182

حالات اور عافیہ صدیقی.

حالات اور عافیہ صدیقی.
روئے سخن نہیں تو سخن کا جواز کیا بن تیرے زندگی کے نشیب و فراز کیا یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا آج کل تو روئے سخن سب کا طالبان کی سمت ہے اور جواز بھی سب کے پاس ہے۔دل تو یہی کہتا ہے کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔لیکن نہیں سائیڈ افیکٹ تو اس کے سب کو بھگتنا پڑیں گے۔خاص طور پر پاکستانیوں کی تشویش ٹی ٹی پی کے حوالے سے ہے کہ ان کی حالیہ جسارت ہمیں پریشان کر گئی ہے کہ ہمارے جوانوں پر حملہ آور ہیں کہ پاکستان پر فشار بڑھایا جائے۔وہ طالبان کے دعوے کو رد کرتے نظر آتے ہیں یا پھر واقعتاً ان کا افغانستان یعنی اصلی طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔اگر ٹی ٹی پی افغان طالبان کے زیر اثر ہیں تو پھر ہم کیا کہہ سکتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے اندرونی خلفشار پہلے ہی بہت زیادہ۔قانون کی عملداری مخدوش ہے چور چکاری اور ڈاکہ زنی عام ہے۔عورتوں اور بچیوں کی آبروریزی روز کا معمول بن گیا ہے جس پر سب کچھ شواہد کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے اسے امریکی شہری ہونے کا ریواڈ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔کبھی اسے پاگل ثابت کیا جا رہا ہے اور کبھی دوسرے لوگوںکو کیس میں ڈال کر معاملے کو الجھایا جا رہا ہے جو بھی ٹیسٹ کیس بنایا جاتا ہے وہ کبھی بھی نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ٹیسٹ دینے والے سرخرو ٹھہرتے ہیں۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آرمی چیف نے دشمن کو خبردار کیا ہے کہ کوئی دشمن ہمیں آزمانا چاہے تو ہم تیار ہیں لیکن ساتھ ہی یہ دلچسپ بات بھی کر دی کہ بھارت نے ہمیشہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے بلکہ سرتوڑ کوشش کہہ لیں لطیف نکتہ یہ کہ وہ اس کے سوا اور کیا کرے گا بلکہ اور وہ کیا کر سکتا ہے یہ تو ہم ہیں جو زرداری صاحب کے دور میں بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی کوشش میں رہے اور اس سے ملتی جلتی کوششیں ن لیگ نے بھی کیں شہباز شریف نے تو مشرقی پنجاب میں کبڈی میچ دیکھنے بھی گئے ۔ اس عمل سے مختلف ضیاء الحق نے کر دکھایا تھا کہ کرکٹ میچ دیکھنے گئے اور راجیو گاندھی کے کان میں کوئی بات کہی اور بھارت کی افواج بارڈر سے واپس چلی گئیں اس کے بعد بھارت نے باقاعدہ اپنے انجام کا سوچنا شروع کر دیا۔ بہرحال یہ تو ایسے ہی بات سے بات نکل گئی: کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے بن میرے شاید آپ کو پہچان بھی نہ ہو سب کچھ یاد آ رہا ہے، لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے۔اپنے عمل سے رجوع کرنا ہے۔ہمیں طالبان سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔آسماں نے دیکھا کہ وہی ملا ضعیف جسے بے عزت کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا اور ڈالر لیے گئے ۔کتنے زخم ہیں جو پاکستانیوں کے سینے پر ہیں جن میں سے بڑا گھائو عافیہ صدیقی کا ہے سب نے اس حوالے سے جھوٹ بولا اور طفل تسلیاں دیں نواز شریف نے باقاعدہ ان کی والدہ سے وعدہ کیا کہ وہ عافیہ کے لئے آخری حد تک جائیں گے پھر ہمارے خاں صاحب تو باقاعدہ اپنی الیکشن کمپین کا حصہ اسے بنائے ہوئے تھے۔ایسے ہی مجھے عافیہ صدیقی کے حوالے سے کبھی اپنی نظم کا آخری شعر یاد آ گیا: یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے کہ ایک شخص یہاں لشکروں پہ بھاری ہے ایک نہتی لڑکی امریکہ کو ایسا زچ کر گئی کہ انہوں نے تعصب اور جانبداری کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے اسے 80 سال کی سزا سنا دی ۔ اس کا قصور تو کوئی نہ نکل سکا وہ جانتے تھے کہ یہ ایک اسلامی دماغ ہے وہ ایک تعلیمی پالیسی لے کر نکلی تھی کہ ہر سبجیکٹ کو اسلام کے تابع کر دیا جائے۔تعلیم کو یوں آزاد نہ چھوڑا جائے کہ مغرب کے رنگ میں ڈھل جائے۔وہ معمولی خاتون نہیں کہ جس نے امریکی یونیورسٹی میں ریکارڈ بنایا۔یہ کوئی عام فیملی بھی نہیں۔مجھے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ نے کراچی عافیہ جرگہ کے لئے بلایا تو ان کی والدہ سے بھی ملاقات ہوئی۔یہ بے پناہ صلاحیتیں رکھنے والے لوگ ہیں ان کے خاندان سے تحریک خلافت کاآغاز ہوا تھا۔ قائد اعظم کی اسی خاندان نے سونے سے مدد کی۔ایک تاریخ ہے مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ عافیہ کے والد نے مفتی محمد شفیع کی تفسیر القرآن کا ترجمہ انگریزی میں کیا۔ معاف کیجیے گیا کہ ڈاکٹر عافیہ کا تذکرہ کر کے میں اپنے قلم کو اس حوالے سے روک نہیں سکا۔تب میں نے عافیہ کہانی لکھی تھی کہ غلط پروپیگنڈہ ہو رہا تھا کوئی کہتا کہ وہ اسامہ کا کلوننگ تیار رہی تھی کوئی کہتا کہ وہ ہیروں کی سمگلر تھی اور کوئی کچھ اور ہی ہانکتا۔حالانکہ وہ تو بچوں پر سپیشلائزیشن کر رہی تھی۔اتنی ذھین اور فطین اور ایسی مبلغ کہ امریکہ کی نظروں میں آ گئی جب وہ صرف سترہ سال کی تھی تو اس کی تقریریں سننے والی ہیں ایک تڑپ اس میں تھی قرآن کی۔وہ کئی جگہ قرآن مجید کا سٹال لگاتی اور لوگوں کی زندگیاں بدلنے کی کوشش کرتی۔وہ جیلوں میں قیدیوں سے بھی ملاقات کرتی اور قرآن کا پیغام پہنچاتی۔پھر کیا اس پر قیامت توڑ دی گئی۔کراچی ایئر پورٹ جاتے ہوئے اسے اغوا کر لیا جو چھوٹا بچہ اس کے ساتھ تھا اس کا پتہ تک نہیں چلا۔ایک بیٹا اور بیٹی ماشاء اللہ بڑے ہو گئے ہیں ان سے ملاقات بھی ہوئی یہ دکھ انہیں ورثے میں ملا ان کی والدہ بہت بہادر اور صابر ہیں۔مگر دکھ تو یہ ہے کہ کسی نے بھی عافیہ کی رہائی کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں کی میں تو عافیہ کے وکیل سے بھی مل چکا ہوں جس نے بتایا کہ خود حکمران ہی نہیں چاہتے کہ کوئی راز فاش نہ ہو جائے۔ حکومت کی مسلسل خامشی بھی سمجھ سے باہر ہے۔ڈاکٹر فوزیہ بے چاری اپنی بساط کے مطابق مسلسل کوشش میں رہی اب لوگ طالبان کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید وہی کچھ عافیہ کی رہائی کے لئے کریں۔فی الحال تو وہ نظام قائم کرنے میں مصروف ہیں اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ مسبب الاسباب ہے بلکہ اسے تو سبب کی بھی کوئی حاجت نہیں: میری سوچوں کا تصور ہے وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب بنا دیتی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں