راجہ گدھ خلاصہ 754

راجہ گدھ کا خلاصہ. مصنفہ بانو قدسیہ

راجہ گدھ
بانو قدسیہ

مصنفہ کا تعارف:
بانو قدسیہ اردو اور پنجابی زبان کی مشہورو معروف ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس تھیں۔ انہوں نے اپنے ناول راجہ گدھ سے خاصی شہرت پائی۔آپ ۲۸ نومبر ۱۹۲۸ کو انڈیا کے شہرفیروزپور میں پیدا ہوئیں۔آپ کے والد چوہدری بدرالزمان چٹھہ زراعت میں بیچلر کی ڈگری رکھتے تھے۔اُن کا انتقال بانوقدسیہ کی چھوٹی عمر میں ہی ہوگیاتھا جبکہ ابھی بانو قدسیہ محض ساڑھے تین برس کی تھیں۔تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور آگئیں۔بانو قدسیہ کی شادی مشہور ناول نگار، ڈرامہ نویس و افسانہ نگاراشفاق احمد سے ہوئی۔انہوں نے اپنے کالج کے میگزین اور دوسرے رسائل کیلئے بہت کچھ لکھا۔ انہوں نے کنیئرڈ کالج برائے لاہور سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجوایشن کی اور بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔
بانوقدسیہ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں ریڈیو اور ٹی وی کیلئے بہت سے ڈرامے لکھے۔آپ کا سب سے مشہور ناول’ ’راجہ گدھ‘‘ ہے۔ آپ کے ایک ڈرامے’’آدھی بات‘‘ کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔آپ کو ان ادبی خدمات کے صلے میں ۱۹۸۳ میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ ۲۰۱۰میں دوبارہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔جبکہ ۲۰۱۲میں کمالِ فن ایوار ڈ سے نوازا گیا۔۲۰۱۶ میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بانو قدسیہ ۲۶ جنوری ۲۰۱۷کو بعارضہ ضیق النفس لاہورکے ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں وہ دس روز زیرِ علاج رہیں۔لیکن زندگی کی سانسوں نے ان سے وفا نہ کی اور وہ بروز ہفتہ ۴جنوری ۲۰۱۷کواٹھاسی سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ ان کو ماڈل ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
کتاب کاتعارف:
زیرِ نظرناول جسے ’’راجہ گدھ ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے میں مصنفہ نے کالج سے یونیورسٹی جانے والے طلباء وطالبات اور ان کے تعلیم حاصل کرنے کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات کا ذکر کیا ہے۔مصنفہ نے اپنے زندگی میں بہت سی کتابیں لکھیں۔زیرِ نظر کتاب میں مصنفہ نے دو محبت کرنے والوں کو موضوعِ سخن بنایا ہے جن کویونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے کرتے ایک دوسرے سے محبت ہوجاتی ہے لیکن وہ اپنے گھر والوں، اپنے بڑوں کی انا کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان کے دل کے ارمان دل ہی میں رہ گئے۔ ان کا ملاپ نہ ہوسکا۔مصنفہ ویسے تو بہت سے ناولوں، افسانوں اور ڈراموں کی رائٹر ہیں لیکن ان کے اس ناول کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اُن کے اندازِ بیان کو قارئین نے بے حدپسند یدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
کتاب کے اہم نکات:
زیرِ نظرناول جسے ’’راجہ گدھ ‘‘ چار سو چھ صفحات پر مشتمل ہے مگر یہاں پر اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔اس ناول میں جامعہ (یونیورسٹی)جانے والے سٹوڈنٹس کا اپنے پروفیسر اور کلا س کے ساتھ تعارف اور یونیورسٹی کے ماحول کی نشان دہی کی گئی ہے۔ جہاں طالب علم آزادانہ ماحول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اپنے احساسات اور خیالا ت کا اظہار کھلے عام کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس ناول میں بیان ہوا ہے کہ جامعہ کے پہلے دن تعارفی سیشن میں پروفیسر نے اپنے ایک طالب علم سے سوال کیا کہ کون کون چاہتا ہے کہ میں احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاؤں، ہاتھ اٹھائیے۔ سوائے آفتاب کے کسی نے ہاتھ نہ اٹھایاجس پر پروفیسر نے کہا کہ بھلا کیوں ،آفتاب آپ کیوں چاہتے ہیں کہ آپ احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجائیں؟اس پر طالب علم نے کہا کہ سر! اس لئے کہ آپ پہلے سے ہی احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں، صرف ہمارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔قہقہوں میں سب سے اونچا قہقہ پروفیسر سہیل کا اپنا تھا۔
