Haroon-Ur-Rashid 936

خلیفہ ہارون الرشید کی زندگی پر ایک مختصر نظر

Haroon-Ur-Rashid

تعارف:
مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے دور کے عظیم عباسی خلیفہ ہارون الر شید 17مارچ 766 میں (موجودہ ایران کا علاقہ) میں پیدا ہو ا ۔ اس کا والد مہدی تیسراعباسی خلیفہ تھا۔ اس کی والدہ کا نام الخیزران بنت عطا ء تھا جو کہ ایک سابقہ یمنی غلام لڑکی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس خاتون کا اپنے شوہر اور دونوں بیٹوں پر گہرا اثر تھا اور وہ ملازمہ کے درجے سے اٹھ کر ملکہ بنی اور طویل عرصے تک حکمرانی کرتی رہی۔خلیفہ ہارون الرشید کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے؛ خلیفہ ہا رون الر شید بن مہد ی بن ابو جعفر منصور بن امام محمد بن امام علی ۔اس کے باپ مہدی کے انتقال پر وہ خلافت عباسیہ کا پانچواں خلیفہ نامزد ہوا ۔جب وہ 786ء میں تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر صرف بیس تھی ا ور اسی دن اسکا بڑا بیٹاامین الرشیداسکی ملکہ زبیدہ کے بطن سے پیدا ہوا۔
اس کی خو ش قسمتی تھی کہ جوانی کے ایام میں اس کا نامور دا دا خلیفہ ابو جعفر منصور زند ہ تھا،جس کی رو ح پر ور علمی مجلسوں اور صحبتوں سے فیض اُٹھا نے اور تر بیت پا نے کے اُسے زریں موا قع میسر آ ئے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہا رون الر شید لکھ پڑ ھ کر فا رغ ہوا تو وہ عظیم الشان خلیفہ بننے کے ساتھ سا تھ اپنے زمانے کا ایک عظیم عا لم اور مفکر بن چکا تھا ۔خلیفہ ہا رون الر شید کا زمانہ خلا فت عبا سیہ کا اوج شباب اور علوم و فنون کی معرا ج کا دور کہلا تا ہے ۔ خلا فت عبا سیہ کا نا م حضرت محمد ﷺ کے محتر م چچا سید نا عباسؓ بن عبد المطلب کے اسم گرا می سے عبا رت ہے ۔
ہارون الر شید کا زمانہ خلا فت عبا سیہ کا بہتر ین عہد شما ر کیا جا تا ہے ۔ اس زما نے میں عوامی فلاح و بہبود ، علم وا دب ، طا قت و دو لت اور شان و شو کت الغر ض ہر لحا ظ سے خلا فت عبا سیہ بہت بلند اور ار فع حیثیت کی ما لک تھی۔ خلیفہ ہارون الرشید کادور خلا فت علمی ، رفاعی اور بہبود عامہ کے لحاظ سے خلا فت حضرت عمرفاروقؓ سے کئی حوالوں سے مشابہ تصور کیا جاتا ہے ۔ اس نے کم وبیش 28سال حکمرانی کی اور جوانی ہی میں وفات پائی۔کہا جاتا ہے کہ اگر اسے جینے کے لئے کچھ اور سال مل جاتے تو وہ خلافت عباسیہ کو مزید ترقی دیتا اور کئی اور کارنامے اس کے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچتے۔
تعلیم :
