عمران کو 7 دن کی مہلت
اسلام آباد (نمائندہ نیوز) سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں اظہار وجوہ کے نوٹس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں بدھ کو دوپہر ڈھائی بجے شروع ہونا تھی لیکن دن کے آغاز سے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ارد گرد کرفیو کا سا سماں تھا۔
اسلام آباد پولیس کے علاوہ ایف سی اور رینجرز کے اہلکاروں کو صبح چھے بجے ہی تعینات کرنے کے علاوہ اس علاقے میں موجود تمام دوکانوں کو بند کروا دیا گیا تھا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان جب کمرہ عدالت میں آئے تو اپنی نشست پر بیٹھنے سے پہلے کمرہ عدالت میں موجود اعظم سواتی سے استفسار کیا کہ اتنی سکیورٹی کیوں ہے جس پر شاہ محمود قریشی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ لگتا ہے کہ ’کسی دہشت گرد نے عدالت میں آنا تھا۔‘
عمران خان مسکراتے ہوئے بولے ’میں عمران خان ہوں، دہشت گرد نہیں۔‘
عمران خان جب اپنی کرسی پر براجمان ہوئے تو کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں نے ان پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ جب ایک صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ جب آپ کو معلوم تھا کہ شہباز گل پر مبینہ تشدد کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو پھر آپ نے ایڈیشنل سیشن جج کو کیوں دھمکیاں دیں جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے لیگل ایکشن لینے کی بات کی تھی۔
اس سے پہلے کہ عمران خان اس بارے میں مزید بات کرتے، شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وہ یہ باتیں میڈیا پر لگا دیں گے اور اس طرح کی گفتگو سے توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کرنے والے ججز اپنا ذہن بنا لیں گے، اس لیے عمران خان عدالتی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کریں گے۔
توہین عدالت سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران سینیئر وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے اور یہ پہلا موقع تھا کہ وزیر اعظم کے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد عمران خان اور حامد خان کے تعلقات بحال ہوئے۔ اس سے پہلے حامد خان پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں کے ساتھ تھے اور عمران خان کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے تھے۔
سماعت کے دوران جب حامد خان دلائل دے رہے تھے تو عمران خان کی انگلیاں ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح کے دانوں پر تھیں۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بنچ سے گفتگو شروع کی تو عمران خان نے تسبیح کو انگلیوں میں گھمانا شروع کر دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کی طرف سے جمع کروائے گئے جواب پر افسوس کا اظہار کیا اور یہ ریمارکس دیے کہ بہتر ہوتا کہ عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں آنے سے پہلے ایڈیشنل سیشن جج کے پاس جا کر معذرت کرتے جن کو انھوں نے دھمکی دی تھی۔ چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر عمران خان نے متعدد بار نفی میں سر ہلایا۔
عدالت نے عمران خان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے انھیں سات روز میں تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم دیا۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے سامنے سپریم کورٹ کے توہین عدالت کے فیصلے بھی موجود ہیں جن میں لوگوں کو سزا سنائی گئی اور اسلام آباد ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے ان فیصلوں کی پابند ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اسی عدالت نے پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا تھا تو اسد عمر نے، جو کہ عمران خان کی پچھلی نشست پر بیٹھے تھے، عمران خان کے کان کے قریب آ کر کہا کہ عدالت اس قانون کی بات کر رہی ہے جو ان کے دور حکومت میں بنایا گیا تھا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس کی طرف سے یہ ریمارکس آئے کہ عدالت توہین عدالت کے معاملے کو شفاف انداز میں چلانا چاہتی ہے اس لیے انھیں عدالتی معاون درکار ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کے وکیل حامد خان نے جب سابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک کا نام لیا تو عمران خان نے اپنی سیٹ پر بیٹھے ہوئے اونچی آواز میں کہا کہ اعتزاز احسن کو بھی رکھ لیں۔
سماعت کے دوران اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے نوٹس میں کچھ شواہد لے کر آنا چاہتے ہیں تو اس پر چیف جسٹس نے انھیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کا معاملہ عدالت اور عمران خان کے درمیان ہے اس لیے انھیں بولنے کی اجازت نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ چیف جسٹس کو معافی مانگنی چاہیے۔ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ وہ ہمیں بےشک نتقید کا نشانہ بناتے رہیں ہم اس کا برا نہیں مانیں گے۔
عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت فواد چوہدری کے ان بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور فواد چوہدری سے اچھے کی امید بھی نہیں رکھنی چاہیئے۔ حامد خان کا یہ بیان سن کر عمران خان کمرہ عدالت میں مسکرانے لگے۔