راولپنڈی پولیس ترجمان سجاد الحسن کے مطابق پچھلے کچھ دنوں پتنگ بازی کے دوران شہر میں تقریباً ایك سو افراد ڈور سے كٹنے اور اس کھیل سے جڑے دوسرے واقعات میں زخمی ہو چکے ہیں۔
’یہ كیسا كھیل ہے جس سے نہ صرف كھلاڑی بلكہ راہ چلتے معصوم لوگ بھی زخمی ہو رہے ہیں، حتٰی کہ آسمان میں اڑتے پرندے تك محفوظ نہیں۔‘
یاد رہے كہ پتنگ بازی برصغیر كے تاریخی اور ثقافتی تہوار بسنت كا حصہ ہے جو عام طور پر موسم بہار كے اوائل میں منایا جاتا ہے۔ بعض دیہی علاقوں میں فصل كے كٹنے پر بھی پتنگ بازی كی جاتی ہے۔
ماہ رواں كے شروع میں حكومت پنجاب نے صوبے میں بسنت منانے یا پتنگ بازی پر پابندی لگا دی تھی، جس کے بعد دوسرے شہروں كی طرح راولپنڈی میں بھی پولیس اور قانون نافذ كرنے والے دوسرے اداروں نے كریك ڈاؤن كیا۔
تاہم پابندی كے باوجود گذشتہ تین روز كے دوران صرف راولپنڈی میں ڈور لگنے اور پتنگ بازی سے متعلق دوسرے واقعات میں كم از كم سو افراد زخمی ہو چكے ہیں۔
راولپنڈی كے سینٹرل پولیس آفیسر (سی پی او) عمر سعید ملك كے مطابق پتنگ بازی كے خلاف جاری كریك ڈاؤن میں 1600 پولیس اہلكار حصہ لے رہے ہیں، جس دوران اب تک 700 سے زائد افراد كو گرفتار كیا گیا اور ایك لاكھ پتنگیں ضبط كی جا چكی ہیں۔
ایك سینیئر پولیس افسر نے بتایا كہ اس وقت راولپنڈی شہر كے تقریباً ہر تھانے كی حوالات نوجوانوں سے بھری پڑی ہیں، جن كو پتنگ بازی پر لگی پابندی كی خلاف ورزی پر اٹھایا گیا۔
ترجمان راولپنڈی پولیس سجاد الحسن نے ہفتے کو بتایا کہ پولیس نے گذشتہ 24 گھنٹوں میں 273 مقدمات درج کرتے ہوئے 325 ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ہزاروں پتنگیں، ڈوریں، اسلحہ، سامان آتش بازی، ساؤنڈ سسٹم اور دیگر اشیا قبضے میں لی ہیں۔
سی پی او عمر سعید نے ایك ویڈیو بیان میں پتنگ بازی اور اس كے نتیجے میں ہونے والے حادثات سے بچنے كے لیے والدین كے كردار كو اہم قرار دیا۔
’پولیس تو اپنا كام كر رہی ہے لیكن ان والدین كا بھی كردار اہم ہے جن كے بچے پتنگ بازی میں ہیں، یہ خونی كھیل ہے، اپنے بچوں كو اس سے دور ركھیں۔‘
راولپنڈی پولیس نے اس مرتبہ پتنگ بازی كی حوصلہ شكنی كے لیے ڈرونز كے علاوہ دوسری ڈیجیٹل ٹیكنالوجی كا استعمال كیا ہے۔
سینیئر پولیس اہلكار ان دنوں شہر میں بلند مقامات سے دوربینوں كی مدد سے پتنگ اڑانے والوں كا سراغ لگاتے رہے۔
پتنگ بازی كیوں خطرناك ہے؟
پتنگ بازی بادی النظر میں ایك بے ضرر سی سرگرمی لگتی ہے۔
تاہم گذشتہ دو تین عشروں كے دوران اس تاریخی اور ثقافتی كھیل نے ایك خونی شكل اختیار كر لی ہے، جس كے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں ضائع اور ہزاروں لوگ زخمی ہو چكے ہیں۔
پتنگ بازی میں سب سے خطرناك عنصر اس مخصوص دھاگے كا ہے جسے ڈور یا مانجا کہتے ہیں۔
اس ڈور کو مضبوط بنانے كے لیے شیشے كے باریك ٹكڑے اور كیمیكلز استعمال كیے جاتے ہیں، جس كی وجہ سے یہ ایك تیز دھار آلے كی شكل اختیار كر جاتی ہے اور انسانی جسم كے كسی بھی نرم حصے كو آسانی سے كاٹ سكتی ہے۔
ڈور یا مانجے كو مزید مضبوط بنانے كے لیے اس میں دھاگے كے بجائے باریك دھاتی تار كا استعمال كیا جاتا ہے، جو مزید خطرناك اور جان لیوا شكل اختیار كر لیتی ہے۔
پاكستان كے مختلف شہروں خصوصاً لاہور میں پتنگ كی ڈور سے گلا كٹنے كے کئی واقعات رپورٹ ہو چكے ہیں، جن سے اموات بھی ہوئیں۔
خصوصاً موٹر سائیكل سوار نیچے آتی ڈور كا زیادہ آسانی سے شكار ہو سكتے ہیں۔
گھروں اور دوسری عمارتوں كی چھتوں پر چڑھ كر پتنگ بازی كرنا بھی ایك خطرناك كام ہے، جس کی وجہ سے کئی بچے نیچے گر کر زخمی یا ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس طرح كٹی ہوئی پتنگوں كو لوٹنے كے لیے اكثر بچے ان كے پیچھے بھاگتے ہیں اور نتیجتاً ٹریفک حادثوں کا سبب ن جاتے ہیں۔
پتنگ بازی خصوصاً بسنت كے موسم میں ہوائی فائرنگ بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
معاشرتی مخالفت
ان حادثون کی وجہ سے اس کھیلے کے خلاف عوامی مخالفت بڑھی ہے۔