ہا رون الر شید عظیم الشان خلیفہ ہو نے کے سا تھ سا تھ اپنے ز مانے کا ایک عظیم عا لم بھی تھا۔ علا مہ جلا ل الدین سیو طی نے لکھا ہے کہ آ ج تک کسی با د شا ہ نے خلیفہ ہارون الرشید کے سوا علم حا صل کر نے کے لیے سفر اختیار نہیں کیا ۔ ہارون الر شید کوعلم الحد یث سے قلبی تعلق تھا ۔ چنا نچہ اس کے حصو ل کے لئے ا ما م ما لک کی خد مت میں حا ضر ہوا اور ان سے ان کی مشہور زمانہ کتا ب مو طا امام مالک پڑ ھی ۔ اس کے علا وہ اس نے صرف و نحو، لغت ، ادب اور دوسرے تمام علو م و فنون علیحدہ علیحدہ استا دو ں سے حا صل کیے اور ان سے کمال نیاز مند ی کے سا تھ سعادت پا ئی ۔اس کے علا وہ ہا رون الر شید کو شعر وشاعری سے بھی لگا ؤ تھا۔ اُس نے آ غا نی اور عقدا الفر ید جیسی عظیم کتابیں پڑھیں اس نے موسیقی،علم الکلام ،منطق،علم ہندسہ اور تلوار بازی کی تعلیم وقت کے بہترین اساتذہ سے حاصل کی۔
ذا تی زند گی :
خلیفہ ہارون الرشید نے ملکہ زبیدہ سے شادی کی جو اس سے ایک سال چھوٹی تھی اوروہ خلیفہ جعفر المنصور کی بیٹی تھی۔ دونوں میاں بیوی علمی و ادبی لحاظ سے ایک جیسا ذوق رکھتے تھے۔ خلیفہ ہارون کادربار ہر وقت اہل علم، موسیقاروں اور شعراء سے بھرا رہتاتھا اور وہ کھلے دل سے ان کی مد د کرتا تھا۔ اس نے جعفر برمکی کی زیرنگرانی بغداد میں ایک بہت بڑی لائبریری قائم کی، جہاں دنیا کی مشہور کتابوں کاترجمہ ہوتا تھا۔ خلیفہ ہارون کے دور میں بو علی سینا، ابن الہشیم اور یعقوب الکندی جیسے نامور مسلم سائنسدانوں نے کئی سائنسی ایجادات کیں۔ ہارون الرشید ایک ملنسار اور حلیم طبع انسان تھا جس نے فلاح و بہود کے کام کر کے عوام کے دل جیتے۔ اس نے پہلی شادی ملکہ زبیدہ سے کی جس سے اس کا سب سے بڑابیٹا امین الرشید پیدا ہوا ( خلیفہ ہارون الرشید کی کل 31بیویاں تھیں) ۔ہارون الرشید نے اپنی سلطنت دونوں بیٹوں میں برابر تقسیم کر دی تا کہ جھگڑے کی صور ت پیدا نہ ہو۔ تاہم اس کے مرنے کے بعد دونوں میں ایک طویل خانہ جنگی شروع ہوگئی اور اقتدار کی کشمکش چار سال رہی اور دونوں طرف سے خون خرابے کے بعد بالآخر مامو ن الرشید کی فتح پر متنج ہوئی جوکہ خلافت عباسیہ کا ساتواں خلیفہ بنا۔
عملی زندگی:
تعلیم و تر بیت مکمل ہو نے کے بعد میں ہا رون الر شید کو خلا فت سو نپی گئی ۔ ہا رون الر شید کی خلا فت کا زما نہ ہر لحا ظ سے بہترین زما نہ خیا ل کیا جا تاہے ۔ اس زما نے میں ملک کو شا ندارعر وج اور تر قی حا صل ہو ئی۔ تعمیرات کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ زما نے تمام دنیا میں اپنی مثا ل آ پ ہے ۔ تمام بڑے بڑے شہروں میں عا لی شان محلا ت اور عمارات بنوائیں گئیں۔ انہیں دیکھنے کے لیے دو ر دور سے لو گ آ تے اور نہیں دیکھ کر انگشت بدندان کھڑے رہ جا تے۔در یا ئے دجلہ کے کنا رے مختلف قسم کے پھلو ں کے با غا ت اور سیر و تفریح کے لئے نہا یت کھلے مقا ما ت تھے۔ شہر میں جگہ جگہ او نچے او نچے مکا نا ت اور عظیم وشان مساجد اور ان کے آ سمان سے با تیں کر تے او نچے مینار وں کے سبب ایک عظمت کا سماں نظر آتا تھا ۔ بحری اور بری دونوں را ستوں سے تجا رت کا سامان آ تا تھا دنیا بھرکے تا جرعراق آکر تجا رت کر تے تھے۔ اس زما نے میں بغد اد کی آ با دی20 لا کھ سے او پر تھی ۔ تما م دنیا سے آ مد نی کم و بیش 40 کر وڑ سالا نہ بیان کی جا تی ہے۔ یہ تمام رقوم بیت الما ل میں جمع ہو تی تھیں اور عوام کی بھلا ئی اور بہتری کے کا موں میں صرف کی جا تی تھی ۔
اس زما نے میں بغدا د علوم و فنون کا مر کز بن چکا تھا ۔ تمام اسلا می ممالک کے بڑے بڑے جید عا لم اور ممتاز علماء وا ئمہ کرام بغداد کا رخ کرتے تھے۔ محد ثین ، مفسر ین ، مور خین ، ارباء ، اقراء اور حفاظ غرض ہر طرح کے لو گ یہا ں رہتے تھے اور اپنے علم کی پیاس بجھاتے تھے۔یہاں تک مشہور تھا کہ جب تک کو ئی شخص بغدا د میں جا کر نہ پڑ ھے وہ کسی بھی علم و فن میں کا مل نہیں ہو سکتا ۔ اس کے علا وہ خلا فت عبا سیہ کی نما یا ں خصو صیت یہ تھی کہ طب ، فلسفہ ، ہییت ، ہند سہ اور نجو م کے ممتاز علما ء جتنے بغدا د میں جمع تھے اتنے دنیا میں کہیں پر بھی نہیں تھے ۔ یہ لو گ کہیں سے بھی کوئی علم و فن پا تے وہ اس کا تر جمہ عر بی زبان میں کر تے اور انھیں مسلما نوں میں پھیلا نے کے لے عر بی زبان میں منتقل کر تے تھے۔ اور ان عا لموں کی زند گی بھی خلیفہ کی قدر دا نی اورعیش وعشرت میں گز ر تی تھی۔
ابن سما ک ایک بز ر گ وا عظ دین تھے۔ وہ جب کبھی در بار خلا فت میں آ تے ہا رون الر شید ان سے در خوا ست کر تا کہ مجھے کچھ پندو نصا ئح فر ما ئیں وہ و عظ کرنے لگتے تو ہارون الر شید کے دل پر اتنا اثر ہو تا کہ اس حا لت میں بے اختیار ہو جا تا اور اکثر آ نکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہا رون الر شید نے اپنے لئے پینے کا پا نی ما نگا ۔ خدا م نے اسی وقت لا کر پیش کردیا۔ ہا رون نے جب پیا لہ ہا تھ میں لیا تو ابن سما ک نے ہا تھ بڑ ھا کر رو ک لیا اور کہا ذرا ٹھہر جا ؤ تم سچ سچ یہ تو بتا ؤ کہ اگر یہ پا نی تم سے رو ک لیا جا ئے تو کس قیمت پر خر ید و گے ۔ ہا رورن بو لا کہ سا را ملک دے کر ۔ پھر جب وہ پا نی پی چکا تو ابن سما ک نے پو چھا ،اچھا یہ تو بتا ؤ کہ اگر تمھارے بد ن میں یہ پا نی رُک جا ئے تو اس کو نکا لنے پر کتنا خر چ کر سکو گے ، کہا تمام سلطنت ،جس کی قیمت ایک جرعہ آب سے زیا دہ نہیں ،کیا وہ اس قا بل ہے کہ اس کے پیچھے ایک قطر ہ خون بھی نا حق بہا یا جا ئے ۔ ہا رون الر شید نے جب یہ با ت سنی تو بے اختیار پھو ٹ پھوٹ کر ر ونے لگا ۔ اور بہت دیر تک رو تےرہے ۔ہا رون الر شید کے دل میں اللہ کا خو ف اور اس کے ر سول کی بے پنا ہ محبت جا گزیں تھی۔ وہ بز ر گان دین سے یو ں حقا ئق و معا رف حا صل کر تا اور پھر ان کی رو شنی میں اپنے اعما ل و کر دار کا احتسا ب کر تا رہتا اور اپنی اصلاح کی کوششوں میں سرگرداں رہتا۔ہا رون الر شید بہت اعلیٰ فہم و تد بر کا مالک تھا ۔

یمنی اور مضری عر ب کے دو مشہور قبیلے ہیں ۔ ان میں قبا ئلی عصبیت قد یم زمانے سے چلی آرہی تھی۔ یہی وہ بنیاد تھی جو مضر یوں اور یمنیوں میں آ ئے دن با ہمی جنگ و جدل کا باعث بنتی تھی۔ یہ کشمکش چو نکہ امتیا ز حا صل کر نے کے لیے تھی اور اس سے خلا فت عبا سیہ کو سخت خطرہ در پیش تھا۔ اس لیے خلیفہ ہا رون الر شید کے زما نے میں جب یہ جھگڑا پھر سے شر وع ہوا تو خلیفہ نے زبردست تد بیر سے اس گتھی کو سلجھا نے کے لیے فوراً تو جہ دی۔ چنا نچہ خلیفہ نے دو نوں قبیلو ں کے معز ز سر دا روں کو اپنے ہاں کھا نے پر بلا یا اور انھیں اس تر تیب سے بٹھا یا کہ پہلے دا ہنی طرف ایک مضری سر دار کو بٹھا یا اور با ئیں طرف یمنی کو ۔ پھر دونوں طرف ہر مضری اور یمنی کے بعد ایک ایک مضری اور یمنی کو اسی تر تیب سے بٹھا نے کے بعد اُن سے مخا طب ہو کر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قر یش (بنی اسما عیل ) کو عر ب کے در میان میزان بنا یا ہے ۔ اے یمنیو! میں تمھارے اس قول سے متفق ہو ں کہ مضریوں کو یمنیوں پر تقد م نہیں ہو سکتا ۔ اور دونوں کی نشستیں آ ئند ہ بد لتی ر ہیں گی۔ آ خر کا ر ہا رون الر شید کی اس فہم و تد بر اور حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں قبیلے مطمئن ہو گئے اور ان میں با ہمی جنگ و جدل ہو تے ہو تے رک گیا۔
امام ظور کسا ئی جو امین اور ما مون کے استا د تھے۔ وہ ایک روز جب پڑ ھا کر اُٹھنے لگے تو دونوں بھا ئی امین اور ما مون لپکے کہ جلدی سے جو تا اُٹھا کر استاد کے سا منے ر کھ دیں ۔ دونوں بھا ئی آ پس میں اُلجھ پڑ ے۔ ایک کہتا تھا کہ یہ فخراُسے حا صل ہو نا چا ہیے اوردوسرا کہتا کہ اُسے ۔ جب جھگڑے نے طول پکڑ ا تو جنا ب کسا ئی در میان میں آ ئے اور بو لے کہ دیکھو تم دونوں ایسا کر و کہ ایک ایک جو تا اُٹھا لا ؤ اور لا کر سا منے ر کھ دو ۔ چنا نچہ ایسا ہی کیا گیا اور دونوں مطمئن ہو گئے ۔ اس پرخلیفہ نے کہا ، میرے نز دیک اس سے بڑ ھ کر اور کون معز ز ہو سکتا ہے جس کے لئے و لی عہد سلطنت اور اس کا بھا ئی اس با ت پر جھگڑا کریں کہ اس کا جو تا پہلے کون اُٹھا ئے گا۔ یہ سن کر کسا ئی گبھرا گئے کہ شا ید خلیفہ بر ہم ہے ۔ خلیفہ نے ان کی بے چینی اور گبھرا ہٹ کو فو راً سمجھ لیا اور کہا کہ اگر آ پ میرے بیٹوں کو اس کا م سے رو ک دیتے تو میں یقیناًآ پ سے خفا ہو جا تا ۔ اس کا م سے میرے بیٹوں کی عز ت میں کمی وا قع نہیں ہو ئی بلکہ اضا فہ پیدا ہو ا ہے ۔ اس کے بعد خلیفہ ہا رون الر شید نے جنا ب کسا ئی کے ا دب اور طرز عمل سے متا ثر ہو کر بڑی مسرت کے سا تھ انہیں دس ہزار در ہم انعا م دئیے۔
تیرے علم ومحبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی
(اقبال)
ہارون الرشید اور برمکی خاندان:
ہارون الرشید کی والدہ زبیدہ کا اس پر بہت گہرا اثرتھا جو کہ اس(زبیدہ) کی وفات 789ء تک قائم رہا۔ اس کے وزیر اعظم یحییٰ برمکی اور اس کا عقلمند بیٹا جعفر بن یحییٰ برمکی کا اس پر بہت گہرا اثر رہا اور اس خاندان نے خلافت عباسیہ کی کافی لمبے عرصے تک باگ ڈور سنبھالے رکھی۔ اسی دوران ایرانی مشیروں اورایرانی سپہ سالاروں کا ہارون الرشید کے دربار اور حکومت پرغلبہ رہا۔ برامکی خاندان بنیادی طور پر ایران کے شہر بلخ سے ہجرت کر کے خلیفہ مہدی کے دور میں عراق آیا تھا اور اسی وقت انہوں نے بدھ مت سے اسلام قبول کیا تھا ۔انہوں نے علم، عقل ،محنت اوردانشمندی کی بدولت خلیفہ مہدی کے دربار میں اعلیٰ رتبہ پایا۔ جب تیسرے عباسی خلیفہ مہدی کا انتقال ہوا تو یحییٰ برمکی وزیراعظم نے خلیفہ ہارون الرشید کو اس کی والدہ ملکہ زبیدہ کی معاونت/ساز باز سے مسند خلافت پر بٹھایا ۔ وزیراعظم یحییٰ برمکی کے بڑھاپے کیوجہ سے اس کا لائق بیٹا جعفر برمکی وزارت پر متمکن ہوا اور یہ سلسلہ798ء تک چلتا رہا ۔بقول طبری یحییٰ اتنا نڈر اور خود سر ہو گیا تھا کہ خلیفہ کے محل میں جہاں چاہتا بلااجازت چلا جاتا تھا۔ ان کی طاقت، مال و دولت کے پورے ملک میں چرچے ہونے لگے اور لوگوں نے یہاں تک کہنا شروع کردیا کہ خلافت عباسیہ کا اصل مالک تو برمکی خاندان ہے، خلیفہ ہارون الرشید توبس نام کا کٹھ پتلی خلیفہ رہ گیاہے ۔ اس کے علاوہ اہل بنوعباس برمکیوں کی شان وشوکت سے جلتے تھے اور ان کو اس وقت ایک نادر موقع ہاتھ آیا جب وزیراعظم جعفر نے یحییٰ بن عبداللہ کو خلیفہ کی اجازت کے بغیر قید سے آزاد کر دیا جو کہ خلیفہ کے زیرعتاب آگیا تھا۔ اس پرطیش میں آکر خلیفہ ہارون الرشید نے یحییٰ برمکی اور اس کے بیٹے وزیراعظم جعفر برمکی کو قید میں ڈال دیا جس سے اس قابل اورذہین خاندان کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ یحییٰ برمکی کے دور اقتدار کے خاتمے پر اگلا وزیراعظم الفضل ابن الربی بنا جس نے برمکیوں کے خلاف سازش میں حصہ لیا تھا اور درپردہ ان کے خلاف جدوجہد کرتا رہا تھا۔
خلیفہ ہا رون الر شید کے کار نامے :
خلیفہ ہا رون الر شید کس مر تبے اور شان کا ما لک تھا۔ اس کا اندا ز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ایک ہا تھ میں قلم اور دو سرے ہا تھ میں تلوار ہوتی تھی۔ اگر چہ قلم کا پلہ تلوار کے پلہ سے بھاری رہا تاہم اس کے عہد ہ خلافت میں سلطنت بجا ئے و سعت کے با غیو ں اور خار جیوں کی فتنہ کی و جہ سے سمٹتی چلی گئی ۔ تا ہم اس کے عہد میں فتو حا ت کا سلسلہ بھی جا ری ر ہا ۔ خلیفہ ہا رون الر شید میں جہا د کا جذ بہ بھی پیدا ئشی طور پر موجود تھا۔ اس نے ولی عہد کے زما نے میں بہت سی لڑائیوں میں حصہ لیا ۔وہ 165ھ میں دس ہزارفو ج لے کر رو م پر حملہ آ ور ہوا ۔فتح کے شا دیا نے بجا تا ہو ا وہ قسطنطنیہ تک جا پہنچا ۔ اس لڑا ئی میں رو میوں کے 54 ہزار سپاہی قتل ہو ئے ۔ پھر اس نے یو نا ن پر یکے بعد دیگرے کئی حملے کئے ۔ اُس کے بعداُس نے قبر ص پر حملہ کیا اور سو لہ ہزار سپاہی گر فتار کرلیے۔
جب رو م کے بادشاہ نے خلافت عبا سیہ کے خلاف سرکشی اور بغا وت کی را ہ اختیار کی تو خلیفہ نے اپنے بیٹے قا سم کوفو ج دے کر چڑ ھا ئی کا حکم دیا ۔ قا سم نے رو م پہنچتے ہی قلعہ لستا ن کو گھیر ے میں لے لیا ۔ ملکہ اس محا صر ے سے تنگ آ گئی تو اس نے مجبور ہو کر خرا ج اداکر کے صلح کر لی ۔عبا سی حکمران کے وا پس جا تے ہی رو م کے حکمران اپنے وعدے سے پھر گئے ۔ رو م کے حکمران نے خلیفہ ہا رون الر شید کو خط لکھا کہ اب تک جتنا بھی خرا ج رو م کی سلطنت سے و صول کیا گیاہے وہ سب کا سب وا پس کر دو، ور نہ ان کے درمیان تیغ بے نیا م اس کا فیصلہ کر ے گی ۔
خلیفہ نے جب رو می حکمران کی یہ گستا خا نہ تحر یر دیکھی تو اس کا چہر ہ غصے سے سر خ ہو گیا ۔ پھر اس خط کے جو ا ب میں خو دہارون الر شید نے یہ خط لکھا کہ یہ تحریر خو د امیر الامو منین ہا رو ن الر شید کی طرف سے رو می بے ہودہ بادشاہ کے نام ہے ۔ اے بے وقوف شخص میں نے تیرا خط پڑ ھا۔ اس کا جو ا ب تو سننے کی بجا ئے آ نکھو ں سے دیکھ لے گا ۔ ہا رون الر شید نے فو ج کو تیا ر ی کا حکم دیا اور بہت جلدی میں و ہا ں جا پہنچا ۔ جب رو میوں کے پا یہ تخت پر حملہ آ ور ہو ا تو رو میو ں کا سارانشہ ہرن ہوگیا۔ اور بہت سا رے رو می فو جی موت کے گھا ٹ اتر گئے اور اس نے خلیفہ کے قد مو ں میں گر کر معا فی ما نگ لی ۔پھر وا پس پہلی شر ائط کے مطا بق صلح کر لی ۔ خلیفہ کے واپس جا تے ہی معا ہد ہ تو ڑ دیا گیا۔ خلیفہ کو جب معلو م ہو ا تو وہ پھر سر کو بی کو نکلا ۔ ہا رون الر شید کے سا تھ ایک لا کھ 35 ہزارجوان تھے۔ انہوں نے آ تے ہی رو می سلطنت پر ہلہ بو ل دیا ۔ یہ سخت سر دی کا مو سم تھااور مسلما نوں کا لشکر کما ل بہادری سے لڑ ا اور ہر قلعے کو فتح کر تا گیا ۔ پھر رو می حکمران کو بد عہدی کی سزا دی اور اس سے جز یہ و صو ل کیا ۔اسی طرح ہارون الرشید نے کئی ممالک کو سلطنت عباسیہ کا حصہ بنا دیاگیا۔
خلافت عبا سیہ کی و سعت کا اندازہ لگا یا اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہا رون الر شید جس ملک اور سلطنت کا ما لک تھا وہ اس قدر و سیع تھی کہ اس کی حدیں ہنداور تا تار سے لے کر بحر اوقیانوس تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس وقت خلا فت عبا سیہ کی آ مد نی جو دو سرے مما لک سے آ تی تھی وہ تقریباً 41کڑ ور 25 لا کھ درہم تک جا پہنچی۔اس زما نے میں ملکی حا لا ت کو سا منے ر کھتے ہو ئے جتنی فو ج کی ضرورت تھی اس کے لیے تقر یباً 2لا کھ سوار اور پیا دہ فو ج مو جو د تھی۔ ہر مسلمان چو نکہ پیدا ئشی طور پر مجا ہد تھا اس لیے ضرورت پڑ نے پر ہر شخص جہا د کے لیے نکل آ تا تھا۔حکو مت کی طرف سے ان کو صرف ، سواری اور ہتھیار فر اہم کیے جا تے تھے۔ سوار کی تنخوا ہ 25رو پے اور پیا دہ کو دس رو پے ملتے تھے۔ جو لو گ افسر تھے ان کی تنخوا ہ کچھ زیا دہ تھی۔ عا م طور پر جنگ میں سپہ سا لاری کے فرا ئض صو بے کا کو ئی حا کم ، و زیر اعظم ، خلیفہ کے بیٹے انجا م دیتے تھے۔ چنا نچہ ہار ون الر شید کے زما نے میں یحییٰ بر مکی اور فضل بر مکی اکثر جنگو ں میں سپہ سا لا ر ہوتےتھے۔خلیفہ ہا رون الر شید کی سلطنت 27ممالک پر مشتمل تھی جن میں سا ت ممالک کا تعلق مغر ب سے تھا اور 20مما لک کا تعلق مشر ق سے تھا ۔
بغا وت :
شروع میں قریش کے ذیلی خاندان فا طمی ، علوی اور عبا سی تینو ں ایک ہی تھے۔ اس لیے کہ تینو ں کا دشمن بھی ایک ہی تھا یعنی بنی امیہ کیونکہ سب کا یہ یقین تھا کہ شہادت امام حسینؓ بنوامیہ کا قابل مذمت کام تھا چنانچہ وہ سب ان سے حکومت لے کر حضرت امام حسینؓ کے خاندان کو دینے پر متفق ہوگئے۔ بلا شبہ خلا فت کا آ غا ز علو یوں نے کیا لیکن وہ اپنی جلد با زی اور نا تجر بے کا ری کی و جہ سے با ر بار نا کا م ہو تے ر ہے ۔اس لیے اقتدار سے محر وم ر ہے۔ اس کے بر عکس عبا سیوں نے کما ل مہا رت ، تد بر اور حکمت عملی سے کا م لیا ۔ اس لیے وہ حکو مت حا صل کر نے میں کا میا ب ہو گئے۔ سید نا امام حسین ؑ کی شہا دت کے بعد فا طمیوں کے سر برا ہ اعلیٰ ان کے بیٹے امام زین العا بدینؑ تھے۔ لیکن وہ کر بلا کا وا قعہ اپنی آ نکھوں سے دیکھ چکے تھے اس لیے وہ اپنی جما عت سے دل بردا شتہ ہوگئے۔تاہم ان کی جما عت امو یوں کی خلا فت کا تختہ الٹنے میں درپردہ مصروف کار رہی ۔ چنا نچہ 176 ھ میں نفس زکیہ کے بھا ئی یحیی ٰ بن عبدا للہ بن حسن نے ہا رون الر شید کے خلا ف بغا وت کرد ی ۔ مشر قی ممالک میں بہت سا رے لوگوں نے یحییٰ بن عبدا للہ کا سا تھ دیا ۔ تھو ڑ ے ہی دنوں میں اس کی طا قت اتنی بڑ ھ گئی کہ ہا رون الر شید کو اس کا مقا بلہ کر نے کے لیے فضل بن یحیٰ بر مکی کو 50ہزار فو ج دے کر بھیجنا پڑا ۔ بر مکی خا ندان شروع سے ہی علو یوں کی حما یت کر تا تھا۔ فضل بن بر مکی نے و ہا ں پہنچ کر لڑ نے کی بجا ئے ویلم کے رئیس کو دس لا کھ در ہم دے کر عبداللہ کو سمجھا بجھا کر صلح کے لیے را ضی کر لیا ۔ اس نے یہ شر ط لکھی کہ خلیفہ ہا رون الر شید خو د انپے قلم سے امان لکھ کر دیں۔ اس پر تمام بڑے بڑے ہا شمی سا دا ت کے دستخط گواہی کے طور پر ہو ں ۔اس کے علا وہ تمام علماء اور فقہا اس کی تصدیق کر یں جسے ہا رون نے بخو شی قبول کر لیا ۔ تمام علما ء اور فقہا کو بلا کر امان نا مہ لکھ کر ان کے دستخط کر وا ئے گئے ۔ اس وجہ سے جنگ و جدل سے با ز ر کھنے میں بہت بڑا کا ر نا مہ سر انجا م دیا گیا ۔علوی ہمیشہ عبا سیوں کی حکو مت ختم کر نے کے لئے سا زش کر تے ر ہے لیکن نا کا م ر ہے ۔خلیفہ ہارون الرشید کے پرسکون دور میں بغاوتیں ہوتی رہیں ایک ایسی ہی بغاوت سمرقند میں رفیع ابن لیس نے کی جس سے خلیفہ کو رقہ چھوڑ کر خراسان آنا پڑا۔ اس نے خراسان پہنچ کرسب سے پہلے علی ابن عیسیٰ کو گرفتار کیا لیکن بغاوت ختم نہ ہوئی جبکہ اس دوران خلیفہ بیمار پڑ گیا۔
وفا ت:
خلیفہ ہا رون الر شید بیمار تھا۔ اپنی مرض پر قا بو پا نے کی بر ابر کو شش کر تا ر ہا تھا لیکن وہ پھر جانبر نہ ہو سکا۔ اس دوران جب وہ طوس کے علاقے صناآباد پہنچا تو بیماری کی وجہ سے کمزور ہو کر بستر مرگ پر جا پڑا۔اسے امیہ بن قتابہ جو طوس کا عباسی گورنر تھا کے موسم گرما کے محل میں دفن کر دیاگیا۔ ۔ شا ہی طبیب کا بیان ہے کہ ایک روز میں رقہ میں خلیفہ کی خد مت میں حا ضر ہوا اور اس کی طبیعت در یا فت کی توخلیفہ نے کہا : آ ج را ت میں نے ایک خوا ب دیکھا ایک شخص کا ہا تھ میرے بستر کے نیچے سے نکلا ہے اور اس نے مجھے کچھ سر خ مٹی دکھا ئی اور اس وقت ایک آ وا ز میرے کا نوں میں آ ئی کہ یہ اس زمین کی مٹی ہے جہا ں تم دفن کئے جا ؤ گے ۔ چنا نچہ جب خلیفہ کی طبیعت بگڑتے بگڑتے اس حا ل تک پہنچ گئی کہ اسے اپنے مر نے کا مکمل یقین ہو گیا تو اس نے اپنے غلا م مسر ور کو حکم دیا کہ اس با غ کی مٹی جہا ں میں ٹھہرا ہوا ہوں، تھو ڑی سی لے آ ؤ تو غلا م نے فو راً حکم کی تعمیل کی اور خلیفہ کو وہ مٹی د کھا ئی خلیفہ نے اُسے دیکھتے ہی کہا،یہ وہی سر خ مٹی ہے جو میں نے خواب میں دیکھی تھی۔ خلیفہ نے زند گی سے ما یو س ہو کر اپنا کفن تیا ر کر نے اور قبر کھو د نے کا حکم دیا۔ پھر اس نے قبر پر قرآ ن پڑ ھوا یا ۔با لآ خر بر وز 5جما دی الثا نی 193ھ میں ابدی نیند سو گیا۔ انتقال کے وقت خلیفہ کی عمر صرف 48 سا ل تھی جس میں 28سال خلا فت کے فرا ئض ادا کر نے میں بسر ہو ئے ۔ خلیفہ ہا رون الر شید کی و فا ت پرسینکڑوں شا عر وں نے مرثیے لکھے جن میں ایک مر ثیہ ابو شیث نے بھی لکھا جس میں اس نے لکھا کہ مشر ق میں آ فتا ب غرو ب ہو گیا ہے اور اس لئے میری آ نکھوں میں آنسو جا ری ہیں کہ سورج کو آج تک اسی سمت میں غر وب ہو تے نہ دیکھا جہا ں سے وہ نکلتا ہے۔خلیفہ ہا رون الر شید نے سو گوار ں میں چا ر بیٹیا ں اور 12بیٹے چھوڑ ے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں