Skip to content

’عدم اعتماد‘ کی سیاست

کراچی (تجزیہ / مظہر عباس) دونوں کیمپوں میں حالات اطمینان بخش نہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کی کمزور مخلوط حکومت کو مکمل طور پر منتشر اپوزیشن پر ہلکی سی فوقیت حاصل ہے۔
اگر وہ بیرون اور اندرونی طور پر آئندہ ممکنہ چیلنجوں سے نمٹنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ 2023ء میں اپنی وزارت عظمی کی آئینی مدت مکمل کرنے والے پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہوں گے۔
مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کے درمیان ظہرانہ پر حیران کن ملاقات نے گو کہ فریقین کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن دونوں ہی ایک دوسرے پر مکمل بھروسہ اور اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، اس بات کا فائدہ ہمیشہ عمر ان خان ہی کو پہنچا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں وہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاسکیں گے؟ موجودہ اپوزیشن، وزیراعظم عمران خان کے لئے نعمت غیر متوقع ہے۔ اس میں عمران خان کی مخالفت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔
حکومت کے آئینی مدت مکمل کرنے میں ڈیڑھ سال ہی رہ گیا ہے اگر اپوزیشن اپنی ممکنہ اور مجوزہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب سے ہمکنار کرنے میں ناکام رہی تو خود کو اس کے مضر اثرات سے نہ بچاسکے گی۔
اپوزیشن کو سینیٹ میں و اضح اکثریت رہنے کے باوجود تین بار ناکام رہی۔ اگر پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری جیسے رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کو شکست ہوگئی تب بھی عمران خان کی حکومت ہل کر کمزور ہوجائے گی حالانکہ 1989ء کی سیاسی صورتحال اورآج کی کیفیات کا کوئی موز انہ نہیں ہے۔
اس وقت ایوان صدر اور اسٹیبلشمنٹ نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی تھی اس کے باوجود بے نظیر بھٹو اپنے خلاف عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں کامیاب رہیں تاہم چند ماہ بعد 6 اگست 1990ء کو ان کی حکومت برطرف کردی گئی لیکن اس وقت صدر مملکت کو آرٹیکل 58(2)(b) کے تحت حکومت ختم کرنے کے صوابدیدی اختیارات حاصل تھے بے نظیر نے اس وقت مفاہمتی فارمولا تسلیم کرلیا تھا اس کے باوجود ان کی حکومت کو قبول نہیں کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *