جنرل قاسم سلیمانی کی شھادت
تحریر: مفتی گلزاراحمد نعیمی۔
جنرل قاسم سلیمانی اپنی شھادت سے پہلے اتنے مشہور نہیں تھے کہ جتناوہ بعد از شھادت معروف ہوئے۔میرے نزدیک یہ اللہ کے نزدیک کسی کی جان کی قبولیت کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے۔آج پوری دنیا کی زبان پر انکا ذکر خیر، انکے مقبول بارگاہ خداوندی کی سند بن گیا ہے۔استعمار کے سامنے اسلامی مقاومت کا استعارہ،جہاد فی سبیل اللہ کا عظیم مجاہد آج ہم میں نہیں ہے مگر ہر آنکھ اشکبار ہے اور اسکی شھادت پر ہر دل غمگین ہے۔سلیمانی اہل حق کا ہیرو تھااور اسلام دشمنوں کے لیے ایک دہشت کی علامت تھا۔جنرل سلیمانی وہ شخصیت ہیں کہ جن کی شھادت پر قاتل ٹرمپ کے ملک کی عوام بھی افسردہ ہے۔ایک امریکی مصنف سکاٹ گریر نے سلیمانی کی شھادت پر اس طرح تبصرہ کیا ہے
” Amrerica killed the guy who stopped ISIS from taking over half of the Middle East who s really winning here..Scott Gareer,
ترجمہ۔امریکہ نے اس آدمی کو قتل کیا ہےجس نے آدھے مشرق وسطی کو داعش کے قبضے میں جانے سے روکے رکھا۔یہاں حقیقت میں کون جیت رہا ہے؟؟
امریکی کانگریس کے کئی ممبران نے جنر سلیمانی کے قتل پر ناراضگی کا اظہار کیا۔
آج کچھ عرب ممالک جنرل سلیمانی کی شھادت پر جشن منارہے ہیں، انہیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ عنقریب انکی باری بھی آنے والی ہے۔اگر کرنل قذافی اور صدام جیسے مضبوط بادشاہ امریکہ کے ظلم کا نشانہ بن کر موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں تو دوسرے بادشاہ بھی اپنی رسوا کن موت اور عبرت ناک انجام کے لیے تیاررہیں۔سلیمانی کی شھادت کے بعد یہ بزدل لوگ خوشیاں منارہے ہیں،یاد رکھیں اس صبح کی پو بھی پھوٹنے والی ہے جو تمہاری نابودی کا پیغام لیکر آئے گی۔ایک عراقی سیاستدان نےان شادیانے بجانے والوں کے لیے بہت اچھا ٹویٹ کیا تھا” عند ماتری الکلاب والضباع فرحة فاعلم ان المیت اسد” ترجمہ: جب دیکھو کہ کتے اور لگڑ بگڑ خوشیاں منارہے ہیں تو جان لو کہ مرنے والا شیر تھا۔
آج اگر عرب ممالک اور انکے گماشتےسلیمانی کی شھادت پر خوش ہیں تووہ یادرکھیں کہ ایک دن بہت جلد آنے والا ہے جب “قصاب” انکو بھی برائلیر مرغیوں کی طرح ذبح کرے گا اور انکو قصاب کی چھری سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔جنرل سلیمانی جیسے لوگ امت کے محافظ ہیں۔ میں بڑے ہی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس اور ان جیسے عظیم مجاہدوں کی وجہ سے آج عراق کو آپ غیر منقسم دیکھ رہے ہیں ورنہ ” شکاری” کب کا اسے کرد،شیعہ اور سنی عراق میں تقسیم کر چکا ہوتا۔
یہ بہت ہی تکلیف دہ بات ہے کہ ہمارے کچھ پاکستانی کالم نگار اور بندگان ریال و دلار جنرل سلیمانی کی شخصیت کو اہل پاکستان کے سامنے بہت منفی انداز میں پیش کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ سلیمانی اپنے دوست امریکہ کے ہی ہاتھوں قتل ہوا ہے، اسنے عراق اور شام میں سنی مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے۔وغیرہ وغیرہ۔یہ سب لغو باتیں ہیں جنکا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔اگر سلیمانی امریکہ کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتا تھا تو ایسے بہادر شخص سے تو امریکہ بے شمار فآئدے لے سکتا تھا۔شکاری سدھائے ہوئے تیتر سے جنگل کے دوسرے تیتروں کا شکار کرتے ہیں۔سدھائے ہوئے تیتر کو ذبح کرکے کبھی کھاتےنہیں ہیں۔اگر آپ لوگوں کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی چڑھی ہوئی ہے تو اسکا کوئی علاج نہیں ہے۔اگر آپ امریکہ اور ایران کے درمیان ہونے والی جنگ کو شیعہ سنی جنگ قرار دے رہے ہیں تو میں آپکی عقل پر ماتم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔پاکستان کی ایک انتہاء پسند اور دھشت گرد تنظیم کے سربراہ نے جنرل قاسم سلیمانی کی شھادت پر جو ٹویٹ کیا وہ ملاحظہ ہو” قاسم سلیمانی نے ہمیشہ امن پر جنگ کو ترجیح دی۔پاکستان سمیت عراق،شام،یمن اور دیگر کئی ممالک میں شیعہ دہشت گرد تنظیموں کو مسلح جدوجہد کرنے اور انہیں اہل سنت علماء و عوام کے قتل عام پر آمادہ کرتے رہے وہ دنیا بھر میں کئی دہشت گرد کروپوں کے سرپرست تھے”۔ العیاذ باللہ۔جھوٹ اور دجل کی بھی کوئی انتہاء ہوتی ہے۔پاکستان ہی کو لے لیتے ہیں ،پاکستان میں مختلف شخصیات کے قتل میں ملوث پاکستان کی دہشگرد تنظیم کے طالبان تھے یا جنرل سلیمانی کی تربیت یافتہ لوگ تھے؟؟۔ آپ خود ہی بتائیں لاہور داتا دربار پر حملہ ہو یا شھید پاکستان ڈاکٹر سرفراز نعیمی شھید پر قاتلانہ حملہ ،تمہارے خود کش حملہ آور ملوث تھے کہ جرنل سلیمانی کے لوگ تھے۔وطن عزیز کی بہادر فوج پر حملے تمہارے لوگوں نے کیے کہ کوئی اور تھا؟؟
ایک کالم نگار کہتا ہے کہ جرنل سلیمانی نے پوری دنیا سے مجاہدین اکٹھے کر کے عراق اور شام میں مسلمانوں کا خون بہایا۔۔۔۔۔اگر شام اور عراق کو داعش اور دیگر دہشگرد گروپوں کے حوالے کردیا جاتا تو پھر آپکو سکون ہوتا؟؟آج افغانستان میں القاعدہ کی حکومت ہوتی تو آپ پرسکون ہوتے۔؟؟
ہمارےایک اور سکالر بقلم خود جناب عامر لیاقت حسین کا ٹویٹ ملاحظہ ہو” امریکہ کہتا ہے جنگ کریں گے،ایران کہتا ہےجنگی جواب دیں گے۔البتہ دونوں ممالک کے اندر سفارت خانے اب تک کھلے ہوئے ہیں۔مگر داعش کی خلاف جنگ بند ہوگئی ہے۔۔واہ رے واہ۔موصوف وفاق میں وزیر مملکت رہ چکے ہیں اور ابھی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں، اتنا بھی علم نہیں رکھتے کہ ایران میں 1980 سے امریکی سفارت خانہ بند ہے۔ہر کوئی بادشاہوں کے دربار میں اپنی حاضری لگوا رہا ہے اور آنے والے وقتوں لیے اپنے روزگار کے “ٹھیے” مضبوط کررہا ہے۔
خیر! میرے لیے ان لوگوں کی لن ترانیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔البتہ مجھے زیادہ کنسرن سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے اس بیان سےہے جو اس نے ایک امریکی اخبار روزنامہ اسکیپ(Daily scape) کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا۔کسنجر نے کہا” تیسری جنک عظیم شروع ہونے والی ہے اورمسلمان راکھ کا ڈھیر بن جائیں گے۔ایران اس جنگ کا نقطئہ آغاز ہوگاجس میں اسرائیل بے شمار عربوں کو قتل کرے گااور مشرق وسطی کے آدھے حصہ پر قابض ہوجائے گا۔ہم نے امریکن آرمی کو بتا دیا ہے کہ ہم مشرق وسطی کے سات ممالک پر انکی تزویراتی اہمیت کی وجہ سے قبضہ کرنے پر مجبور ہیں،بطور خاص اس وجہ سے بھی کہ وہ تیل اور دیگر معاشی ذرائع سے بھرپور ہیں۔اس قبضہ کے لیے صرف ایک مرحلہ باقی ہے اور وہ ایران پر حملہ کرنا اور اس کو شکست دینا ہے۔مشرق وسطی میں طبل جنگ بج چکا ہے جسے صرف کانوں سے بہرہ شخص ہی نہیں سن سکتا”۔
سابق امریکی وزیر خارجہ کے بیان کو وہ لوگ غور سے پڑھیں جو اسے سعودی ایران یا شیعہ سنی جنگ قرار دے رہے ہیں۔یہ جنگ صرف اور صرف مسلمانوں کے معاشی ذرائع پر قبضہ کے لیے لڑی جارہی ہے۔شیعہ سنی اختلاف ایک منصوبہ بندی کے بڑھائے جارہے ہیں تاکہ مسلمان آپس کے اختلاف کی وجہ سے کمزور سے کمزور تر ہوں اور استعمار انہیں آسانی سے تر نوالہ سمجھ کے نگل لے۔حالنکہ اللہ کی کتاب ہمیں حکم دے رہی ہے ” ولاتھنوا ولاتحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین۔۔العمران آیت 139۔
اور تم کمزوری مت دکھاؤ اور تم غم نہ کھاؤ تم ہی بلند ہو اگر تم صاحب ایمان ہو۔
خدارا۔! مسلمانوں آنکھیں کھولو۔پچھلے بیس سالوں میں افغانستان تباہ ہوا،عراق تباہ ہوا ،شام تباہ ہوا اور یمن تباہ ہوا۔استعماری قوتیں پاکستان، ایران اور قطر کو تباہ کرنا چاہتی ہیں،ان گزشتہ بیس سالوں میں دس ملین مسلمانوں کو استعمار نے موت کے گھاٹ اتاراور 69۔9 مسلمان در بدر ہوئے ہیں۔ہم پھر بھی اپنے بھائیوں کو تباہ کرنے کے لیے عالمی استعمار کو اپنے کندھے فراہم کررہے ہیں۔
ایک دفعہ میں پھر یہ جملہ دہراتا ہوں آج اگر کسی اور کی بربادی پر آپ شاداں ہیں تو کل بہت جلد آپکی باری بھی آجائے گی۔
کونوا عباد اللہ اخوانا۔