اسلام آباد، لاہور(نمائندہ ، نیوز ایجنسیاں) وزیر اعظم عمران خان کیخلاف ممکنہ عدم اعتماد کو لے کر حکومتی اور اپوزیشن حلقوں کی سیاسی ملاقاتیں اور رابطے تیز ہوگئے ہیں،حکومتی اتحادی تحریک عدم اعتماد کے معاملات حتمی اعلان سے گریزاں ہیں، ایم کیو ایم کے وفد نے پیر کو مسلم لیگ (ق) سے ملاقات کی، قبل ازیں سابق صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی ایم کیو ایم وفد سے ملاقات ہوئی ہے،دونوں جماعتوں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں ملکر چلنے پر اتفاق کیا ہے،ادھر پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز ماڈل ٹاؤن لاہور میں جہانگیر ترین کی رہائشگاہ پہنچ گئے، جہاں ملاقات میں ن لیگ اور ترین گروپ میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے پر اتفاق ہوگیا، جبکہ حکومت کی جانب سے ڈی چوک پر جلسے کے اعلان کے بعد جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی ڈی چوک میں بھر پور قوت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تحریک عدم اعتماد کا میابی کی صورت میں اپوزیشن اتحاد نے مستقبل کا روڈ میپ مکمل کر لیا، جسکے تحت شہباز شریف وزیر اعظم، خورشید شاہ اسپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ اختر مینگل کی بی این پی کے ایم این اے کو دینے کی توقع ہے، اپوزیشن صدر کا مواخذہ کرنے کی تجویز پر بھی غور کر رہی ہے، اس صورتحال میں صدرمملکت کا عہدہ مولانا فضل الرحمٰن کو دینے کی تجویز ہے۔تفصیلات کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطوں اور مشاورت میں تیزی آگئی ہے، ایم کیو ایم کے فود نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی۔ ملاقات میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، مراد علی شاہ، ناصر حسین شاہ، سعید غنی، شرجیل میمن، رخسانہ بنگش، عامر خان، خالد مقبول صدیقی، امین الحق، وسیم اختر، خواجہ اظہار اور جاوید حنیف شریک تھے۔ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر گفتگو ہوئی۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کی قیادت کے درمیان ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں جماعتوں نے ملکی وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے سے ملکر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ملاقات کے دوران پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم کے تمام تر نکات سے بھی اتفاق کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پی پی سے ملاقات کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کا وفد مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت کی رہائش گاہ گیا۔ وفد نے آصف زرداری اور بلاول بھٹوسے ہونے والی اپنی ملاقات کے حوالے سے ق لیگ کو اعتماد میں لیا۔ایم کیو ایم پاکستان وفد آج منگل کو شہباز شریف سے ملاقات کریگا۔ ذرائع کے مطابق وفاق سے متعلق معاملات کیلئے اب ایم کیوایم کا وفد شہبازشریف سے (آج)منگل کو ملاقات کریگا۔ ادھر پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز ماڈل ٹاؤن لاہور میں جہانگیر ترین کی رہائشگاہ پہنچ گئے، جہاں ترین گروپ کے رہنما عون چوہدری اور دیگر ارکان نے حمزہ شہباز کا استقبال کیا، ن لیگ کے سلمان رفیق،عطا تاڑر، اویس لغاری اورعمران گورایہ بھی انکے ہمراہ تھے۔مسلم لیگ ن اور ترین گروپ میں وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار کو وزارت اعلٰی کے عہدے سے ہٹانے پر اتفاق ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق ترین گروپ کے اراکین نے مسلم لیگ ن کے وفد سے سیاسی مستقبل پرگفتگو کی۔ ترین گروپ کے اراکین کا کہنا تھا کہ وہ ذہنی طور پر حکومت سے علیحدگی کیلئے تیار ہیں، ہمیں آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کی یقین دہانی کرائی جائے، ملاقات کی تفصیل سے جہانگیر ترین کو آگاہ کرینگے، جہانگیر ترین جوفیصلہ کرینگے منظور ہوگا، مائنس بزدار میں ہم آپ کے ساتھ ہیں، تعاون طویل ہونا چاہیے۔ اس موقع پر حمزہ شہباز نےکہا کہ آپکے جذبات قیادت کے سامنے رکھیں گے، پنجاب سے متعلق سب سے مل کر اور بہتر فیصلے کرینگے۔ ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جسکے مطابق ملاقات میں سیاسی صورت حال پر باہمی مشاورت کی گئی، ترین گروپ کے اراکین نے پنجاب کے معاملات پر مایوسی کا اظہار کیا اور عثمان بزدار کو وزارت اعلٰی کے عہدے سے ہٹانے پر اتفاق کیا۔ اعلامیے کے مطابق ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما وفاقی وزیر مونس الٰہی اور جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین کے مابین ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔علی ترین اور مونس الٰہی کی ٹیلی فون پر بات عون چوہدری نے کروائی۔مونس الٰہی نے علی ترین سے انکے والد جہانگیر ترین کی خیریت دریافت کی اور ملکی سیاسی معاملات پر بات چیت کی گئی۔ عون چوہدری نے جہانگیر ترین کو پرویز الٰہی سے ملاقات کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔جے یو آئی نے بھی ڈی چوک میں بھر پور قوت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ترجمان جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مطابق اضلاع کی تنظیموں کو اسلام آباد کیلئے ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے۔ اس سے قبل عطاء تارڑ نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے جلسے کے اعلان کے بعد ن لیگ بھی اسلام آباد میں بڑا جلسہ کریگی۔ایک بیان میں رانا ثنااللہ نے تمام مقامی تنظیموں کی ہدایت کی ہے کہ تیار رہیں اور جیسے ہی پارٹی اعلان کرے ڈی چوک کے طرف چل پڑیں۔ علاوہ ازیں تحریک عدم اعتماد کا میابی کی صورت میں اپوزیشن اتحاد نے مستقبل کا روڈ میپ مکمل کر لیا، جس کے تحت شہباز شریف وزیر اعظم، خورشید شاہ اسپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ اختر مینگل کی بی این پی کے ایم این اے کو دینے کی توقع ہے، حکومتی اتحادی متفق ہیں کہ قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیاں مدت پوری کریں، تجویز ہے کہ قومی اسمبلی کو انتخابی اصلاحات، ملکی معیشت کی بہتری، پالیسیوں میں تسلسل، انرجی، واٹر وفوڈ سکیورٹی سمیت اہم قومی ایشوز پر اتفاق رائے سے اہم فیصلے کرنا ہونگے۔ تحریک عدم اعتماد پر سیاستدانوں میں باہمی مشاورت حتمی مراحل میں داخل ہو گئی۔ذرائع کا کہناہے کہ حکومتی اتحا دی تحریک عدم اعتماد پر فیصلے کا باضا بطہ اعلان او آئی سی کانفرنس کے بعد کریں گے، حکومت کے تین بڑے اتحادی پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم )، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کے مابین رابطے تیزی سے آگے بڑھے ہیں اور معاملات کو ایک پیج پر لا رہے ہیں،کوشش کی جا رہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر فیصلے کا اعلان تینوں اتحادی ایک ساتھ کریں۔ اسلام آباد میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے حکومت اور اپوزیشن کے بعض سیاستدانوں کی ملاقاتیں جاری ہیں، پیر کو حکومت کے ایک اہم وفاقی وزیر اعجاز شاہ نے چوہدری برادران سے ملاقات کی اور سیا سی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، چوہدری شجا عت حسین کی علالت کی پیش نظر ان کی ملاقاتیں محدود کی گئی ہیں،چوہدری پرویز الٰہی نے پیر کو اپنی پارٹی کے رہنمائوں سے بھی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ، مونس الٰہی، سینیٹر کامل علی آغا،سالک حسین ایم این اے، حسین الٰہی ایم این اے، صوبائی وزیر حا فظ عمار یاسر، میاں عمران مسعود اور دیگر موجود تھے، تحریک انصاف بلوچستان کے سابق صدر اور حا ل میں پیپلز پارٹی میں شامل ہو نے والے سردار یار رند نے بھی چوہدری برادران سے ملاقات کی۔ ذرائع بتا تے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اور چوہدری برادران کے درمیان کوئی تازہ رابطہ نہیں ہوا ۔دریں اثناء تحریک عدم اعتماد پر حتمی فیصلے کئے ایم کیو ایم نے کار کنوں کا جنرل ورکرز اجلاس بدھ یا جمعرات کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں حکومت اور متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ہونے والی حالیہ ملاقاتوں ،اور ان کی جانب سے دلائی گئی یقین دہانیوں کے حوالے سے کار کنوں کو اعتماد میں لے ان کی رائے لی جائے گی جس کے بعد ایم کیو ایم اپنے فیصلے کا اعلان کریگی۔