mansoor afaq articles in urdu 226

جنوبی پنجاب صوبہ.منصورآفاق

جنوبی پنجاب پاکستان کا زرخیز ترین علاقہ ہے ، غذائی ضروریات پوری کرتا ہے ،کپاس بھی یہیں ہوتی ہے ،شوگر کی پیداواربھی یہیں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں پانچ دریا آپس میں ملتے ہیں مگر سب سے پسماندہ علاقہ بھی یہی ہے کہ دور دور ریت اڑتی ہے ،بھوک بھی یہیں پرورش پاتی ہے ، پیاس بھی یہیں اگتی ہے ۔اِ سی بھوک اور پیاس کا پالا ہوا لطیف واہگہ ضلع راجن پور کے ایک پرائمری اسکول کا استاد ہے۔ اس کی ایف اے کی سند میں ایک غلطی ہوگئی تھی۔ وہ بارہ دسمبر کو پیدا ہواتھا۔ یعنی 12/12 مگر مہینے والے بارہ کا ایک ٹائپنگ میں رہ گیا ۔اب مسئلہ یہ بن گیا کہ میٹرک کی سند کے مطابق وہ بارہ دسمبر کو پیدا ہوا اورایف اےکی سند میں اس کی پیدائش دو فروری قرار پا گئی۔ شروع شروع میں تو کسی نے دھیان نہیں دیا ،نوکری لگ گئی ،چند برس کے بعد کسی کی نظر پڑ گئی۔ سو اتنے بڑے جرم میں لطیف واہگہ کی تنخواہ روک دی گئی۔وہ راجن پور سےاٹھارہ گھنٹے سفرکر کے لاہور پہنچا ۔سیکرٹری ایجوکیشن کے دفتر گیا مگر جس کلرک کے پاس اس کی فائل تھی وہ ایک ہفتہ کی چھٹی پر تھا۔بیچارہ واپس آ گیا اور اگلے ہفتہ پھر اٹھارہ گھنٹوں کا سفر کر کےلاہور پہنچا۔ کلرک بادشاہ سے ملاقات ہوئی ،اس نے کہا کہ تمہیں تنخواہ نہیں دی جا سکتی پہلے جا کراپنی سند ٹھیک کرائو۔اس نے اپنی غربت کا بہت رونا رویامگر دل نہیں پسیجا ۔واپسی کا کرایہ نکال کر اس کی جیب میں کل رقم ایک سو 75روپے بچتی تھی۔ اس نے وہ بھی چائے پانی کےنام پر کلرک بادشاہ کی خدمت میں پیش کردی مگرمسئلہ حل نہ ہوسکا۔ تنخواہ بحال کرانے کیلئے اس کے راجن پور سے لاہور تک کئی چکر لگے ۔ دو مرتبہ لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب کسی ہوٹل میں ٹھہرنا بھی پڑا ۔ایک بار راستہ میں اس کی جیب بھی کٹ گئی۔ زیادہ تفصیل میں کیا جائوں ۔ بس اتنا ہوا کہ تنخواہ بحال ہوتے ہوتے اگلی تین تنخواہیں خرچ ہوگئیں اگر یہ کلرک اٹھارہ گھنٹے کی دوری پر نہ ہوتا تو خرچ ہونے والی تین تنخواہوں میں سے کم از کم دو تو بچ جانی تھیں۔یہ کہانی اس لیے سنائی ہے کہ یہ جو جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا مسئلہ ہے یہ لسانی سے زیادہ معاشی ہے۔ لسانی بنیاد پر بھی صوبہ ضرور بننا چاہیے ۔ سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو بولنے والوں کے اگر زبان کی بنیاد پر صوبے ہو سکتے ہیں تو سرائیکی صوبہ بھی ہو سکتا ہے ۔ سرائیکی میں کہتے ہیں۔ غریب بھاویں حسین ہووے۔ غریب دی گال کون سنڑداے۔

اسی خوف کے تحت سرائیکیوں نے جنوبی پنجاب صوبہ قبول کیا ۔ پھر وہ بھی نہ بن سکا تو اس کے صرف سیکرٹریٹ پر راضی ہو گئے ۔کچھ لوگوں نے اس میں بھی رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کی۔شکر ہےوزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی مسلسل کوشش سے ابھی چند دن پہلے وزیر اعظم عمران خان نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ پر 3ارب 54 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ 500کنال اراضی پر مشتمل ہو گا جبکہ اس کی عمارت 5 منزلہ ہو گی۔جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی عمارت متی تل میں تعمیر کی جائے گی۔ جلد ہی بہاولپور میں بھی سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے گا۔ یہ صرف سیکرٹریت کی تعمیر کی بات نہیں ہے بلکہ اگر اس پر من و عن عملدرآمد ہوگیا تو پنجاب جنوبی ایشیا میں ایک بہترین کیس اسٹڈی کے طور پر ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔ ہم پچھلے ادوار میں جنوبی پنجاب کے ساتھ ہوئی ناانصافیوں اور اسکی محرومیوں کے چشم دید گواہ ہیں۔ پنجاب کی کل آبادی کا 32فیصد حصہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتا ہے اور سابق حکمران اس حصے پر صرف 17فیصد بجٹ لگاتے تھے اور وہ بھی نہ جانے کہاں لگاتے کہ یہاں کے عوام کو ایک ٹکے کا سکھ نہ مل سکا۔ اب جبکہ جنوبی پنجاب کیلئے 33 فیصد بجٹ رکھا گیا ہے اور اس کو رنگ فینس بھی کردیا گیا ہے تو امید کی اس بجھتی شمع کو سہارا مل گیا ہے۔

کالم کے آغاز میں راجن پور کے جس استاد کا ذکر کیا، میں امید کرتا ہوں کہ ایسے ہزاروں اساتذہ کو اب دربدر نہیں ہونا پڑے گا۔ اس سیکرٹریٹ کے مکمل طور پر فعال ہونے سے سدرن پنجاب میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کی زندگی بہتر ہو سکے گی اور ناردرن اور سینٹرل پنجاب کے حوالے سے انتظامی امور میں بھی نمایاں بہتری سامنے آئے گی۔یہ کسی عمارت کی تعمیر کا سنگ بنیادنہیں ،ایک روشن مستقبل کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ میرے خیال میں تو سیکرٹریٹ کے قیام سے حکومت نے جہاں اپنا وعدہ پورا کیا وہاں اپنے ہی احتساب کیلئے وجہ بھی پیدا کرلی ہے۔ اب حکومت کی کارکردگی کو بہتر انداز میں پرکھاجاسکے گا کیونکہ جنوبی پنجاب بھی اب مین اسٹریم کا حصہ ہوگا۔ البتہ ابھی تک کے اعداد و شمار تو مثبت رپورٹ پیش کررہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں قائم کئی ہزار اسکولوں کو سولر انرجی پر منتقل کردیا گیا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں پنجاب میں 27 ہزار اسکول اپ گریڈ کئے گئے جن میں سے 38 فیصدا سکول جنوبی پنجاب میں واقع ہیں۔ جنوبی پنجاب میں دل کےاسپتال سمیت کئی مدر اینڈ چائلڈ اسپتال قائم کئے جارہے ہیں۔ کبھی کسی حکمران نے ماضی میں یہ سوچا کہ راجن پور یا ڈی جی خان میں اگر کسی شخص کو دل کا دورہ پڑتا ہے تو ورثامریض کو کہاں اور کتنے سو کلومیٹر دور لیکر جاتے ہیں؟ خوش قسمتی ہے کہ بزدار حکومت نے سوچا! ۔ملتان کیلئے پنجاب حکومت 100 منصوبوں پر مشتمل 34ارب روپے کا ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پیکیج لارہی ہے۔ ان میں 47منصوبے روڈ انفراسٹرکچر کے، فراہمی اور نکاسی آب کے 23، تعلیم کے 9اور ہیلتھ کے 6منصوبے شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے متی تل دو رویہ روڈ کا بھی سنگ بنیاد رکھ دیا۔وزیر اعظم نے دورہ ملتان کے دوران مدر اینڈ چائلڈ اسپتال، وہاڑی روڈ کا سنگ بنیاد رکھا جبکہ لیبر کالونی فیز ون کا بھی افتتاح کر دیا۔ اس کالونی میں تقریباً 1 ہزار فلیٹس محنت کشوں کو دئیے جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے 10 واٹر فلٹریشن پلانٹس کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ شیلٹر ہوم، میاواکی فوریسٹ اور ای خدمت مرکز کا بھی افتتاح کر دیا۔ جہاں سوا 3ارب روپے کے منصوبوں کا افتتاح کیا گیا وہاں 9ارب کے منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔ جنوبی پنجاب کے چھوٹے اضلاع تو بہت دور کی بات، ملتان جہاں سے تعلق رکھنے والے گیلانی صاحب وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں ان کے اپنے شہر کی پسماندگی کی مثال نہیں ملتی۔ 70سالوں میں نشتر اسپتال کے بعد کوئی جنرل اسپتال نہیں بنایا گیا۔ جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے نشتر 2 کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا اور اسی سال اس کی او پی ڈی کھول دی جائے گی، دوسری جانب کینسر کے وارڈ کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بھی نئی او پی ڈی اسی سال شروع کردی جائے گی۔ اور تو اور جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کیلئے سرکاری ملازمتوں میں خصوصی کوٹے کیلئے قانون سازی پر کام کیا جارہا ہےاوریہ سب اپوزیشن جماعتوں کیلئے ایک بہت بڑا پولیٹکل تھریٹ بھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں