربراہان مملکت خطاب کرتے ہیں وہاں سائیڈ بائی سائیڈ وزرائے خارجہ اور دیگر اہم عہدیداروں کی ملاقاتیں اور منصوبوں کے بارے میں بھی گفت و شنید کا عمل جاری رہتا ہے۔
اقوام متحدہ نامی اس عالمی ادارے کے قیام کی بات کی جائے تو ا سکا بنیادی مقصد دنیا میں امن و امان قائم کرنا تھااور انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ اب اگر اس ادارے کی76سالوں کی کارکردگی اور اس پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر کے اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو اس ادارے کی کارکردگی تسلی بخش جیسے الفاظ کے قابل بھی نہیں ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ یہ ادارہ نہ صرف طے کردہ مقاصد کے حصول میں ناکام ہوا ہے بلکہ جدید دنیا میں عالمی استعماری قوتوں بالخصوص امریکہ اور مغربی اتحادیوں کے ناجائز مفادات اور ظالمانہ خواہشات کی تکمیل کے لئے ایک ٹول کی حیثیت اختیار کر چکاہے۔
حال ہی میں ہونے والے سالانہ 76ویں اجلاس میں متعدد ممالک کے سربراہان مملکت نے آن لائن خطاب کیا ہے کیونکہ کورونا سمیت دیگر کئی ایک اہم مسائل درپیش ہیں۔ البتہ دنیا کے کئی ایک ممالک سے وزرائے خارجہ ا س اجلاس میں بنفس نفیس پہنچ چکے ہیں۔اسی طرح اقوام متحدہ میں ممالک کے مستقل مندوب اور سفیر پہلے سے ہی اس اجلاس میں موجود ہیں۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو نے اقوام متحدہ کے اس سالانہ اجلاس کی روئیداد کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ اس بین الاقوامی ادارے کے ایک اہم اجلاس میں غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل سے تعلق رکھنے والا عہدیدار یا سفیر اپنی گفتگو میں دنیا کے نمائندوں کو بتاتا ہے کہ چونکہ یہودیوں کے ساتھ بہت ظلم و ستم ہو اہے اور ہولو کاسٹ کا تذکرہ بھی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام اراکین اور عہدیدار اسرائیل اور یہودیوں کے لئے ہمدردی کا اظہا ر کریں اور ایک منٹ کی خاموشی اختیا ر کرتے ہوئے نشستوں پر کھڑے ہو جائیں۔ دیکھا جائے تو اسرائیلی عہدیدار کی جانب سے یہ سرکس سے زیادہ کچھ نہیں۔حقیقت میں خود اسرائیل ایک ایسی جعلی ریاست ہے جو فلسطین پر غاصب ہے اور ہزاروں ہی فلسطینیوں کا قاتل ہے۔ بہر حال اس تقریر کے بعد کیوبا سے تعلق رکھنے والی خاتون سفیر کو گفتگو کے لئے کہا گیا تو انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز پر ہی اسرائیلی سفیر کی جانب سے مگر مچھ کے آنسو بہائے جانے کے سارے معاملہ کو اقوام متحدہ کے فلو ر پر ایک سرکس سے ہی تعبیر کیااور دنیا کو یاد آوری کرواتے ہوئے کہا کہ کیا دنیا نہیں جانتی ہے کہ اسرائیل فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اقوام متحدہ کے فلور پر مظلومیت کو یاد کرنا ہی ہے اور مظلوموں کی حمایت کرنی ہے تو پھر اسرائیل نہیں بلکہ فلسطین کے لئے کرنا چاہئیے اور ا س موقع پر انہوں نے ہاؤس میں موجود تمام اراکین اور عہدیداروں سے اپیل کرتے ہوئے انہیں ایک منٹ تک شہدائے فلسطین کے لئے خاموشی اختیار کرنے اور نشستوں سے کھڑے ہونے کے لئے کہا جس پر اقوام متحدہ کے ہاؤس میں موجود دنیا کے تمام ممالک سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں نے کھڑے ہو شہدائے فلسطین کو خراج تحسین پیش کیا اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
کیوبا جیسے ملک کی ایک خاتون سفیر کی جرات کو سلام پیش کرنا چاہئیے کہ جنہوں نے اقوام عالم کے سامنے اسرائیل کے اصل چہرے کو بے نقاب کیا۔ فلسطین کا مقدمہ اقوام متحدہ کے فورم پر ایسے وقت میں اٹھا یا کہ جب عرب اور مسلم حکمران اسرائیل کو تسلیم کر کے اسرائیل کے ساتھ تجارت اور دیگر معاہدوں میں مصروف عمل ہیں۔ کیوبا کی اس بہادر اور غیرت مند خاتون سفیر نے نہ صرف کیوبا کے عوام کے لئے دنیا کے عوام کے دل میں گھر کر لیا ہے بلکہ فلسطین سمیت دنیا کے دیگر اقوام کے سامنے ان تمام عرب و مسلم حکمرانوں کا چہرہ بھی بے نقاب کردیا ہے کہ جنہوں نے فلسطین کی حمایت سے ہاتھ اٹھا کر اسرائیل کے ساتھ دوستی کر لی ہے۔
اقوام متحدہ کے اس سالانہ اجلاس میں ہمیشہ کی طرح روٹین کی باتیں ہی سامنے آئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اس اجلاس کو کسی صورت ایک کامیاب اجلاس اس لئے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ جب تک فلسطین اور کشمیر کے مسائل منصفانہ طور پر حل نہیں کر لئے جاتے۔ فلسطین کے منصفانہ حل کے لئے کی جانے والی کوششوں کو بھی اسی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں عالمی استعماری قوتو ں بالخصوص امریکہ اور یورپی اتحادیوں کی جانب سے مسترد کر دیا جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر بھی اسی طرح کئی درجن قراردادوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے لیکن ان قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے والی بھارتی حکومت کے خلاف کوئی ایسا اقدام سامنے نہیں آیا ہے کہ جس سے بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ ان قراردادوں کے مطابق عمل کرے۔ یہی معاملہ فلسطین کے ساتھ ہے۔ فلسطین میں قتل و غارت اور اسرائیلی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ لیکن دنیا میں امن قائم کرنے کا نعرہ لگانے والے اس اقوام متحدہ نامی ادارے کو تاحال کامیابی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ اس کی راہ میں رکاوٹ خود اس ادارے کی تشکیل کی پیچیدگیاں اور عالمی استعماری قوتو ں کے مفادات اور ناجائز خواہشات ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اقوام عالم کے اس بین الاقوامی فورم کا سالانہ اجلاس پھر ایک مرتبہ بغیر کسی حتمی نتیجہ کے اختتام پذیر ہو رہا ہے اور دنیا کے مظلوموں کی نظریں اور آس اقوام عالم کے اس عالمی ادارے سے بندھی ہوئی ہیں کہ آخر مظلوم کس طرف جائیں؟ اس موقع پر علامہ اقبال کا تاریخی شعر جو انہوں نے البتہ اقوام متحدہ کی پہلی شکل یعنی انجمن اقوام کے لئے کہا تھا وہ آج اس دور حاضر کی انجمن اقوام یعنی اقوام متحدہ پر بھی سو فیصد درست آتا ہے کہ یہ ادارہ فقط کفن چوروں کی انجمن ہے۔ فلسطین کا مقدمہ فلسطینی اپنی مزاحمت کے بل بوتے پرلڑ رہے ہیں۔مزاحمت ہر محاذ پر فلسطین کا مقدمہ اٹھائے ہوئے ہے اور اس راستے سے کامیابیاں بھی حاصل ہو رہی ہیں۔اس موقع پر حال ہی میں اسرائیل کی ایک خودناک جیل میں قید چار فلسطینیوں نے ایک معمولی چمچہ اور اپنے ناخن کی مدد سے زمین کھود کھود کر سرنگ تیار کی اور جیل سے نکل جانے میں کامیاب ہو کر دنیا کے سامنے اسرائیل کی نام نہاد طاقت اور گھمنڈ کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔بطور مسلمان اور انسان ہمارا یہ فریضہ بنتا ہے کہ فلسطین کے مقدمہ میں اقوام عالم کے درمیان اجاگر کریں اور اس مسئلہ کو جس قدر ممکن ہو آنے والی نسلوں کے لئے زندہ رکھیں تا کہ صہیونی دشمن تاریخ کو مسخ کر کے فلسطین کی شناخت نابود کرنے سمیت فلسطین کے خلاف اپنی مذموم سازشوں میں کامیاب نہ ہونے پائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں