عدم برداشت کا کلچر
تحریر:مفتی گلزار احمد نعیمی
جب معاشرے کے اندراقدار کا نظام( values system) مضبوط ہوتا ہے تویہ معاشرے کو عدم برداشت کی طرف جانے سے روکتا ہے ۔معاشرے میں جوں جوں اسکی روایات کمزور ہوتی ہیں تو ں توں عدم برداشت کارویہ بڑھتا چلا جاتا ہے جس معاشرہ میں عد م برداشت کا عنصر مغلوب ہو تا ہے وہاں رواداری کے اصول غالب رہتے ہیں۔
کسی معاشرہ کی تباہی و بربادی کا آغاز اس وقت ہو جاتا ہے جب وہ عدم برداشت کےرویوں کو قبول کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ جب والدین یہ سوچانا شروع کر دیں کہ انکا بچہ بغیر سزا کےنہیں سدھر سکتا اور جب ایک استاد یہ فیصلہ کر لے کہ میرا شاگرد اس وقت تک سبق یاد نہیں کرے گا جب تک میں ڈنڈا نہیں چلاوں گا تو اسکا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کی اہم ترین اکائیاں عدم برداشت کو قبول کر رہی ہیں اور عدم برداشت کے رویے کو سند جواز فراہم کر رہی ہیں۔
ہم مسلمان ہیں اللہ نے ہمیں دولت اسلام سے مالامال کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کیا ہے ؟ اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام، عقائد عبادات، اخلاق اور شریعت کا نام ہے عقیدہ اور عبادت انسانی فکر کو رہنمائی دیتے ہیں اور انسانی سوچ کو پختہ کرتے ہیں۔ اخلاق کے ذریعے قلب کو طہارت نصیب ہوتی ہےکیونکہ ایک قلب طاہرہی زندہ دل ہوتا ہے جو دل طہارت کی دولت سے محروم ہو وہ زندہ دل نہیں کہلاسکتا ، عدم برداشت کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے مردہ دلی کو ختم کر کے دلوں کو زندہ کرنا ہو گا ۔ قلوب کی کھیتیوں کی اس طرح آبیاری کی جائے کہ ہر قلب زندہ ہو جائے، قلوب کے زندہ ہونے سے قوم زندہ ہو جائے گی۔ علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا۔
دل مردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
شریعت کے ذریعے معاشرے میں عد ل و انصاف قائم رہتا ہے اور جس معاشرہ میں عدل و انصاف موجود ہو وہاں کبھی بھی عدم برداشت کا کلچر نہیں پنپتا ۔ شریعت عدل و انصاف کے ترازو کو مساوی کر کے زندگی کو حسن عطا کرتی ہے۔
جب ہم مسلم سماج کی بات کرتے ہیں تو اس سے عدم برداشت کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مکمل طور پر مسلم سماج پیدا کریں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے عطا کی گئی تمام تعلیمات کو سماج میں رائج کریں۔ ہمیں ان یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح نہیں ہو جانا چاہیے جو تورات کے بعض احکام کو مانتے تھے اور بعض کا انکار کرتے تھے ۔ یہ روش خدا اور رسول کو قطعاً پسند نہیں ہے ، یہ روش دنیا میں رسوائی اور آخرت میں سخت ترین عذاب کا موجب بنےگی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (البقرۃ 85)
ترجمہ:” تو کیا تم اللہ کے بعض احکامات کو مانتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو؟ تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ دنیوی زندگی میں ذلت و رسوائی کے سوا اور کیا ہے اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب کی طرف لوٹایا جائے گا اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں”
عدم برداشت کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے سب سے بڑی ذمہ داری حکمرانوں کی ہے۔ انہیں اسلامی شریعت کی طرف آنا ہو گا۔ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اسلام می ممالک کے حکمران ہیں اور جن پر وہ حکمرانی کر رہے ہیں وہ لوگ بھی راسخ العقیدہ مسلمان ہیں ۔
دیکھیں!یہ دنیا کی ہر قوم کا فطری حق ہے کہ ان پر حکومت ان کے عقیدے کے مطابق قائم ہو ، انکے حکمران ان کے عقیدے کے مطابق ہونے چاہیں ۔ ملکی قوانین اس سماج کےعقیدے کے عین مطابق ہونے چاہیں ، تعلیم و تربیت کا نظام ان کے عقیدے کے مطابق ہو، تمام میڈیا اور مو اصلات ان کے عقیدے کے مطابق چلائے جائیں ۔ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی ان کے عقیدے اور نظریہ کے مطابق ہونی چاہیے یہ ان کا بنیادی حق ہے۔
ہم دعویٰ تو مسلمان ہونے کا کریں مگر اسلامی قوانین کو رد کریں،آمریت اور بادشاہت کو پسند کریں۔اسلامی شعائر سے رو گردانی کریں تو ظاہر ہے کہ یہ باتیں اسلامی ضمیر رکھنے والوں کے لیے ناقابل برادشت ہیں ۔ اسی وجہ سے ہمارے سماج میں عدم برداشت کے کلچر کو فروغ مل رہا ہے۔
ہمیں نظام تعلیم، نظام حکومت ، نظام مساجد و مدارس اسلام کے مطابق چلانا ہو گا۔ اس سے عدم برداشت کی حوصلہ شکنی ہو گی۔اگر ہم مندرجہ بالا نظام کو کسی بھی دوسرے قوم سے مستعار لے کر اپنے سماج پر تھوپنے کی کوشش کریں گے تو سماجی رویوں کو کبھی بھی درست نہیں کیا جا سکتا یہ ہم سب کو سوچنا ہو گا۔
Leave a Reply