Key-1۔اپنا تعارف کرائیے :
یہ تیسرے پریڈ کا واقعہ ہے ۔ایم اے کی ساری کلاس حاضر تھی ۔لڑکیاں لڑکوں سے اگلی قطار میں بیٹھی تھیں۔ان چولستانی ہرنیوں میں وہ سب سے آخری تھی۔اکتوبر کا دن تھا جس طرح بھٹی سے نکل کر مکئی کے دانے سفید پھولے ہوئے بڑے اور ٹھنڈے نظر آتے ہیں ایسے ہی اکتوبر کا یہ دن تھا ،بڑا پھولا ہوا اور سفید تھا ۔اس سے پہلے کے تمام دن بھٹی دیدہ گرم تھے لیکن یہ دن سفید سفید دھوپ میں کچھ پھولا پھولا بڑا بڑا نظر آتا تھا۔کچھ دنوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ گھڑیوں کے تابع نہیں رہتے اپنی گنجائش اور سمائی کے مطابق گزرتے ہیں۔
پروفیسر سہیل نے نئی کار جیسی اس لڑکی کی طرف نظریں اٹھا کر سوال کیااپنا تعارف کرائیے۔داخلے کے دن سے لے کر اب تک ہم اس کے نام کے متعلق کئی قیافے لگا چکے تھے۔چولستانی ہرنی اٹھی اس نے کرسی پر ایسے بازو رکھا جیسے موٹر سائیکل کے سہارے کھڑی ہو۔
’’سر میرا نام سیمی شاہ ہے ،میں نے کنیئرڈ کالج سے بی اے کیا ہے اور میرے سبجکٹ نفسیات اور ہسٹری تھے‘‘۔
پہلی مرتبہ تمام طلبہ اپنے آپ کو باقی کلاس سے با ضابطہ طور پر متعارف کرا رہے تھے ،اس سے پہلے فرزانہ،انجیلا،طیبہ اور کوثر تعارف کرا چکی تھیں۔لیکن یہ تمام لڑکیاں چہرے مہرے اور لباس سے ایسی لگتی تھیں جیسے انہوں نے اخباری کاغذوں پر چھپے ہوئے نوٹس رٹ رٹ کر بی اے کیا ہو۔کوثر کے علاوہ ان لڑکیوں کی جنرل نالج اور علمی استعداد کورس کی کتابوں تک ہی محدود تھی۔کوثر حبیب اور سیمی شاہ ہماری کلاس کی آنکھیں تھیں ۔جگمگاتی روشن…..دعوت سے بھری ہوئی لیکن کوثر حبیب متاثر کرنے سے پہلے بیک گئیر لگاتی تھی ۔پسپا کرنے سے پہلے خود ہار نے کی عادی تھی۔اس کے جسم اور ذہن کی بناوٹ ہی ایسی تھی،جیسے بہت خوبصورت بلب روشن ہو،لیکن بار بار بجلی کا فیوز اڑ جانے کی وجہ سے روشنی میں تواتر نہ رہے۔
اور سیمی شاہ گلبرگی معاشرے کی پیداوار تھی۔اس وقت اس نے موری بند جینز کے اوپر وائل کا سفید کرتہ پہن رکھا تھا۔گلے میں حمائل مالانما لاکٹ ناف کو چھو رہا تھا۔کندھے پر لٹکنے والے کینوس کے تھیلے میں غالباًنقدی ،لپ سٹک،ٹشو پیپر تھے۔ایک ایسی ڈائری تھی ،جس میں کئی فون نمبر اور برتھ ڈے کے دن درج تھے ایک دو ایسے قیمتی پین بھی شاید موجود ہوں گے شاید جن میں سیاہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بال پوائنٹ مانگ کر لکھا کرتی تھی۔ اس کے سیاہ بالوں پر سرخ رنگ غالب تھا۔اکتوبر کے سفید دن کی روشنی میں اس کے بال آگ پکڑنے ہی والے تھے۔وہ بالکل میرے سامنے تھی اور اگر میں چاہتا تو اس کے کندھوں پر سلیقے سے جمے ہوئے بالوں کو چھو سکتا تھالیکن ہمیشہ کی طرح اس کے کرتے کے نیچے سے اس کی باڈس کا الاسٹک ،ہک اور اوپر جانے والی طنابوں کو دیکھ کر میں خوفزدہ ہو گیا۔
بھری پستول سے کبھی میں اس طرح خائف نہیں ہوا۔لڑکوں کی قطار میں سب سے پہلا لڑکا آفتاب تھا۔جب سیمی شاہ اپنا تعارف کروا چکی تو آفتاب اٹھا،امریکی فلوں کا چڑھتا سورج آہستہ آہستہ،موسیقی اور لے کے ساتھ روشن کرتا ہوا، گرمی پھیلاتا ہوا،اس سکس ملین ڈالر مین نے بھاری آواز میں کہا’’میرا نام آفتاب بٹ ہے سر۔میں اس کالج کا اولڈ سٹوڈنٹ ہوں آپ مجھے خوب جانتے ہیں سر‘‘۔
پروفیسر سہیل نے اپنی آنکھوں سے چشمہ اتار کر کہا’’لیکن تمہارے ہم جماعت شاید تمہیں نہیں جانتے‘‘۔آفتاب نے پہلے لڑکیوں کی قطار پر نظریں ڈالیں پھر ڈسکس پھینکنے والوں کی طرح تھوڑا پاؤں پر گھوما اور لڑکوں کو مخاطب کر کے بولا ’’پچھلے سال میں یونین کا صدر تھا بی اے میں میرے سبجکٹ سائیکالوجی اور سوشیالوجی تھے ۔میں اگر خود پسندی اور فلموں کا شوقین نہ ہوتا تو شاید بی اے میں ٹاپ کرتا۔لیکن مجھے فرسٹ نہ آنے کا کچھ خاص افسوس بھی نہیں ہواکیونکہ جو لڑکی پنجاب میں فرسٹ آئی ہے وہ مجھ سے نوٹس لے کر پڑھتی رہی ہے۔ ویسے میری Reputationوالدین کے خوف سے اور اللہ کے فضل سے اچھی ہے‘‘۔
ساری کلاس ہنس دی ۔لڑکوں میں سے کسی دل جلے نے نعرہ لگایا ۔’’میاں مٹھو میاں مٹھو‘‘۔
تعارف جاری رہا….
پانچ لڑکیاں اور پندرہ لڑکے جب تعارف کروا چکے تو فضا حالات زندگی اور ناموں سے بوجھل ہو چکی تھی۔شاید اس کے بعد کلاس ختم ہو جاتی اور جمائیاں شروع ہوتیں لیکن اس کے بعد ڈاکٹر سہیل نے میز پر سے چاک اٹھایا۔بلیک بورڈ پر ایک بڑا سا سر بڑی بڑی مونچھیں چھوٹے دھڑ اور بڑے بڑے بوٹوں والا ایک کامک فگر بنایا۔پھر اس کی آنکھوں پر چوکور فریم کی عینک پہنائی ۔فریاد کے انداز میں پھیلے ہوئے بازو کھینچے اور نیچے لکھا۔
’’اٹ از می …..ڈاکٹر سہیل……میں آپ کو شاید سوشیالوجی پڑھاؤں گا‘‘۔بلیک بورڈ پر تصویر بنانے والا ہم سے بمشکل پانچ چھ سال بڑاتھا لیکن کہیں اس کے پاس ایک ایسا ہنٹر موجود تھاجو شیروں کو سدھارنے والے استعمال کرتے ہیں۔ اسے کبھی کورس پڑھانا نہ آیا۔ لیکن وہ ذہنوں کا جوڈو کھیلنا جانتا تھا۔نظریات کی کشتی کرانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔اپنے شاگردوں کی کھوپڑیاں کھولنا اور خالی پا کر انہیں جوں کی توں بند کر دیناا سے جی سے پسند تھا۔الی ہوئی زبانیں آزاد کرا کے طوطے کی طرح باتیں کرانا اور ریڈیو کی مسلسل زبان بولنے والوں کوچپ کرانے کا فن بھی صرف اسے آتا تھا خوب آزادی برتتا اور ہر طرح کی آزادی دیتا ۔کوئی بات کبھی اسے شاک نہ کر سکی سوشیالوجی کے ساتھ ساتھ اسے دنیا کا ہر سبجکٹ آتا تھا۔اسی لیے اس کی موجودگی میں فضا تعلیمی تصنع سے ہمیشہ پاک رہتی تھی اور طالب علم ایک دوسرے کی تشخیص میں زیادہ غلطیاں نہ کرتے تھے۔
پروفیسر سہیل نے اپنی گدی پر دایاں ہاتھ رکھااور میز پر ذرا سا چونترہ جماکر بولا ’’میں عمر اور تجربے میں آپ لوگوں سے بہت بڑا نہیں ہوں لیکن چونکہ میری شادی نہیں ہوئی اس لئے مجھے پیار کرنے کیلئے صرف کتابیں ملی ہیں۔ابھی تک میری مصروفیت صرف کتا بیں ہیں۔کلا س میں کبھی کبھی آپ لوگ مجھ سے کچھ ایسے سوال بھی کریں گے جن کا جواب مجھے نہیں آتا ہوگا۔اور میں بدقسمتی سے اتنا متکبر ہوں کہ سب کچھ برداشت کرتا ہوں کسی اور کی علمی برتری برداشت نہیں کرسکتا۔اس لئے میں آپ سب کو متنبہ کرتا ہوں کہ جب تک آپ میری کلاس میں رہیں ،ہمیشہ مجھے گرو سمجھیں، میرے علم کو زیادہ مانیں، کبھی کبھی یہ بالکل shallow ہوگا۔ آپ خود بات کی تہہ کو بہتر سمجھتے ہوں گے لیکن اس بات کا احساس دلا کر آپ کو نقصان ہوگا۔میری چھاتی چھوٹی ہوجائیگی۔میں اپنی whiskers منوادوں گا اور میری بلٹ ڈھیلی ہوجائیگی۔کون کون چاہتا ہے کہ میں احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاؤں، ہاتھ اٹھائیے۔ سوائے آفتاب کے کسی نے ہاتھ نہ اٹھایا۔
بھلا کیوں ،آفتاب آپ کیوں چاہتے ہیں کہ میں احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاؤں۔سر اس لئے کہ آپ پہلے سے ہی احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں، صرف ہمارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔قہقہوں میں سب سے اونچا قہقہ پروفیسر سہیل کا اپناتھا۔اب کمرے میں تثلیث بن گئی۔ لڑکیوں کی قطار کے آخر میں سیمی شاہ، لڑکوں کی ٹکڑی کے آخر پر آفتاب بٹ ان کے نقطۂ اتصال پر پروفیسرسہیل۔گفتگو ان تینوں کے درمیان جاندار سرکٹ کی طرح چلنے لگی۔
ہنسی کے ختم ہونے پر پروفیسرسہیل گویا ہوا…………میرے پاس فی الحال موٹر سائیکل ہے کسی لڑکے کو اگر چابی چاہیے ہو تووہ مجھ سے چابی مانگ سکتا ہے۔لیکن جو وعدے کے مطابق بائیک واپس نہیں کرے گا وہ دوبارہ اپنے حق کو استعمال نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی لڑکی بس سٹاپ پر کھڑی ہو اور ہاتھ دے کر مجھے روکے تو میں اسے لفٹ دوں گا لیکن وہ اگر مجھے موٹر سائیکل موڑنے کو کہے تو میں اسے اتار دوں گا۔
اب آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ آپ کے پاس کیا کچھ ہے۔جو آپ دوسروں کے ساتھ شئیر کرسکتے ہیں اور کس حد تک……پین ایک طرف سے آواز آئی۔ سائیکل…. کبھی کبھی….. ٹشو پیپر ہمیشہ …….نوٹس امتحان کے بعد………..لپ اسٹک……سیمی شاہ بولی، فلائنگ کس آفتاب نے جواب دیا۔
Key-2۔پہلا لیکچر:
گڈ ویری گڈ! مجھے پتہ چل گیاہے کہ ہماری سوشیالوجی کی کلاس کا جی این پی کافی ہے۔اور ہم اس پر اعتماد کرکے آسانی سے آگے جاسکتے ہیں۔بائی دا وے آپ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ فرد اور معاشرے کا آپس میں رشتہ کیا ہے؟ فرد کی آوازبڑی ضروری چیز ہے۔لیکن کیا کبھی یہ ممکن ہوگا کہ معاشرہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہوجائے اور پھر بھی قائم رہے۔ اب پروفیسر کی شکل بوڑھی ہوگئی ،اپنی موٹر سائیکل جتنی پرانی،ہمیں معلوم بھی نہ ہوسکا کہ لیکچر شروع ہوگیا ہے۔
پروفیسر سہیل بڑی چابکدستی سے فرد اور معاشرے کے باہمی ربط کو زیرِ بحث لارہا تھالیکن کچھ ایسے باری باری گیندہم سب کے کورٹ میں پہنچتا کہ ہم اپنی پوری ذہنی قوت کے ساتھ اسے پروفیسر کے کورٹ میں لوٹادیتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے چہرے تمتمانے لگے۔
آوازیں تیکھی ہوگئیں،ہاتھ ہوا میں چلنے لگے۔ لڑکیاں جو نماز نیت کر بیٹھی ہوئیں تھیں۔سوئے کے ساتھ برف توڑتی نظر آنے لگیں۔بات فرد اور معاشرے سے ہو کر اب دور جا نکلی اور ہم سویڈن ،تھائی لینڈ، روڈیشیا، میکسیکو، یوگنڈاکے مختلف معاشروں کا تقابل کرتے کرتےکبھی فرد کی محرومی کے متعلق سوچ رہے تھے اور کبھی معاشرے کی بے چارگی پر افسوس کررہے تھے۔
Key-3۔آدرشی سوسائٹی:
پھر سیمی شاہ اٹھی اور بولی، سر آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر معاشرہ آئیڈیل ہو تو کوئی فرد کبھی خود کشی کرسکتا ہے۔پروفیسر نے اپنے چھتے جیسے سر میں انگلیاں ڈبوئیں اور پھر سوال کو لڑکوں کی طرف پھینک دیا۔ لڑکوں کی قطار سے جب کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا تو پروفیسر نے کہا دراصل خودکشی ایک Symptomہے کسی معاشرے کے اندر اگر کوئی بیرو میٹر فٹ کیا جائے تو خود کشی اس کا آخری درجہ حرارت ہو گا ۔ افسوس مس شاہ ابھی کوئی آدرشی سو سائٹی ایسی نہیں بن سکی اس لیے ہم تجربہ نہیں کر سکتے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ سوسائٹی کا پریشر پاگل پن کو جنم دیتا ہے اور پاگل پن ہی خودکشی کا باعث ہے۔اس کے بعد وہ ڈر خائم کے حوالے سے دیر تک بات کرتا رہا ۔ہم سب ایسی عمر میں تھے جب خود کشی سے ایک روحانی اور رومانی وابستگی پیدا ہو جاتی ہے ایسی وجوہات کا جائزہ لیا گیا جن کی وجہ سے فرد خود کشی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اقتصادی معاشرتی شخصی ،ذاتی وجوہات ……بالآخر بار خود کشی سے کھسک کا دماغی امراض اور پاگل پن کی طرف مڑ گئی ۔کیونکہ خود کشی نتیجہ تھی وجہ نہیں تھی۔اصلی وجہ وہ دیوانہ پن تھا جس کی بنا پر انسان کئی احمقانہ اقدامات اُٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
Key-4۔پاگل پن کی وجوہات:
انجیلا شروع سے آخر تک خاموشی سے بیٹھی رہی ۔پروفیسر سہیل کے ساتھ ساتھ فرزانہ، طیبہ اور کوثر بہت گرم جوشی سے بحث میں حصہ لے رہی تھیں لیکن یہاں پر ان کی بولتی بند ہو گئی۔سہیل پروفیسر بولا:’’آپ لوگوں نے فرد اور معاشرے کی کشمکش کو بہت خوبی سے سمجھا ہے اور بہت سے صحیح نتیجے اخذ کیے ہیں ۔مس فرزانہ ٹھیک کہتی ہیں کہ معاشرے کا پھندا جب فرد کی گردن پر بہت تنگ ہونے لگتا ہے تو کبھی کبھی فرد موت سے پہلے خود اپنے فیصلے سے مرنا پڑتا ہے ۔کوثر نے خود کشی کی اَن گنت وجوہات کو ایسے بیان کیا ہے کہ اس میں ایک نئی دریافت کی سی تازگی پیدا ہو گئی ہے لیکن اب میں آپ لوگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ سوچیں خود کشی کا فعل جسے آپ سب متفقہ طور پر پاگل پن پر………وجہ پر نتیجے پر نہیں پاگل پن کی اصلی وجہ کیا ہے۔ یاد رکھیے پاگل پن جس قدر ششدر کرنے والی حالت ہے اسی طرح پاگل پن پیدا کرنے کی وجہ کو بھی حیران کن ہونا چاہیے ‘‘۔
اب ہماری لڑکوں کی ٹیم اس بحث میں لنگوٹے کس کر داخل ہوئی ۔’’پاگل پن کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ایک تو فنکشنل وجہ ہو سکتی ہے سر کہ بچہ پیدائشی طور پر نامکمل ہو …….دوسری وجہ نفسیاتی ہو سکتی ہے’’اور گہرا دیکھئے ان وجوہات کے علاوہ شاید کوئی اور وجہ بھی ہو‘‘
اب تک آفتاب نے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالا تھا۔یہ کشمیری بچہ سفید رنگ کی پیکنگ میں برتھ ڈے گفٹ کی طرح سجا سجایا پڑا تھا۔ آفتاب کی یہ عادت بعد میں ہمیں پتہ چلی کہ جہاں مسکراہٹ سے کام چل جاتا وہاں وہ ایک لفظ نہ ضائع کرتا ۔جہاں لفظ سے عند یہ پورا ہو جاتا وہاں وہ جملے کو استعمال نہ کرتا ۔جہاں مختصر بات کافی ہوتی وہاں وہ لمبی بحث میں نہ پڑتا ۔وہ عموماً پوائنٹس میں بات کرنے کا عادی تھا۔
انگلیوں پر گنتا جاتا …..ایک…..نمبردو……نمبر تین…..اور زیادہ وقت اسے نمبر تین سے آگے بڑھنے کی ضرورت نہ ہوتی ۔ایم اے کی کلاس میں آفتاب کی سب سے لمبی گفتگو تھی۔
آفتاب اٹھا اس نے اپنے دونوں بازو صلیب کی طرح اٹھائے آدھی آستین والی قمیض میں اس کے دونوں بازو سنہری گھاس سے اٹے ہوئے نظر آ رہے تھے۔کھڑکی سے آنے والی روشنی اس کی براؤن آنکھوں میں چمکتے شہد جیسی روشنی پیدا کر رہی تھی اور اس وقت وہ اولمپک کھیلوں میں آگ مشعل اٹھانے والے کھلاڑی کی طرح خوبصورت،کنوارہ اور مقدس نظر آ رہا تھا۔شاید اسی لمحے سیمی شاہ نے اس کی طرف دیکھنے کی غلطی کی اور دیوانی ہو گئی۔
پاگل پن ہمیشہ نا آسودہ آرزؤں سے پیدا ہوتا ہے سراور ناآسودہ آرزوئیں ان Taboosسے جنم لیتی ہیں ۔جو ہر کلچر میں موجود رہتی ہیں ۔جس کلچر میں ماموں زاد بہن سے شادی نہیں ہو سکتی وہاں ماموں زاد بہن کے عشق لا حاصل سے دیوانگی پیدا ہو سکتی ہے۔فرائیڈ سے مستعار لینے کا شکریہ،سیمی نے قینچی جیسی تیکھی انگریزی میں کہا۔محترمہ….پاگل پن کی یہ وجہ میں نےRepressionسے نہیں لی میں جس پاگل پن کا ذکر کر رہا ہوں وہ میر تقی میر کا پاگل پن ہے ….فرہاد کا پاگل پن ہے …..پروفیسر سہیل تو دیوانے پن کی ایک سائیڈ دکھا رہے تھے خودکشی اور اور موت میں دوسری سائیڈ پیش کر رہا ہوں جہاں پہنچ کر دیوانہ پن مقدس ہو جاتا ہے ۔ماؤنٹ ایورسٹ فتح کر لیتا ہے دودھ کی نہریں بہا دیتا ہے۔ کسی لڑکے نے پیچھے سے نعرہ لگایا …..’’بیٹھ جاؤ جناب فرہاد صاحب۔آفتاب نے پیچھے قہر کی نظر ڈالی اور بیٹھ گیا۔
’’That’s a point‘‘پروفیسر سہیل کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
یعنی ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاگل پن دو قسم کا ہے…..ایک مثبت اور ایک منفی …..ویری گڈ…..اب اس مہینے آپ سب کی یہ Assignmentہوگی کہ آپ مجھے ایک نہ ایک وجہ ایسی بتائیں جس سے فرد میں پاگل پن پیدا ہوتا ہے۔یہ وجہ جبلی نہیں ہونی چاہیے۔ Environmentalنہیں ہونی چاہیے ۔کوئی آفاقی نظریہ لیکن بالکل نئی وجہ ہونی چاہیے میں سب سے زیادہ سر پھرے جواب پر سب سے زیادہ نمبر دوں گا۔کلاس میں شور مچ گیا۔
’’سر دیوانے پن کی صرف ایک وجہ ہے ماحول…..ماحول….ماحول‘‘ایک طرف سے آواز آئی۔
’’سر انسان میں پیدائشی نقص ہوتا ہےBiological‘‘
’’Repression سر….‘‘
’’مانے نہ مانے کوئی …..اصلی پاگل پن کی صرف ایک وجہ ہے ،صرف ایک وجہ عشق لاحاصل …عشق لاحاصل…عشق لاحاصل‘‘
بھنگڑا ڈالنے کی انداز میں آفتاب کرسی پر چڑھ کر چلایا۔آرڈر آرڈر …..‘‘پروفیسر سہیل نے کہا۔دوستو میری Incrementکا سوال ہے اگر تم لوگ ایسے شور مچاؤ گے تو کالج والے میری رپورٹ کر دیں گے ۔پرنسپل صاحب کے پاس اور میری تبدیلی مظفر گڑھ کر دیں گے۔اس کے بعد بحث بے پتوار کی کشتی بن کر چلنے لگی۔
Key-5عشقِ لاحاصل:
کلاس کے کسی ذہین نوجوان نے گروپ شادی اور حشیش کا قصہ چھیڑ دیا۔پھر مغرب کی آزادی سے بات نیگرو مسئلے کی طرف چلی گئی۔سویڈن میں رفیوجی مسائل، ریڈ انڈین اور جادوگروں کی باتیں، توآبادیات اور جمہوریت کے بکھیڑے، جاپان اور اس کی انڈسٹریل کامیابی، روس کا پلٹتا ہواکیمونسٹ نظام، جو بھی بات کسی کو معلوم تھی اس نے کی۔لیکن سیمی شاہ کو کرسی پر کھڑے آفتاب کے عشقِ لاحاصل نے سرکرلیا۔وہ گلبرگ کی ساختہ تھی۔ اس کی ساری عمر کانونٹ سکولوں اور کالجوں میں گزری تھی۔اپنے خالی اوقات میں وہ انگریزی موسیقی سنتی، ٹائم اور نیوز ویک پڑھتی، ٹی وی پر امریکی سیریز دیکھتی۔ اس کی وارڈ روب میں گنتی کے شلوار قمیض تھے۔ وہ شیمپو ، ہئیر سپرے ، ٹشو پیپر، کولون اور سینٹ سپرے کے بل بوتے پرسنگار کرتی۔اس نے کبھی لوٹے بالٹی سے غسل نہ کیا۔ بیک برش اور شاور سے نہانے والی اس دخترِگلبرگ کو نہ جانے کیا ہوا کہ ایک کشمیری بچے سے وہ بھی اندرونِ شہر کے رہنے والے سے عشقِ لاحاصل کا نعرہ لگا رہا تھا مات کھاگئی۔اس سے پہلے سیمی شاہ اور آفتاب ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے دیکھتے رہتے تھے۔داخلہ فیس جمع کرواتے وقت برآمدے میں آتے جاتے۔ لیکن اس تیسرے پیریڈ میں ان دونوں کی نگاہوں کا استعجاب ابھرا۔پھر ہیجان پیدا ہوئی اور ایک ہی سیشن میں سب کچھ اعتراف میں بدل گیا۔کلاس کے بعد وہ دونوں اٹھے اور ایک انجانی قوت کے تحت ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ باہر پہنچ کرسیمی شاہ کچھ کہے بغیر آفتاب کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی۔ آفتاب نے سوال نہ کیا کہ کہاں جانا ہے اور وہ دونوں کسی فلمی منظر کی طرح آہستہ آہستہ سڑک پر فیڈ آؤٹ کرگئے۔آفتاب جسم کے اعتبار سے بالکل یونانی تھا۔اگر وہ کلاس میں موجود نہ ہوتا توشاید میرا چراغِ روشن سب سے زیادہ روشن ہوتا۔ ایک خاص قسم کاحسد، بغض اور اللہ واسطے کا بیر میرے دل میں اس کے خلاف پیدا ہوگیا۔
Key-6۔جوڑا جوڑا بننے کی صلاحیت :
کلاس میں پہلے پندرہ لڑکے داخل ہوئے لیکن رفتہ رفتہ بور جھڑنے لگا۔ کسی کو کورس مشکل لگا اور کسی کو ماحول راس نہ آیا۔کسی ایک کو لڑکیوں کی صحبت خائف کرگئی۔ ایک آدھ اس لئے چلا گیا کہ پڑھائی کے علاوہ کسی دوسری فیلڈ میں کمائی کے امکانات زیادہ روشن تھے۔ لڑکیاں ہمیشہ کی طرح ڈٹی رہیں۔عورت میں ڈٹے رہنے کی بڑی قوت ہوتی ہے۔بہت جلد کلاس میں صرف پانچ لڑکے اور لڑکیاں رہ گئے۔اتنی متناسب تعداد کے باوجودسیمی شاہ اور آفتاب کے علاوہ ہم میں جوڑا جوڑا بننے کی صلاحیت نہ تھی۔
Key-7۔سکینڈل:
سالانہ سپورٹس کے دن سارے کالج میں ہر زبان پر سیمی اور آفتاب کا سکینڈل تھا۔اتنی جلدی اس قدر دیدہ دلیری اور اپنائیت سے کوئی طالب علم کسی لڑکی کی طرف بڑھنے کی جرات نہیں کر سکتا لیکن وہ دونوں غالباًاس سکینڈل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے،سیمی اپنی ہم جماعت لڑکیوں سے مکمل طور پر کٹی ہوئی تھی ۔طیبہ اور فرزانہ تو خیر مڈل کلاس کی لڑکیاں تھیں ان کی انگلیاں تو شروع دن سے منہ میں تھیں ۔
لیکن کوثر جو خود گلبرگی پیداوار تھی ۔وہ بھی اپنی تمام تر جدیدیت کے باوجود ابرو اٹھانے اور کندھوں پر عیسائی لڑکیوں کی طرح کراس کا نشان بنائے بغیر نہ رہ سکتی تھی ۔انجیلا البتہ سارے سکینڈل سے بچ کر چلا کرتی۔ہر بات سے بچے رہنے کی وجہ سے اس کا چہرہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا۔
جوں جوں ان دونوں میں فاصلے کم ہوتے گئے، اتنا ہی بلاوجہ، بغیر سوچے سمجھے اور اپنی بہتری کے خلاف میں سیمی کا گرویدہ ہوتا چلا گیا۔دل بھی عجیب چیز ہے ۔جب ماننا نہ چاہے تو لاکھ ثبوت کرو،ہزاروں دلائل ہوں کچھ نہیں مانتا۔آفتاب اور سیمی ساتھ ساتھ بیٹھتے تھے ان کے نوٹ سانجھے تھے ۔کتابیں ایک تھیں،وہ ایک پین سے باری باری لکھتے تھے۔موٹر سائیکل پر میں نے انہیں آتے جاتے کئی بار دیکھا کیفے ٹیریا پر وہ ایک گلاس میں دو سٹرا ڈال کر مشروب پیتے۔کالج میں تمام ایک کی خیریت دوسرے سے پوچھتے ۔اس کے باوجود مجھے شبہ تک نہ تھا کہ سیمی آفتاب سے محبت کرتی ہے……کیونکہ میرا دل اس بات کی گواہی دیتا رہتا تھا کہ یہ سب چلتی پھرتی چھاؤں ہے…..انسان لاحاصل کے پیچھے رہ کر کتنی لذت حاصل کرتا ہے۔
Key-8۔چاٹی ریس:
سالانہ سپورٹس ڈے پر سارا کالج نصف دائرے والے لان میں جمع تھا۔زیادہ تر نظریں آفتاب اور سیمی پر تھیں۔جو کرسیاں کم ہونے کی وجہ سے ایک ہی کرسی پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے پھر لڑکیوں کی چاٹی ریس اناؤنس ہوئی ۔سپورٹس کلب والے ہماری سوشیالوجی کی لڑکیوں کو منا کر گراؤنڈ میں لے گئے اس ریس کے دوران کوثر اور سیمی نے جینز پہن رکھی تھی اور طیبہ اور فرزانہ کھلے پائنچوں کی شلوار میں چاٹیاں سر پر اٹھائے بھاگ رہی تھیں۔کالج کے کئی حلال زادے بازو اٹھائے بے پردہ بھاگتی ان ہرنیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں حرام زادے ہو گئے تھے۔ایسوں ہی میں سے ایک میں بھی تھا۔
فرزانہ کی چاٹی ٹوٹ کر پاش پاش ہوئی سیمی نے کئی فاؤل کئے ۔طیبہ بھاگی تو جی داری سے لیکن کوثر سے پیچھے رہ گئی۔بالآخر چاٹی ریس میں کوثر سے سیمی ہار گئی۔ اس کے بعد آفتاب اور سیمی چند لمحے ٹھہرے ا ور پھر دونوں دل چھوڑ کر خدا جانے کہاں چلے گئے۔اس روز پہلی بار میرے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید سیمی اور آفتاب دور نکل گئے ہوں۔یہ شبہ میرے دل میں کوثر نے ڈالا ۔وہ چاٹی ریس میں فرسٹ آئی تھی۔اس کا چہرہ تمتمایا ہوا اور گردن پر پسینے کے قطرے تھے ۔سیمی کی غیر موجودگی میں وہ بہت سمارٹ ،شائستہ اور قابلِ قبول لڑکی لگتی تھی۔ کرسیوں کی کمی تھی۔اس کی واپسی پر میں نے اپنی کرسی اسے پیش کر دی اور سامنے کے کھمبے کو پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔
’’چلی گئی…..؟‘‘
’’کون…..؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’ہاں جی چلی گئی….‘‘پچھلی قطار سے امجد نے جواب دیا۔
اس وقت ساری کلاس جھرمٹ میں بیٹھی ہوئی تھی۔
’’اور وہ بھی ساتھ گیا اس کا چمچہ….. ‘‘کوثر بولی۔
’’گیا……‘‘جمال نے جواب دیا۔

اپنے کٹے ہوئے بال دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر اس نے پسینہ آلود گردن سے اوپر کیے۔ مقابلہ تو ذرا برداشت نہیں کرتی ، دیکھا کیسے بھاگی ہار کے۔طیبہ اور فرزانہ دوپٹوں سے منہ پونچھتی ہوئی ہنسنے لگیں۔انجیلا البتہ اپنے ناخنوں کو دیکھتی رہی۔وہ ازل کی بیچاری تھی۔ابھی تو چاٹی ریس ہاری ہے….جب آفتاب ریس ہارے گی تو پتہ نہیں کیا حشر ہوگا اس کا۔
Key-9۔ازلی حسد:
کوثر کی زبان پر عورت کا ازلی حسد تھا غصے کی وجہ سے مجھے اس کی شکل بھی کچھ کچھ ٹیڑھی لگ رہی تھی۔پھر سپورٹس کلب کا ایک جوان ان تین لڑکیوں کے لئے کوکاکولا لے کر آ گیا۔فرزانہ اور طیبہ تو شاید ’’عصمت بچاؤ‘‘قسم کی لڑکیاں تھیں انہوں نے کوکا کولا پینے سے انکار کر دیا۔لیکن کوثر نے بوتل شکریے کے ساتھ وصول کی نواڑی رنگین کرسی پر بیٹھی اور کوکا کولا پیتے ہوئے سیمی کے کردار ،آفتاب کی کمزوری کلاس کی بدنامی پروفیسروں کی بے بسی پر بڑی لمبی چوڑی گفتگو کا آغاز کیا۔کوثر تعارفی تقریب والے دن سے زخم خوردہ تھی ۔گو اس کا مبلغ علم سیمی سے کم تھا۔لیکن وہ گلبرگ کے اس علاقے سے آتی تھی جہاں شہر کے امیر الامرا رہتے ہیں۔سیمی کے متعلق سن رکھا تھا کہ اس کے ابا کا گھر گلبرگ کی ایکسٹیشن نمبر تین میں تھا۔اور وہ ماں باپ کے پاس رہنے کے بجائے کسی ہوسٹل میں مقیم تھی۔ایسی لڑکیاں پڑھنے تھوڑے ہی آتی ہیں، وہ تو آتی اس لئے ہیں کہ……. آزادی ہو….ہلہ گلہ ہو……اور کیا۔بڑی دیر تک طیبہ اور فرزانہ کانوں کو ہاتھ لگاتی رہیں۔
Key-10۔شرافت کا درجہ:
دراصل بات ڈگری کی ہوتی ہے۔برقعے والیاں ، بے نقاب لمبی چوٹی والی کو آزاد خیال سمجھتی ہیں۔لمبی چوٹی والی کٹے بالوں والی کو بے حیا جانتی ہے۔بال کٹی کا خیال ہوتا ہے کہ اس کے تو صرف بال ہی کٹے ہیں۔اصل حرافہ تو وہ ہے جودن کے وقت مسکارا اور آئی شیڈو بھی لگاتی ہے۔آئی شیڈو والی کو یقین ہوتا ہے کہ وہ و اللہ میاں کی گائے ہے۔ اصل میں تو آزادی اس کی ہے جو دوپٹہ نہیں اوڑھتی اور باریک کپڑے see thoughپہنتی ہے اور سب کے سامنے سگریٹ پینے سے نہیں چوکتی۔ سگریٹ نوش بی بی کے سامنے وہ فساد ہوتی ہے جو نامحرموں کے ساتھ بلیوفلم دیکھتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور اسی طرح مردوں کی بھی کئی ڈگریاں ہوتی ہیں۔
یہ ساری باتیں اپنے آپ کو بری الذمہ کرنے کیلئے کی جاتی ہیں۔اور من میں تمام لوگ سوسائٹی سے اپنے لئےApproval کا ایک جائز طریقہ تلاش کرتے ہیں ورنہ ساری بات ڈگری کی ہے۔کسی کو ہلکا بخار ہوتا ہے اور کسی کو زیادہ۔ کسی معاشرے میں شرافت کا درجہ نارمل متعین کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوتا ہے۔
Key-11۔اظہارِاشتہا:
سب سے پہلے مجھے سیمی کے اظہارِ ا شتہا نے متاثر کیا، وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی تھی یا کھانا چاہتی تھی۔ ہر عہد میں ہر معاشرے میں مختلف قسم کی عورتیں اپنی اشتہا کی نمائش کرتی رہتی ہیں۔وہ نہ صرف عام محفلوں میں چڑی چوگا کھانے لگتی ہیں۔ بلکہ اشتہا کے اظہار سےبھی انہیں نفرت ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ایک بھوک سے دوسری بھوک کا سراغ لگتا ہے۔پچھلی صدی میں بھوک کی نمائش جنسی آمادگی کے مترادف تھی۔ میلے ٹھیلوں پر یاروں سے لڈو جلیبیاں لے کھانے والی بنتو مردوں میں تو مقبول تھی لیکن اپنی ہم جنسوں میں وہ بڑی بدنام تھی اور سسرال جاکر بسنا اس کے لئے محال تھا۔
لیکن اس دور کی ماڈرن لڑکی نے کھانے کے آداب ہوٹلوں سے سیکھے ہیں۔ ڈائننگ ٹیبل کی میز سے اخذکئے، ہوائی جہازوں کے سفر میں جہاں ٹرے لگے لگا ئے آجاتے ہیں اور جہاں آپ کی ٹرے میں دوسروں کی شراکت ممکن نہیں۔ان ہوٹلوں اور ہوائی سفروں نے لڑکیوں کا نہ صر ف چمچ کانٹا علیحدہ کردیا ہے بلکہ ان کی بھوک کو فرداً فرداً بڑی اہمیت دے دی ہے۔
ویسے بھی مرد کاعورت کی بھوک سے ڈھکا چھپا لیکن بڑا پرانا رشتہ ہے۔جب کبھی کوئی مرد کسی عورت کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے عورت کی بھوک مٹانے کا چسکا پڑ جاتا ہے۔پھر وہ اس کی جذباتی بھوک مٹانے کیلئے اس کا سہارا بنتا ہے۔ذہنی خلا جو بھوک ہی کی شکل ہے کو ختم کرنے کیلئے اس سے باتیں کرتا ہے۔ اس کی جذباتی بھوک کیلئے تفریح کا سامان مہیا کرتا ہے۔جسمانی بھوک بچوں کا باعث بنتی ہے اورپھر ان کی چھوٹی چھوٹی اشتہائیں ختم کرنے میں اس کی زندگی صرف ہوجاتی ہے۔
پرانے زمانے میں بھی شوہر اپنی ماؤں سے چھپ کر اپنی نوبیاہتا بیویوں کی ذہنی، جذباتی اور جسمانی بھوک مٹانے کیلئے اوپر والی منزل میں جاتے توان کے ہاتھ میں قلاقند اور ہاتھ میں مولسری کے پھول ہوتے۔آج بھی جب ملاقات ہوتی ہے تو کوک پلانے کو کھانا کھلانے کو اپنی خوش قسمتی تصور کرتا ہے۔
ماڈرن لڑکی یہ سمجھ گئی ہے کہ بھوک کادکھلاوامرد تک یہ پیغام پہنچاتا ہے کہ اگر وہ کھانے پینے میں سرگرم ہے تو جنسی بھوک میں بھی مرد سے کم نہ ہوگی۔وہ اپنے ایک سمبل سے اپنے تمام کوائف سمجھادیتی ہے۔ اپنی بھوک کو نمایاں کرتے ہی آج کی لڑکی مرد کی بھوک میں برابر کی شریک ہونے کا وعدہ کرتی ہے۔
Key-12۔ایک بائٹ:
طیبہ کوثر اور فرزانہ سے سیمی خوبصورت تو نہ تھی لیکن وہ لباس میں ،نشست و برخاست گفتگو کھانے پینے میں سب سے آگے تھی ۔ جب کبھی وہ کلاس میں داخل ہوتی تواس کے منہ میں چیونگم ہوتی۔ جونہی پروفیسر کلاس سے جاتا وہ اپنے کینوس کے تھیلے میں سے سیب نکالتی اور اسے آستین پر صاف کر کے کھانے لگتی ………..سیب کھانے کا بھی اس کا عجیب طریقہ تھا وہ سیب میں تیکھے دانت اُتارتی اور کڑک کی آواز کے ساتھ منہ پرے کر لیتی ۔ایک ہی ہفتے کے اندر اس کا سیب ساری کلاس میں گھومنے لگا تھا۔
’’ایک Biteلے لو……………….‘‘ ایک دن اس نے مجھ سے کہا ۔
میں ایک ایسے گھر سے سوشیالوجی کی کلاس میں گیا تھا جہاں جوٹھے برتنوں میں کھانا گناہ ہوتا تھا ۔
’’اس طرف سے کھا لو…………… میں نے یہاں نہیں کھایا‘‘
اس نے سیب کی صاف ستھری طرف پیش کر دی ۔میں نے سیب اس سے لیا اور عیب وہاں دانت گاڑ دیے جہاں اس نے کڑاک
سیب کاٹا تھا ۔بھوک کے معاملے میں وہ بہت بودی تھی ۔وہ گھنٹے گھنٹے کے بعد بھوکی ہو جاتی یا یوں سمجھئے کہ یہ اس کا لاڈ تھا ……………… بہت جلد ہماری کلاس ایک خاندان کا روپ اختیار کر گئی ۔اسی لیے سیمی کی باتیں کسی کو عجیب نہ لگتی تھیں ۔
’’بھئی میرے پاس پچھتر پیسے ہیں…………. لیکن مجھے کوک پینا ہے ……………ہے کوئی اللہ کا بندہ…………؟‘‘
اللہ کا بندہ آفتاب ہمیشہ اس کی ساتھ والی سیٹ پر ہوتا ۔
اچھا بھئی اور کون کون کوک پینے جائے گا ؟
ادھر پورے سبھی تیار ہو جاتے۔
پھر سبھی اپنی اپنی نقدی اس کے ڈیسک پر دھرتے جاتے ۔وہ حساب لگاتی جب رقم پوری ہو جاتی تو ہم سب کوک پینے چلے جاتے ۔ کینٹین پر بھی عجیب تماشا رہا۔ کوئی سیون اپ منگواتا، کوئی فانٹا منگواتا اور کوئی کوک…………..اب سیمی کسی سے مانگ کر گھونٹ پیتی کبھی اپنی بوتل پیش کر کے کہتی ۔
’’پی لو طیبہ …………تم نے تو فانٹا منگوایا ہے ………….سیون اپ کا بھی ایک سپ لے لو بھئی………..‘‘
جب طیبہ ہچکچاتی تو وہ اپنے کینوس کے تھیلے میں سے ٹشو پیپر نکال کر بوتل کا منہ صاف کرتی اور کہتی ۔
خدا کی قسم اب تو کوئی ہرج نہیں ہے۔
خلاصہ :
زیرِ نظر ناول میں مصنفہ نے انسانی تمدن کی تاریخ دہراتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ تب کی با ت ہے جب انسان نے پہلی بار متمد ن ہوکر ایٹم بم چلائے۔ جانوروں کی بستیوں میں اس ایجاد کی وجہ سے بہت تشویش پھیلی ہوئی تھی۔ اسی لئے جنگل میں کانفرنس بلائی گئی۔ جانوروں کی اس بین الاقوامی کانفرنس میں اتنے پرندے آئے کہ جنگل کے درختوں کے تنوں پر کوئی شاخ خالی نہ رہی۔چیل نامی پرندے نے کانفرنس کی صدارت کرنے والے پرندے ’’سیمرغ‘‘ کو کہا کہ آج کل انسان پہلی بار متحد ہوا ہے۔ اس نے اپنی ایجادپسند طبیعت کے ہاتھوں زہرہ اور مریخ کے سفر کئے ہیں۔لیکن انسان کی سرشت میں ایک ایسا وصف ہے جو اس کی تباہی کا باعث ہے۔’’دیوانہ پن‘‘اپنے اس دیوانہ پن کے ہاتھوں مجبوراور مشتعل ہوکر اس نے ایسے ہتھیار تیار کرلئے ہیں جن سے یہ کرہ ارض چند منٹوں میں تباہ کرسکتا ہے۔اور اپنے ہم جنسوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرسکتا ہے۔اس نے کہا کہ اے پرندوں کے بادشاہ! ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم میں سے کچھ پرندے بھی پاگل پن کا شکار ہورہے ہیں۔اور وہ پرندہ ہے ’’راجہ گدھ‘‘۔گدھ جاتی کا حقہ پانی بند کرکے انہیں جنگل بدر کردیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں