سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ
تحریر: میمونہ اسلم جامعہ نقشبندیہ کنزالایمان
منڈی بہاوالدین
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت اور نام و نسب
آپ 5شعبان 4ھجری کو پیدا ہوئے ،انکی کنیت ابو عبد اللہ،
نسب
آپکا نسب حسین بن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہے
آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں آپکی نانی مکہ کی سب سے بڑی تاجرہ تھیں اور عند اللہ انکا مقام یہ تھا کہ رب تعالی نے انکو سلام بھیجا
آپکی دادی فاطمہ بنت اسد ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لحد میں اتارا ،آپکے دادا ابو طالب کی محبت بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال درجے کی تھی
آپکے تین چچا،عقیل جعفر، طالب ہیں
تین ماموں
قاسم، عبداللہ اور ابراہیم ہیں
تین خالائیں سیدہ رقیہ ،سیدہ زینب سیدہ ام کلثوم ہیں
اور دو پھوپھیاں جمانہ اور ام ہانی (فاختہ)ہیں
آپ کی آٹھ سوتیلی مائیں ہیں،دو حقیقی بھائی سیدنا محسن اور سیدنا امام حسن اور گیارہ سوتیلے بھائی ہیں
روایات میں آپکی ان زوجات کے نام آتے ہیں
شہر بانو،لیلی بنت عروہ ،رباب،اما سحاق بنت طلحہ،غزالہ اور احرار
آپکی اولاد۔۔علی اکبر،علی اوسط،علی اصغر،جعفر،عبد اللہ فاطمہ، سکینہ،رقیہ،زینب ،خولہ ،صفیہ
ریحانہ رسول ،سبط رسول اللہ سید شباب اھل الجنۃ آپکے معروف القاب ہیں
آپ شبیہ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تھے
حضرت علامہ جامی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں، حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدّس رُخسار سے انوار نکلتے اور قُرب و جوار ضیابار ہو جاتے۔
آپ کی ولادت کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی خبرمشہور ہوچکی تھی حضرت ام سلمہّ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ارشاد فرمایاکہ جبرائیل امین نے مجھے خبردی ہے کہ میرا فرزند فرات میں شہید کیا جائے گامیں نے جبریل امین سے کہاکہ ان کے مقتل کی مٹی لاکردکھائیں پس یہ مٹی وہاں سے لائے ہیں وہ مٹی آپ ۖنے حضرت ام سلمہ کودے دی اورفرمایاجب یہ مٹی خون بن جائے گی تووہ میرے بیٹے کے قتل کادن ہوگا۔
اکثر فضائل و مناقب میں یہ اپنے برادر اکبر کے ساتھ شریک ہیں
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انکا عقیقہ فرمایا
امام ابو یعلی نے اپنی صحیح سند کے ساتھ لکھا ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں گئے تو سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اچھل کر حضور کی پشت انور پر سوار ہوگئے ، جب لوگوں نے انکو منع کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے اشارہ فرمایا رہنے دو، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے ان دونوں کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور فرمایا جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ ان دونوں سے محبت کرے
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا آپکو اہلبیت میں سے کون سب سے زیادہ محبوب ہے آپ نے فرمایا حسن اور حسین اور آپ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کرتے،میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ،پھر آپ انکو سونگھتے اور اپنے ساتھ لپٹاتے تھے( سنن ترمذی)
حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں کہ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے اچانک حسن و حسین آئے اور ان دونوں پر سرخ قمیض تھی،وہ لڑکھڑاتے ہوئے چل رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر شریف سے اتر کرانکو اٹھایا اور اور اپنے سامنے بٹھا دیا،پھر کہا اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے انما اموالکم و اولادکم فتنۃ تمہارے مال اور اولاد تمہاری آزمائش ہی ،میں نے ان دونوں کو لڑکھڑا کر چلتے ہوئے دیکھا تو میں صبر نہ کرسکا حتی کہ کیں نے خطبہ منقطع کیا اور انکو اٹھا لیا(۔سنن ترمذی)
حضرت یعلی بن مرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حسین مجھ سے ہے اور ،میں حسین سے ہوں،اللہ اس سے محبت رکھے جو حسین سے محبت رکھے حسین میرے نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمایا ہے
یہ بہت دین دار تھے
بکثرت نفل نمازیں پڑھتے تھے روزے رکھتے تھے اور حج کرتے تھے
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد جب یزید تخت نشین ہوا تو وہ آپکی بیعت کا بہر صورت طالب ہوا ،آپ نے اسکی بیعت نہ کی،کیونکہ وہ فاسق و فاجر،شراب نوش،اور ظالم تھا ، آپ مدینہ منورہ سے مکہ کی طرف چلے آئے،
اہل کوفہ کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے ڈیڑھ سو خطوط لکھے کہ آپ کوفہ تشریف لائیں ہم آپکے ساتھ ہیں
اجلہ صحابہ نے آپکو منع فرمایا مگر آپ کوفہ تشریف لے آئے،
عبید اللہ بن زیاد آپ سے پہلے کوفہ پہنچ گیا کوفہ کے اکثر لوگ خوف یا طمع کی وجہ سے اسکے تابع ہوگئے ،اس نے آپکے عم زاد مسلم بن عقیل کو شہید کیا،پھر عبید اللہ بن زیاد نے آپکی طرف لشکر روانہ کیا،جس نے آپ سے قتال کیا جس کے نتیجے میں آپ اور آپ کے اھل بیت کی ایک جماعت شہید ہوگئ
آپ کی اولاد سے صرف علی بن حسین زندہ بچے،آپکا۔سر مبارک تن سے جدا کر دیا گیا
آپکو ہنان بن انس نے 61ھ دس محرم بروز جمعہ شہید کیا
آپکے ساتھ بہتر نفوس شہید کر دیے گئے، ان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا گیا،ان کے لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے، اور انکو بے گور و کفن کھلے آسمان تلے چھوڑ دیا گیا
جو خواتین اور بچے بچ گئے ان کو پہلے ابن زیاد پھر یزید کے پاس قید کر کے بھیج دیا گیا
علامہ مناوی نے کہا اس قصہ کی تفصیل سے جگر پارہ پارہ ہوجاتا ہے ،پس لعنت ہو اس پر جس نے انکو قتل کیا،انکے قتل کا حکم دیا اور۔انکے قتل پر راضی ہوا
ابن الصباغ نے کہا ہے آپکو کربلا میں دفن کیا گیا،وہاں آپکا جسد مبارک دفن ہے لوگ ہر طرف سے اس کی زیارت کو آتے ہیں،
دیگر شہدا بھی رہیں مدفون ہیں کہا جاتا ہے ان کو بنو اسد میں سےبنی عامر نے دفن کیا تھا
حافظ عبد العلای الھمدانی نے کہا کہ۔یزید بن معاویہ نے آپکا۔سر اقدس مدینہ طیبہ بھجوا دیا تھا،پھر مدینہ کے عامل عمر بن سعید بن العاص نے اس کو کفن پہنایا اور جنت البقیع میں انکی والدہ کے مزار کے پاس دفن کر دیا،یہ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ صحیح قول ہے اور اقوال بھی ملتے ہیں علامہ قرطبی نے لکھا ہے یہ جو کہا جاتا ہے کہ آپکا سر مبارک عسقلان یا قاہرہ میں ہے درست نہیں ہے
ایک قول کے مطابق آپکا سر مبارک مشہد میں ہے وہیں اس مقام کی زیارت کی جاتی ہے
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے آٹھ احادیث مروی ہیں جو انھوں نے اپنے نانا،اپنے والد ،والدہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہیں