223

شان رحمت للعالمینﷺ

وفاقی حکومت نے’’عشرہ شان رحمتہ للعالمینﷺ‘‘کی مانیٹرنگ کے لئے جو میکنزم اور ورکنگ گروپ تشکیل دیا ہے،اس کے اعداد و شمارکیمطابق پنجاب سب سے آگے ہے۔ اس وقت تک صوبہ بھر میں بیس ہزار کے قریب تقریبات منعقد ہو چکی ہیں،اس سلسلے کی سب سے بڑی اور نمائندہ تقریب آج کرسٹل ہال پرل کانٹینینٹل میں رحمتہ للعالمین،عالمی مشائخ و علماء کانفرنس ہے،جس میں بطور خاص وطن عزیز کی معروف خانقاہوں کے سجادگان،اکابر علما‘معتبر مشائخ ‘معروف علمی و دینی شخصیات کیساتھ معاصر اسلامی دنیا سے مقتدر سکالر اور دیگر مذاہب کے قائدین بھی شرکت کریں گے۔اس سب اہتمام و انصرام کا مقصد جہاں ہادی برحق،نبی مکرم،خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی کریمﷺ کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرنا ہے‘وہاں دنیا کو یہ بھی باور کروانا ہے کہ: چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے گزشتہ شب ایوان اقبال میں محفل سماع کی انتہائی خوبصورت محفل کا اہتمام تھا،جس میں کراچی سے ہمارے مہمان ابو محمد ایاز فرید نے بارگاہ نبی مکرم میں ہدیہ عقیدت و محبت پیش کیا،اس سے ایک روز قبل ایسا ہی انعقاد و انصرام الحمرا آرٹس کونسل میں تھا۔الحمرا کا اپنا ایک ماحول ہے،جس کی وسعت کشادگی‘فکری اور فنی آراستگی، حسن تزین و ترتیب (سبحان اللہ) الحمرا گیلریز میں اسم محمد کی خطاطی کی ازحد روح پرور نمائش… کہ اقبال کا یہ شعر ورد زبان رہا ۔ خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے گیلری کے استقبالیہ میں محمد ﷺکا اسم مبارک ہلکے گلابی رنگ سے یوں آراستہ تھا کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی یاد آ گئے: انہی کی بو مایہ سمن ہے انہی کی خوشبو چمن چمن ہے انہی سے گلشن مہک رہے ہیں انہی کی رنگت گلاب میں ہے وزیر اعلیٰ پنجاب بھی اس کیف میں کھو گئے کہ یہ سب کچھ ان کے قلب و نظر کے قریب بلکہ قریب تر ہے۔اسی کے ساتھ اسوہ رسول،سیرت طیبہ،اسلامیات و پاکستانیات پر مبنی نہایت وقیع اور شاندار نمائش کا اہتمام تھا،جس میں معتبر ناشران اور طباعتی ادارے شامل ہوئے۔داتا دربار میں جامعہ ہجویریہ کی طرف سے میلاد مصطفی کانفرنس کا اہتمام تھا۔ جہاں علماء اور محققین سے جو کچھ کہا اور سنا وہ یہ تھا کہ میلاد النبی سے مراد رحمتہ للعالمین حضرت محمد مصطفی ﷺکی ولادت باسعادت پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حضور کی ذات گرامی کو سراپا رحمت‘نعمت اور فضل عظیم قرار دیا ہے اور اپنے فضل ورحمت اور اپنی نعمتوں پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنے اور تشکر بجا لانے کا حکم دیا ہے۔جیسا کہ سورۃ یونس کی آیت نمبر 58میں ارشاد ہے: (اے محبوب مکرم)آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ فضل جو ان پر ہوا اور وہ رحمت جو انہیں عطا کی گئی‘اس کے سبب وہ خوشیاں منائیں۔یہ ان چیزوں سے جو وہ جمع کر رہے ہیں،کہیں بہتر ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی منانے کا حکم دیا گیا ہے۔جس کی کامل تفہیم اور اس پر منشائے الٰہی کے مطابق عمل پیرا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ اللہ کا فضل کیا ہے؟اللہ کی رحمت سے کیا مراد ہے؟اور خوشی کا اظہار کیسے کیا جائے؟ان امور پر راہنمائی بھی ہمیں قرآن ہی سے میسر آتی ہے۔چنانچہ سورۃ النسا میں ارشاد ربانی ہے:(اے مسلمانوں) اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے سوائے چند کے سب شیطان کی پیروی کرتے۔ اس آیت کے ضمن میں جمہور مفسرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے مراد حضور کی ذات گرامی ہے اور پھر سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 107میں مذکور ،معروف فرمان الٰہی: اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام جہانوں کے لئے سراپا رحمت بنا کر۔ قرآن پاک کے ان فرامین سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم اور اس کی رحمت کاملہ سے مراد حضور رسالت مآب کی ذات گرامی ہے۔اللہ تعالیٰ جب اپنے عمومی فضل اور رحمت پر اظہار مسرت کا حکم دیتا ہے تو فضل عظیم اور رحمت کاملہ پر اظہار مسرت و تشکر کا کتنا اجر ہو گا۔ اب سوال یہ ہے کہ خوشی کیسے منائی جائے؟تو اس کو اللہ تعالیٰ نے مطلق چھوڑ دیا اب جس انداز اور جس طریقے سے بھی خوشی منائی جائے گی، اللہ کے حکم پر عمل ہو گا۔بشرطیکہ وہ انداز یا طریقہ شریعت مطاہرہ کے منافی نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے اظہار تشکر و امتنان کا حکم دیتے ہوئے کسی خاص طرز عمل کی قید نہیں لگائی۔یہ نہیں فرمایا کہ صرف نماز پڑھو صرف روزے رکھو۔ صرف صدقات و خیرات کا اہتمام کرو۔بلکہ مطلق فرما دیا کہ خوشی کا اظہار کرو خواہ وہ شکرانے کے نوافل کی صورت میں ہو یا صدقات و خیرات ذکر و اذکار۔محافل میلاد و نعت اور میلاد النبی کے اجتماعات کی شکل میں بلکہ جمع کا صیغہ‘ذکر فرما کر واضح فرما دیا کہ خوشی کا اظہار محض انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر ہی ہو ،آیت کے آخری حصے میں ارشاد ربانی کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فضل و رحمت پر اظہار تشکر و مسرت‘اس سے کہیں بہتر ہے،جو کچھ انسان جمع کرتا ہے‘انسان دو طرح کی چیزیں جمع کرنے کا خواہاں رہتا ہے۔ 1۔دنیاوی زندگی کے لئے مال و دولت 2۔ آخروی زندگی کے لئے اعمال صالحہ گویا منشائے الٰہی یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اور فضل پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا اور اس کا شکر بجا لانا مال و اسباب اور دیگر نفلی اعمال صالحہ سے،اللہ تعالیٰ کے ہاں کہیں زیادہ بہتر عمل اور باعث اجر و ثواب ہے۔اللہ تعالیٰ کی ہم پر بیشمار اور لاتعداد نعمتیں اور رحمتیں ہیں۔جن کو ہم شمار نہیں کر سکتے۔مگر ان تمام نعمتوں میں سب سے افضل اور نمایاں ترین نعمت حضور کی ذات گرامی ہے جن کے وسیلے سے باقی تمام نعمتیں میسر آئیں اور صرف اسی ایک نعمت پر اللہ نے احسان بھی جتایا اور وہ نعمت عظمیٰ اور احسان عظیم حضور رسالت مآب کی اس کائنات میں تشریف آوری ہے جیسا کہ سورۃ آل عمران کی آیت 146میں ارشاد ہے: تحقیق اللہ تعالیٰ نے مومنین پر احسان فرمایا جب ان میں اپنا معزز و محترم رسول مبعوث فرمایا۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بارہا اپنی نعمتوں اور احسانات کا ذکر اور چرچا کرنے کا حکم دیا‘جیسا کہ سورہ آل عمران کی آیت 103میں فرمایا: اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو جو تم پر کی گئی ، کہ جب تم آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے قلوب میں الفت و محبت ڈال دی۔پس تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔پس قرآنی فلسفہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عمومی نعمتوں پر بھی شکر بجا لانا اظہار بندگی کے لئے لازمی ہے۔وہ عمومی نعمتیں جن پر اللہ تعالیٰ نے کبھی احسان نہیں جتلایا‘تو اس سبب سے بڑی نعمت پر تشکر اور مسرت کا اظہار بدرجہ اولیٰ مطلوب و مقصود ہے جس پر خالق کائنات نے احسان جتلایا ہے۔اسلام میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے اور خوشی کا (باقی صفحہ9پر ملاحظہ کریں) اظہار کرنے کا بہترین طریقہ عید منانا ہے۔رمضان کے روزوں کی تکمیل پر اظہار مسرت اور تشکر کے لئے عیدالفطر اور حضرت سیدنا ابراہیم کے امتحان میں کامیابی پر عیدالاضحی منائی جاتی ہے۔سابقہ امتیں بھی نعمت کے حصول کے دن عید منایا کرتی تھیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ نے اللہ سے دعا فرمائی جو کہ سورہ المائدہ کی آیت 104میں مذکور ہے: اے ہمارے رب!ہم پر آسمان سے خوان نعمت نازل فرما تاکہ وہ یوم عید ہو ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے۔اسی لئے عیسائی آج بھی اتوار کو عید کے طور پر مناتے ہیں، جب عمومی نعمتوں پر خوشی و مسرت و اظہار تشکر کے لئے عید منانے کی روایت موجود ہے، تو وہ نعمت جو تمام نعمتوں کی اصل ہے اور جس کے صدقے اور وسیلے سے تمام نعمتیں عطا ہوئیں، اس کی آمد کی خوشی میں اظہار تشکر کرتے ہوئے عید منانے کے نہایت ارفع و اعلیٰ عمل سے کیوں احتراز ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں