Skip to content

فرقہ واریت کا نا سور ملکی وملی سالمیت کیلئے خطرہ.آصف طاہر

فرقہ واریت کا نا سور ملکی وملی سالمیت کیلئے خطرہ
آصف طاہر
رسول کائنات، خاتم النبیینﷺ کا فرمان عالیشان ہے ” الکفر ملۃ واحدۃ” کفر ایک علیحدہ قوم ہے۔تو جوچیز کفر کے مقابل کھڑی ہوتی ہے وہ ہے اسلام ۔تاریخ کی اگرورق گردانی کریں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ کفر پر جب بھی مشکل وقت پڑا تواس سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایک دوسرے کے جانی دشمن بھی ایک ہو گئے ۔موجودہ حالات میں امریکہ ،برطانیہ،فرانس کی ہی مثال لے لیں وہ اسرائیل کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔پورا یورپ ،نیٹو،جی ایٹ گروپ کے ممالک اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہیں لیکن انبیاء کی مقدس سرزمین فلسطین کی حفاظت کیلئے تو عرب لیگ بھی تیار نہیں اور 60 لاکھ آبادی والا ملک اسرائیل ڈیڑھ ارب مسلم امہ کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے ۔اگر ایشیا میں نظر ڈالیں تو کشمیر جل رہا ہے اور مسلم امہ کا کردار خاموش تماشائی سے زیادہ نہیں جبکہ عالم کفرکی تمام بڑی طاقتیں بھارت کی پشت پناہی میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ اللہ رب العزت کا کتاب لاریب کی سورہ آل عمران کی آیت 103 میں فرماتا ہے کہ” اور تم سارے کے سارے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اور تم ا پنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کروجب تم آپس میں دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں الفت ڈال دی تو تم اس کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے “۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ “اللہ کی رسی سے مراد جماعت ہے” یعنی جماعت مسلمین کیساتھ وابستگی اختیار کرو اور” ولا تفرقوا”سے مراد ہے عقائد میں ایک دوسرے کی مخالفت کرکے مختلف گروہ نہ بناؤ۔ رسول رحمت ﷺ کا فرمان ہے کہ”جو میری سنت اور میرے اصحاب کے طریقے پر ہوگا اس کیلئے کامل نجات ہے”رسول برحق ﷺ اور آپ کے اصحاب کا طریقہ اتحاد تھا جیسے حضرت علامہ محمد اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ
یہی مقصود فطرت ہے ،یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری ،محبت کی فراوانی
اسی طرح بچپن میں ہمارے نصاب میں “ایک کسان اور لکڑیوں کا گٹھا” کی کہانی شامل تھی جس کا اخلاقی نتیجہ تھا “اتفاق میں برکت ” اور یہ اتفاق کہیں بھی ہو تو تاریخ کا دھارا بدلا جا سکتا ہے ۔ جناب حضور خاتم النبیینﷺ نے فرمایا کہ “مسلمانوں کی مثال ایک دیوار کی سی ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے”۔ عالم کفر اس حقیقت سے واقف ہے کہ مسلمانوں سے اگر دو بدو جنگ ہو تو فتحناممکن ہے۔زمانہ ماضی میں جب بھی کو ئی عقلمند بادشاہ کسی دوسرے ملک کے بادشاہ کے قلعے پر حملہ آور ہوتا تو قلعےکے مرکزی دروازے سے براہ راست حملہ کرنے کی بجائے قلعے کی کمزور فصلیوں کا جائزہ لیکر سپاہی اندر بھیجتا تاکہ دشمن کو اندر سے کمزور کر کے شکست دی جائے۔عالم کفر جانتا ہے کہ مسلمان قوم کو شکست دینے کے لئے ان کو ٹکڑوں میں بانٹنا بہت ضروری ہے اسی لئے وہ اس مقصد و مشن پر گامزن ہے کہ” تقسیم کرو اورحکومت کرو” سرزمین اندلس ( سپین) سے مسلمانوں کے 800 سالہ دور اقتدار کے خاتمے کی وجہ فرقہ واریت ہی تھی ۔آج اگر لیبیا،عراق،شام ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں تو اس کے پیچھے داخلی انتشار کار فرما ہے اگر یہ تسلسل اسی انداز سے برقرار رہا توکچھ بعید نہیں کہ ملت اسلامیہ پارہ پارہ ہو جائے ۔گذشتہ چند دہائیوں سے پاکستان میں بھی فرقہ واریت کا عنصر زور پکڑ رہا ہے جو کہ قومی وحدت اور مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سالمیت کیلئے بھی خطرہ ہے ۔ فرقہ واریت کی جنگ میں اسلامیان پاکستان اس حد تک کود چکے ہیں کہ ایک دوسرے کی تکفیر شروع کر دی گئی ہے ۔بلکہ بعض فرقوں کے ماننے والے تواپنے ہی فرقے کے لوگوں کی تکفیر کرنے میں مصروف ہیں اور ہر شخص اپنی حیثیت کو منوانے لئے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رہاہے ۔سوشل میڈیا جو کہ لوگوں کو جوڑنے کا سبب ہے آج اسی کے ذریعے سےہی انتشار و افتراق پھیلایا جا رہا ہے ۔ حکومت وقت کا کردار موجودہ حالات میں بالکل صفرہے ۔ گذشتہ محرم الحرام میں مسلمانان پاکستان کی وحدت کو کس انداز میں پارہ پارہ کیا گیاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ کتنی دیدہ دلیری سے شان الوہیت جل جلالہ ،رسول پاک ﷺ ،آپ ﷺ کے بر گزیدہ اصحاب اور اہلبیت اطہار رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شان میں گستاخیاں کی گئیں اور گستاخی کرنے والوں کو بجائے عبرتناک سزا دینے کے حکومتی سرپرستی میں ملک سے باہر بھجوا دیا گیا ۔ایسے امور مملکت خداداد پاکستان کو انتشار کی آگ میں دھکیلنے کی سازش ہے۔قیام امن حکومت کی ذمہ داری ہے جو وہ پوری نہیں کر رہی جس کی وجہ سے فرقہ واریت کا عفریت اپنے شکنجے کس رہا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے حکومت وقت آگے بڑھے اور فرقہ واریت پھیلانے والے سانڈھوں کو نکیل ڈالے ۔بیرونی دشمن مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خارجی سرحدوں پر ہم سے بر سر پیکار ہیں جس کا ہماری بہادر افواج دلیری سے مقابلہ کر رہی ہے۔اگر فرقہ واریت کے جن کو قابو نہ کیا گیا تو ہم داخلی طور پر بھی کمزور ہوجائیں گے جس کے ہم متحمل نہیں ۔موجودہ حالات میں علماء کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہےکہ وہ امن کے قیام کےلئے آگے بڑھیں،فرقہ پرست کا تعلق جس مسلک سے بھی ہو علماء شد و مد سے اس کا محاسبہ کریں اور تمام مسالک کے اکابرین کو اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ یا ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ملی وحدت کا پیغام دینا ہو گا اور “اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہیں” کہ پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہو گا ۔بصورت دیگر ملک خوفناک خونریزی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان سے فرقہ واریت کے ناسور کے خاتمے کیلئے چند تجاویز درج ذیل ہیں:
1۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد واتفاق قائم کرنے کیلئے تمام مسالک کے معتدل اکابرین ملکر ضابطہ اخلاق مرتب کریں جس کی خلاف ورزی قابل جرم قرار دی جائے ۔
2۔قانون ناموس رسالت ﷺ-C295 ،تحفظ عصمت انبیاء، تحفظ عصمت اہلبیت اطہار و صحابہ کرا م رضوان اللہ علیھم اجمعین کے قوانین پر حکومت جرم ثابت ہونے پر آئین پاکستان میں تحریر کردہ سزاؤں پر عملدرآمد یقینی بنائے ۔تاکہ کوئی شخص قانون کو ہاتھ میں لینے کی جسارت نہ کرے ۔
3۔۔ حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال کرے اور قانون کی بالا دستی کویقینی بنائے ۔فرقہ واریت کو فروغ دینے والے علماء،خطباء اور ذاکرین پر پابندی لگائی جائے اور ملک میں انتشار و افتراق پھیلانے والوں کیساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے ۔
4۔ علماء ،خطباء اور مصنفین اپنی تحریروں وتقریروں سے معاشرے میں توازن و اعتدال پیدا کرنے کی راہ ہموار کریں اور دوسرے مسالک کی برگزیدہ شخصیات اوراکابرین کا احترام کرنے کی روش کو فروغ دیں۔
5۔ایسے نفرت انگیزمواد، بیانات وتقاریر سے احتراز کیا جائے جن سے دیگر مسالک کےمقدسات کو توہین ہوتی ہو،جذباتی نعروں اور دل آزار خطبوں سے پرہیز کیا جائے ۔
6۔ تمام مکاتب فکر کے درمیان صلح محبت ،رواداری،افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنے کیلئے قومی وحدت کانفرنسز منعقد کروائی جائیں ۔
7۔ذرائع ابلاغ کو بین المسالک ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کےفروغ کیلئے استعمال کیا جائے ۔
8۔ حکومت مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کے احترام اور تحفظ کو یقینی بنا ئے نیز اقلیتی فرقوں کے تحفظ اور ان کے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے انتظامات کرے۔
9۔باغ فدک اور اس طرح کے دیگر نزاعی موضوعات کو زیر بحث لانے پر” ہولو کاسٹ” طرز کی پابندی لگائی جائے ۔
10۔ تمام مسالک کے برگذیدہ علماء پر مشتمل “قومی وحدت بورڈ “تشکیل دیا جائے جہاںوقتا فوقتا تمام مکاتب فکر کے علماء کرام مجتمع ہو کر اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں اور آئندہ کیلئے نئے اقدامات تجویز کریں اور مسلکی تنازعات کو باہمی مشوروں اور افہام و تفہیم سے طے کریں۔
11۔ایسی مساعی جمیلہ کو عمل میں لایا جائے جس سے عامۃ الناس میں علماء و مشائخ کا اعتماد بحال ہو اور دین کو فروغ حاصل ہو ۔
12۔ جمعۃ المبارک،عیدین،محافل میلاد،مجالس عزا کے خطبوں میں ایسی تقاریر کی جائیں جن سے مسلمانوں میں اتفاق واتحاد پیدا ہو۔
13۔ پبلک پلیٹ فارم سے اپنے مخالفین کے خلاف طعن و تشنیع سے مکمل اجتناب کیا جائے ۔ قومی وحدت بورڈ کے پلیٹ فارم سے حکومت کو وقتا فوقتا ایسے مشورے دیئے جائیں جن سے مسلمانوں کے درمیان محبت و یکجہتی پیدا ہو۔
14۔ مذہبی محافل،مجالس،جلوس ریلی کے انعقاد میں ایسے انتظامات کئے جائیں کہ جن سے دیگر افراد معاشرہ کو تکلیف نہ پہنچے ۔
16۔ قومی و ملکی وملی معاملات و حالات میں تمام مکاتب فکر کے علماء کما حقہ متحد رہیں اور پاکستان کی سالمیت وتحفظ اور اس کی ترقی کیلئے خلوص نیت سے کام کریں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *