43

خدارا، بس کرو

خدارا، بس کرو
مظہر برلاس
درویش کے روبرو بیٹھ گئے تو عزیزم نعیم اللہ طور نے بات چھیڑی، حالات کی گردش کا تذکرہ کیا پھر میں نے بھی ملکی حالات پر بہت کچھ کہہ دیا۔ یہ باتیں سن کر درویش جلال میں آ گیا اور کہنے لگا ’’حکمران یہ بات نہیں سمجھتے، وہ دین کے سبق سے بہت دور ہیں، انہیں رعایا اور حاکم کے بارے میں کچھ پتہ نہیں، یہ لوگ واقف ہی نہیں ہیں کہ رعایا پر حکومت کرنے والوں کو کیا کچھ کرنا چاہئے۔حاکم کی رعایا سے متعلق کیا سوچ ہونی چاہئے، میں اس کی وضاحت کیلئے صرف یہ عرض کرتا ہوں ،مولانا جلال الدین رومی ؒکے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کا ہمسفر بننا چاہتا ہوں، مولانا نے اس کی خواہش کے بعد فرمایا اگر آپ ہمسفر بننا چاہتے ہیں تو پھر ہم دونوں میں سے ایک حاکم ہو گا اور دوسرا رعایا، اب آپ خود فیصلہ کرلیں یا آپ خود حاکم بن جائیں اور مجھے رعایا بنالیں یا پھر آپ مجھے حاکم بنالیں اور خود رعایا بن جائیں۔یہ سن کر وہ شخص بولا، مولانا آپ حاکم ہونگے اور میں رعایا، سفر شروع ہوا تو مولانا نے کھانے پینے میں اس شخص کا خیال کرنا شروع کر دیا، جب کھانا کم ہوتا تو مولانا پہلے اس شخص کو کھلاتے اور خود بعد میں کھاتے پھر ایک دن ایسا آیا کہ تیز بارش ہو رہی تھی، کمبل ایک تھا، مولانا نے وہ کمبل اس شخص کو دے دیا، کمبل سے اسے ڈھانپ دیا اور خود بارش میں بھیگتے رہے ۔مولانا کے اس عمل پر وہ شخص حیران ہوا اور مولانا سے کہنے لگا یہ آپ نے کیا کیا؟مولانا نے فرمایا، دین حاکم کو اسی کا حکم دیتا ہے، دین تو یہی کہتا ہے کہ رعایا میں سے کوئی بھوکا نہ سوئے، حاکم کو روٹی ملے نہ ملے، حاکم خود بارش میں بھیگ جائے اور اپنی رعایا کو کمبل سے ڈھانپ دے، بس دین کا حاکم اور رعایا کا تصور یہی ہے، دین تو یہ نہیں کہتا کہ حاکم گرم کمبل اوڑھ کر سوئے اور رعایا یعنی عوام بارش میں بھیگتے رہیں، دین تو یہ نہیں کہتا کہ حاکم پیٹ بھر کر کھائے اور اس کی رعایا یعنی لوگ بھوکے رہیں ‘‘۔

واپسی پر دین کے حاکم کیلئے احکامات پر سوچتا رہا اور پھر اپنے پیارے پاکستان سے متعلق سوچتا رہا کہ یہاں کے حکمران تو دین کے تصور حاکمیت سے بہت دور ہیں، یہاں تو برسوں سے ظلم کا راج ہے، یہاں لوگ روٹی کو ترستے رہے، لائنوں میں لگے اور پھرمٹ گئے، یہاں لوگ چھت کو ترستے رہے، نوکری کی تلاش میں بوڑھے ہوگئے، یہاں حالات اتنے تنگ کر دیئے گئے کہ رزق حلال پر برقرار رہنا مشکل ہی نہیں محال ہوگیا، یہاں تو لوگ حاکموں کی آمد کا انتظار کرتے کرتے موت کے منہ میں چلے گئے ۔ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کراچی سےایک دلخراش واقعہ سننے کو ملا، یہ واقعہ ہمارے حکمرانوں کا ’’چہرہ‘‘ بے نقاب کرتا ہے ۔کراچی سے ڈاکٹر وسیم آفندی بتاتے ہیں ’’چنددن پہلے میرے پاس ایک ایسے نوجوان کو لایا گیا جس کے سر پر گولی لگی تھی، خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا مگر نوجوان ابھی تک ہوش وحواس میں تھا، مجھے دیکھتے ہی نوجوان مجھ سے التجا کرنے لگا ڈاکٹر صاحب !میری موت کی خبر میرے گھر والوں کو نہ دینا، وہ ہاتھ جوڑ کر یہ بات کہہ رہا تھا میں بطور ڈاکٹر اسے بچانے کیلئے پرامید تھا اور وہ یقینی موت دیکھ کر ایسی باتیں کر رہا تھا، خیر اسے آپریشن تھیٹر لے جایا گیا، اسے بیہوش کرنے کیلئے انجکشن لگایا گیا، میں اس کی کہانی بھی سنتا رہا، وہ کہانی سناتے سناتے بیہوش ہو گیا، اسی بیہوشی میں اس کی موت ہو گئی مگر اس کی موت نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے کیونکہ وہ لڑکا مجھے کہہ رہا تھا کہ میری موت کی خبر میرے گھر والوں کو نہ دینا بلکہ میری لاش ایدھی سینٹر یا چھیپا کے حوالے کردینا، میں نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرے والد فوت ہو چکے ہیں،میری تین چھوٹی بہنیں ہیں جنہوں نے پچھلے دو دن سے کچھ نہیں کھایا، مجھے آج دو دن بعد مزدوری ملی، میں دیہاڑی لگا کرگھر جا رہا تھا کہ راستے میں ڈاکوئوں نے مجھے لوٹنے کی کوشش کی، میر ےپاس آج کی دیہاڑی کے تیرہ سو روپے اور یہ پرانا سا موبائل تھا۔

اگر بات صرف میری ہوتی تو میں تیرہ سو روپے ڈاکوئوں کو دے دیتا، موبائل بھی دے دیتا مگر مجھے فکر یہ تھی کہ میرے گھر میں دو روزسے میری بہنیں بھوکی ہیں، وہ روٹی کے انتظار میں میری راہ دیکھ رہی ہیں، یہ پیسے ڈاکو لے گئے تو میری بہنیں کیا کھائیں گی؟ڈاکوئوں کو خوف خدا نہیں، میں نے یہ سوچ کر مزاحمت شروع کی کہ یہ تو کسی اور کو بھی لوٹ لیں گے مگر ان ظالموں نے محض تیرہ سو روپے کیلئے میرے سر پر گولی مار دی، مجھے پتہ ہے میں مرجائوں گا، میری موت کا میرے گھر والوں کو نہیں بتانا، وہ میرے کفن اور میری قبر کیلئے پیسے کہاں سے لائیں گے، بس میری لاش ایدھی یا چھیپا کے حوالے کردینا، وہ مجھے کفن پہنا کر دفن کر دیں گے، نوجوان نے اسی حالت میں جیب میں ہاتھ ڈالا، تیرہ سو روپے اور موبائل میرے ہاتھ پر رکھا ،گھر کا ایڈریس بتایا اور کہا یہ میرے گھر پہنچا دینا، پیسوں سے وہ روٹی کھالیں گی، موبائل بیچ کر میری چھوٹی بہن نئی جوتی خرید لے گی، اگر میری والدہ کا حوصلہ بلند دیکھو تو پھر میری موت کا بتا دینا ورنہ کہنا کہ آپ کا بیٹا مزدوری کیلئے کسی دوسرے شہر چلا گیا ہے، یہ کہتے کہتے وہ غنودگی میں چلا گیا، وہیں اس کی موت ہو گئی، میں تب سے سوچ رہا ہوں کہ ہم پر پتھروں کی بارش ابھی تک کیوں نہیں ہوئی،حالات سے آگاہی کیلئے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے، حکمران دین کے تصور حاکمیت سے کہیں دور جا بسے، فیصلے کرنے والو!بس کرو، ایک شخص کو ٹھکانے لگاتے لگاتے کیوں ملک کو برباد کر رہے ہو، کیوں اپنا باغ اجاڑ رہے ہو، کیوں دھرتی پر ظلم کر رہے ہو، اگر درست فیصلے نہ ہوئے تو پھر کراچی جیسے واقعات پھیلتے جائیں گے، ابھی وقت ہے سوچ لو، یوم حساب کو سخت پکڑ ہونی ہے بقول اقبالؒ؎

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اپنا تبصرہ بھیجیں