tassawuf oar sufia 549

تصوف و صوفیاء. حافظ محمد جمیل ریسرچ سکالر دارالعلوم جامعہ نعیمیہ اسلام آباد

تصوف و صوفیاء

(قرآن و سنت کی روشنی میں)

حافظ محمد جمیل ریسرچ سکالر دارالعلوم جامعہ نعیمیہ اسلام آباد)

تصوف اسلام کے جمالیاتی پہلو کا عظیم ترجمان ہے ۔ اس کے ذریعے اسلام کی شان جمال کا بھر پور ظہور ہو ا ہے۔ اس کا تابناک اور روشن حصہ وہ ہے جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہے یا ہم آہنگ ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں صادقین، قانتین، مخلصین ، محسنین ، عابدین، خاشعین، متوکلین، صابرین، اولیاء ، ابرار کے ناموں سے اپنے نیک اور صالح بندوں کا ذکر کیا ہے ۔ صدق، اخلاص ، احسان، عبادت، خشوع و خضوع ،فقر، صبر، توکل، شکر چونکہ صوفیاء کی صفات ہیں۔ اسی طرح قرآن میں توبہ ، انابت، اخلاص، صبر ، شکر، رضاء، توکل ، قرب، خوف، رجاء، مشاہدہ و یقین وغیرہ کی تعریف آئی ہے ۔ یہ چیزیں تصوف میں احوال یا مقامات کہلاتی ہیں۔
قرآن حکیم میں اخلاق حسنہ پر خاص زور دیا گیاہے ۔ اور تصوف حسن اخلاق کا دوسرا نام ہے ۔ احادیث میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی صدیقین، صالحین اور دوسرے ناموں سے مردان خدا کی تعریف کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صدق ، اخلاص ، فقر ، توکل، اور صبر جیسے قلبی اور روحانی اعمال کی تاکید آئی ہے۔ نیز سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اخلاق عالیہ کو ممتاز مقام حاصل رہا ہے۔ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ جس طرح تمام مسلمانوں کے لئے اسوۃ حسنہ ہے ۔ اسی طرح صوفیہ کے لئے بھی سر چشمہ ہدایت ہے ۔ اہل تصوف کا اتفاق ہے کہ تصوف کی اساس قرآن و سنت کی اعلی تعلیمات ہیں اور اس علم کا منبع و مصدر قرآن مجید اور حدیث و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

۱۔ تصوف ازروئے قرآن مجید

تصوف میں قرآن کو مصدر اول کا مقام حاصل ہے ، تصوف کی کتابوں میں ہر بحث کے شروع میں قرآنی آیات سے استدلال کیا گیا ہے ۔ فہم قرآن کے باب میں صوفیہ نے جو نکتہ آفرینی کی ہے عموما ان سے تفسیر کی ضخیم کتابیں خالی ہیں۔ صوفیہ کے اخذ کردہ لطائف کا روشن پہلو یہ ہے کہ ان سے دل و دما غ منور ہوتے ہیں، فکر و نظر کو جلا ملتی ہے اور ایمان و یقین تازہ ہو جاتے ہیں۔
قرآن مجید تمام انسانوں کی راہنمائی اور زندگی کے تمام شعبوں کے لئے ہدایت فراہم کرتاہے ۔ خواہ ان شعبوں کا تعلق ظاہری زندگی سے ہو ،جسے شریعت کہتے ہیں یا باطنی زندگی سے جسے طریقت کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں تصوف کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتاہے کہ شریعت کا مقصد ہی حصول تقوی قرار دیا گیا ہے اور انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالی کی عبادت بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
وَمَا خَلَقتُ الجِن والانس الا لیعبدون
اور میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔(الذاریات:۵۶)
اللہ تعالی کی عبادت کا مقصد پر ہیز گاری اور اپنے دامن کو برائیوں سے پاک و صاف کرنا ہے اور یہی تصوف کا مقصود ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ
اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو (بھی) جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ (البقرہ:21)

2۔ متقین کے درجات

قرآن مجید کے نزول کی حکمت انسانوں کو ہدایت دینا اور مومنین کو تقوی کی دولت سے سرفراز کرنا ہے۔ تصوف میں اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے جو طریقے اختیار کیے گئے ہیں ان کی طرف قرآن مجید میں واضح اشارات ملتے ہیں۔ اللہ تعالی کے قرآن مجید میں متقین کو پسند کیا ہے اور ان کی تحسین فرمائی ہے۔سطور ذیل میں قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں متقین کے درجات بیان کییجاتے ہیں۔

متقین اللہ کے دوست ہیں
قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ متقین تو اصل میں اولیاء اللہ یعنی اللہ کے دوست ہیں لیکن لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں،فرمان ربی ہے:
إِنْ أَوْلِیَآؤُہُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَ?کِنَّ أَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ
، اس کے اولیاء (یعنی دوست) تو صرف پرہیزگار لوگ ہوتے ہیں مگر ان میں سے اکثر کو علم نہیں۔ (الانفال:34)

متقین اللہ کے مقرب ہیں
اہل تصوف کی خصوصیت تقوی بیان کرنے کے بعد قرآن مجید نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ قربت الہی کا اعزاز بھی انہی کو حاصل ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے
إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ
بیشک اللہ تعالی متقین سے محبت کرتاہے (التوبہ: 7)

متقین صالحین ہی کامیاب ہیں
اولاد آدم دو گروہوں میں بٹ گئی ہے ایک گروہ حزب اللہ اور دوسرا حزب الشیطان، حزب للہ میں اللہ تعالی کے مخلص بندے شامل ہیں جن پر شیطان کا کوئی بس نہیں چلتا اور حز ب الشیطان میں وہ لوگ ہیں جو شیطان کی پیروی کرتے ہیں اور ذکر الہی سے منہ موڑ لیتے ہیں، حز ب اللہ کا گروہ فلاح یافتہ ہے حزب الشیطان والے خسارہ میں رہیں گے۔ قرآن مجید میں حز ب اللہ کا درجہ بیان کیا گیا ہے اور ان لوگوں پر انعامات ربانی کا واضح اعلان ان الفاظ میں کر دی گیا ہے فرمان الہی ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَائَہُمْ أَوْ أَبْنَائَہُمْ أَوْ إِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیرَتَہُمْ أُوْلَئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الْإِیْمَانَ وَأَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ أُوْلَئِکَ حِزْبُ اللَّہِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّہِ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ
آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی ا? (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک ا? (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے۔ (المجادلہ: 22)
مخلصین اور صالحین وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت احکامات و ارشادات پر عمل کیا اور یہ لوگ اللہ تعالی کے انعام و اکرام کے نزول کے بہت بڑے مرکز بن جاتے ہیں:
وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَ?ئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْہِم مِّنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَ?ئِکَ رَفِیقًا
اور جو کوئی اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہدائاور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں (النساء: 69)
قرآن مجید میں دوسری جگہ پر ان صالحین کے فضائل و درجات کا تذکرہ اللہ تعالی نے اس طرح فرمایا:
أَلاَ إِنَّ أَوْلِیَائَ اللّہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ۔ الَّذِینَ آمَنُواْ وَکَانُواْ یَتَّقُونَ۔ لَہُمُ الْبُشْرَی فِی الْحَیاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ لاَ تَبْدِیلَ لِکَلِمَاتِ اللّہِ ذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ۔
خبردار! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقوٰی شعار رہے۔ ان کے لئے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/ یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)، اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔ (یونس: 62-64)

3- قرآن اور تزکیہ نفس

انسان کا وجود جسم اور روح دونوں کا مرکز ہے۔ جسم اور روح دونوں کے الگ الگ تقاضے ہیں اور یہ تقاضے ان کی فطری اور طبعی صلاحیتوں کے مطابق ہیں۔ انسانی جسم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور مٹی میں پستی، ضلالت، گمراہی، حیوانیت وبہیمیت، شیطانیت اور سرکشی جیسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے نفس انسانی فطری طور پر برائیوں کی طرف رغبت دلاتارہتا ہے۔ گویا گناہوں کی آلودگیاں اور حق سے انحراف نفس انسانی کی فطرت میں شامل ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالی نے روح کی صورت میں انسان کے اندر ایک لطیف و نورانی ملکہ بھی ودیعت کر دیا ہے جس کے تقاضے بدی و نیکی کی تمیز، حق پرستی، صداقت و امانت اور نفس کی تہذیب و تطہیر سے پورے ہوتے ہیں، ان دونوں کے درمیان تضاد، تصادم اور ٹکراؤ کی کیفیت قائم رہتی ہے اور جب تک یہ کشمکش قائم رہے انسان کی زندگی عجیب قسم کے تضادات اور بگاڑ کا شکار رہتی ہے۔ اسی بگاڑ سیبیراہ روی، ظلم واستحصال، فسق و فجور جنم لیتے ہیں انسانی شخصیت اپنیاندرونی انتشار کی وجہ سے بے سکون و بے اطمینان رہتی ہے۔ چنانچہ تزکیہ نفس دراصل اس کشمکش سے نجات کا ذریعہ ہے۔پس جب کوئی برائی نفس انسانی میں فروغ نہ پا سکے، کوئی شے صراط مستقیم سے اس کو بہکا نہ سکے اور مادی زندگی کی آلائش اس کو اس راہ حق سے ہٹا نہ سکیں تو ایک طرف اسے بارگاہ خداوندی میں ایسا سجدہ عبادت نصیب ہو جاتاہے جس کی کیفیت فان لم تکن تراہ فانہ یراک کی مصداق ہے۔ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا بصورت دیگر خدا اس کو دیکھ رہا ہے اور دوسری طرف اس کی شخصیت روحانی و اخلاقی کمال کی بلندیوں کو بھی پالے تو اس علم کا نام تزکیہ نفس ہے جس کے حصول کے بغیر عبادت بے معنی و بے لذت ہے، نیکی کے فروغ و تقوی اور معرفت ربانی کے لئے زینہ اور سب سے پہلا عمل تزکیہ نفس ہے۔
تصوف اصل میں اپنے نفس کو خواہشات دنیوی سے محفوظ رکھنے کا ہی نام ہے۔ اور اسی کو تزکیہ نفس کہا گیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی و َذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا، وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ وَأَبْقَی
بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔ اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔ بلکہ تم (ا? کی طرف رجوع کرنے کی بجائے) دنیاوی زندگی (کی لذتوں) کو اختیار کرتے ہو۔ حالانکہ آخرت (کی لذت و راحت) بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (الاعلی: 17-14)
تزکیہ نفس ہی صوفیہ کا اوڑھنا اور بچھونا ہے اسی کی عملی تصویر ہوتے ہیں اور اسی کی تبلیغ ان کا مقصد اور منزل ہوتی ہے انسان کے لئے تزکیہ نفس ایک ایسی مطلوبہ نعمت و رحمت ہے جس کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی تلاوت کا انتخاب کیا۔ ارشاد ربانی ہے:
ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْہُمْ یَتْلُواْ عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ
وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (الجمعہ:2)
تزکیہ کے ددپہلو ہیں ایک یہ ہے کہ خود کو گناہوں سے دور کرنا اور باطنی صفائی کرنا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ صفائی کے بعد نیکیوں اور اچھے اعمال کی بنیاد رکھنا اور انہیں نشونما دینا۔ نفس سے مراد انسانی ذات یا شخصیت ہے۔ چنانچہ تزکیہ نفس کا مفہو م یہ ہوا کہ انسانی شخصیت میں سے برائیوں کو ختم کرنا اور اچھائیوں کو پروان چڑھانا۔ تزکیہ نفس دیکھنے میں تو ایک سادہ عمل ہے لیکن عملی طعر پر دیکھا جائے تو انتہائی مشکل کام ہے۔ لیکن یہی دین کا مقصود ہے اور اسی عمل میں کامیابی کا نتیجہ جنت کی ابدی نعمتوں کی شکل میں نکلے گا۔ جبکہ اس میں ناکامی کا انجام جہنم کے گڑھے ہیں۔ تزکیہ نفس کی اسی اہمیت کی بناء پر قرآن مجید نے اسے براہ راست موضوع بنایاہے۔
(گناہوں سے پاک لوگ ہی اللہ کو پسند ہیں)
اللہ تعالی کو پاک لوگ ہی پسند ہیں اور یہ پاکی ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی۔ یہ پاکی ایمان کی بھی ہے اور عمل کی بھی۔ چنانچہ وہ لوگ جو عقید ے کی نجاست اور نفاق کی گندگی کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ان کی بنائی ہوئی مسجد تک کو ڈھانے کا حکم دے کر اپنا فیصلہ ہر لحاظ سے پاک رہنے والے مومنوں کے حق میں سنا دیا:
لاَ تَقُمْ فِیہِ أَبَدًا لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِیہِ فِیہِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ أَن یَتَطَہَّرُواْ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِینَ
(اے حبیب!) آپ اس (مسجد کے نام پر بنائی گئی عمارت) میں کبھی بھی کھڑے نہ ہوں۔ البتہ وہ مسجد، جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقوٰی پر رکھی گئی ہے، حق دار ہے کہ آپ اس میں قیام فرما ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو (ظاہراً و باطناً) پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں، اور ا? طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے

تزکیہ نفس اللہ کی عنایت ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان پاکی حاصل کرنے کی کوشش تو کر سکتا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ آلائشیں اس کے دامن میں رہ جاتی ہیں۔ کامل تزکیہ عطا کرنا اللہ کی عنایت ہے ینز تزکیہ کرنے والوں کو ا س تکبر میں مبتلا نہیں ہو جانا چاہیے کہ اب وہ کوئی بہت بڑے بزرگ بن بیٹھے۔ یہ رویہ خود تزکیہ کے خلاف ہے کیونکہ یہ تکبر کو جنم دیتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَن یَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَإِنَّہُ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَائِ وَالْمُنکَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ مَا زَکَا مِنکُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَکِنَّ اللَّہَ یُزَکِّی مَن یَشَائُ وَاللَّہُ سَمِیعٌ عَلِیم
اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو، اور جو شخص شیطان کے نقوشِ قدم پر چلتا ہے تو وہ یقیناً بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناہِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ (النور: 21)

نمودو نمائش کا تزکیہ اللہ تعالی کو ناپسند ہے
ایک مقام پر نام نہاد تزکیہ کرنے والوں کی مذمت اس طرح کی گئی ہے۔
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ یُزَکُّونَ أَنفُسَہُمْ بَلِ اللّہُ یُزَکِّی مَن یَشَائُ وَلاَ یُظْلَمُونَ فَتِیلاً
کیا آپ نے ایسے لوگوں کی حالت پر غور کیا جو اپنی پاکیزگی نفس کی شیخی بگھارتے ہیں،حالانکہ پاک تو اللہ ہی کرتا ہے جسے چاہتا ہے۔اور ان پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (النساء: 49)

4- تزکیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ نبوت ہے

اللہ سبحانہ و تعالی نے جب آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا تو ان کی بعثت کا بنیادی مقصد لوگوں کو گناہوں سے دور کرنا ہی بیان کیا ہے فرمان الہی ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُواْ عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ
بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے (ال عمران: 164)
اس آیت سے معلوم ہو تاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تین فرائض بیان ہوئے ہیں۔
۱)کلام اللہ کی آیات پڑھنا،
۲)کام تزکیہ کرنا اور
۳)کام کتاب و حکمت کی تعلیم دینا۔
لیکن اگر ذرا غور سیجائزہ لیا جائے تو اصل کام تزکیہ یعنی پاک کرنا ہی ہے۔ اسی کے لئے اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ تزکیہ کا کام شروع ہوجاتا ہے تو لوگوں کو صراط مستقیم مل جاتی ہے اور وہ راست پر آ کر گمراہی سے نکل جاتا ہیں۔ اسی تزکیہ کا براہ راست حکم ایک اور آیت میں اس طرح دیا گیا ہے۔
خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیہِم بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ إِنَّ صَلاَتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ وَاللّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ
آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور ا? خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے

5۔ قرآن اور صوفیاء کا تصور بیعت

صوفیاء کے ہاں بیعت کا خاص تصور صدیوں سے پایا جاتاہے۔ بیعت کے ذریعہ شیخ اپنے مرید کو انوار ربانی اور رحمت الہی کیحصول کا راستہ بتاتا ہے۔اس راستہ پر چل کر مرید روحانی طور پر اعلی مقام حاصل کر لیتاہے۔ بیعت کے متعلق صوفیا ء کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی جسے قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیاہے۔
إِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّہَ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْدِیہِمْ
(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ ا? ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) ا? کا ہاتھ ہے۔ (الفتح: 10)
چنانچہ صوفیہ بیعت کرتے ہیں۔ یہ بیعت گناہوں کی توبہ اور برکت کے حصول کے لئے کیجاتی ہے۔ آیات قرآنیہ کے مطالعہ سییہ بات عیاں ہو گئی کہ ذکر الہی، توکل علی اللہ، تزکیہ نفس، سکون قلب، قربت الہی، معیشت الہی، تقوی، صبر وشکر اور فلاح دنیا آخرت ہی انسان کی فانی زندگی کی کامیابی کیلئے ضروری ہیں جن کی تاکید قرآن مجید نے کی اور یہی تمام خصوصیات اللہ تعالی کینیک بندوں کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔

قرآن و سنت میں اشارات تصوف
رسول اللہ عاکر اسلام کے سپہ سالار بھی تھے اور مدینہ کی شہری ریاست کے سربراہ بھی۔ معلم کتاب وحکمت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روز مرہ کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی امور میں رہبر و رہنما بھی تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل حیثیت اور حقیقت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول تھے۔ آپ کی خداداد صلاحیتوں اور بشری طاقتوں کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ آپ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور پہلو اسوۃ حسنہ ہے۔ قرآم مجید آپ کی ذات و صفات کا عکاس ہے۔ یعنی آپ کو اگر دیکھنا ہو تو قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تا قیامت جاری رہے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب قرآن مجید کا حکم تا قیامت نافذ رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم و معارف تا قیامت روز افزوں رہیں گے۔ علمائے کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم شریعت کے اور صوفیہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم روحانیت کے وارث ہیں۔ چنانچہ صوفیہ کرام نے قرآن و سنت سے تصوف کے اشارات اخذ کیے ہیں۔

عبادات و مجاھدہ
آپ ﷺ کو استعداد عبادت اور مجاہدے کی غیر معمولی قوت و دیعت کی گئی تھی تا کہ حامل قرآن ہونے کی حیثیت سے آپ ﷺ اپنے فرائض بدرجہ کمال سر انجام دے سکیں۔ سورہ مزمل میں اللہ تعالی کے رسول ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا:
یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّل ُقُمِ اللَّیْلَ إِلَّا قَلِیلًا نِّصْفَہُ أَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِیلًا أَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا إِنَّا سَنُلْقِی عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیلًا إِنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْلِ ہِیَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِیلًا إِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیلًا وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ إِلَیْہِ تَبْتِیلًا رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیلًا وَاصْبِرْ عَلَی مَا یَقُولُونَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیلًا
اے کملی کی جھرمٹ والے (حبیب!)آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لئے)،آدھی رات یا اِس سے تھوڑا کم کر دیںیا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریںہم عنقریب آپ پر ایک بھاری فرمان نازل کریں گے۔بے شک رات کا اُٹھنا (نفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل و دِماغ کی یک سُوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہے۔بے شک آپ کے لئے دن میں بہت سی مصروفیات ہوتی ہیں۔اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیںوہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، سو اُسی کو (اپنا) کارساز بنا لیںاور آپ ان (باتوں) پر صبر کریں جو کچھ وہ (کفار) کہتے ہیں، اور نہایت خوبصورتی کے ساتھ ان سے کنارہ کش ہو جائیں
قرآن حکیم میں آپ ﷺ کے لئے قیام الیل کا حکم، آپ ﷺ کی تہجد گزاری کا دائمی عمل، راتوں میں اللہ تعالی کے حضور طویل قیام، رکوع اور سجود کی روایات اولیاء اللہ کو مجاہدوں اور شب بیداری کی طرف مائل کرتی ہیں۔ غار حرا میں آپ ﷺ کا اعلان نبوت سے قبل ماہ رمضان میں کچھ عرصے کے لئے خلق خدا سے کنارہ کش ہو جانا صوفیہ کے لیے مجاہدہ کی دلیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی کثرت عبادت کے متعلق ایک حدیث حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے یہاں تک کہ دونوں پاؤں یا دونوں پنڈلیاں پھول جاتی تھیں۔ اس کے متعلق آپ ﷺ سے کہا جاتا کہ آپ ﷺ اتنی تکلیف کیوں کرتے ہیں؟تو آپ ﷺ فرماتے کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنو۔
اللہ تعالی کی توجہ اور التفات حاصل کرنیکے لئے طویل قیام اور سجود کے متعلق قرآن حکیم میں بھی کئی اشارے موجود ہیں۔ مثلا عبا دا لرحمان کی ایک خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے:
وَالَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَقِیَامًا
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لئے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں (الفرقان: 64)
اگر کوئی یہ تصور کرے کہ وہ تصوف میںاعلی مقام حاصل کر سکتا ہے اللہ اور اس کی رسول ﷺ کی محبت کے بغیر ، تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ صوفیاء کرام کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے۔ اس کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ایک بزرگ یحیی بن معاذ فرما تے ہیں
ــــ محبت کا ایک ذرہ مجھے ستر سال محبت کے بغیر عبادت سے زیادہ محبوب ہے
حضرت ذنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اللہ سے محبت کرنے والے ہی اللہ کے پاس دنیا و آخرت کے شرف کے ساتھ گئے کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا آدمی اسی کے ساتھ ہوتاہے جس کیساتھ وہ محبت کرتا ہے ، سو وہ اللہ کے ساتھ ہیں ۔
حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
محبت کا نام محبت اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ انسان کے دل سے اللہ کے سوا ہر چیز کو مٹا دیتی ہے۔
حضرت جنید بغدادی سے محب کے اوصاف کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا
محب لوگوں سے میل جول کم رکھتا ہے ، ہمیشہ غوروفکر کرتاہے ، زیادہ خلوت نشین رہتاہے ، ظاہرا خاموش رہتاہے ، جب کسی نا محرم پر نظر پڑتی ہے تو اصرار نہیں کرتا، جب اسے کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ غمگین نہیں ہوتا، دوسرے کی تکلیف پر وہ خوش نہیں ہوتا، نہ وہ چاہتاہے ، نہ وہ متوجہ ہو تاہے اور نہ اسے شعور ہوتاہے ۔ بیمار ہوتا ہے تو محسوس نہیں ہوتا، وہ اپنی خلوت میں اللہ کو دیکھتاہے اس سے محبت کرتاہے ، اس سے کھل کر اور چھپ چھپ کر مناجات کرتاہے ، وہ دنیا والوں سے ان کے دنیوی معاملات میں جھگڑتانہیں ہے، وہ امید کی محرومی سے ڈرتا رہتاہے اور مطلوب کے گم ہونے سے خوف کھاتا رہتاہے ، اس کی عقل اللہ کی قدرت کا مطالعہ کر کے تحیر ہوتی ہے، وہ کسی مرض کے بغیر پگھلتاہے اور درد کے بغیر ٹوٹتاہے، وہ کم سوتا ہے ، کم کھاتا ہے ، اور غمگین رہتاہے۔ محب کی الگ حالت ہوتی ہے ، اس کی اپنی ایک شان ہے ، جب وہ خلوت میں ہوتاہے تو اللہ سے ٹوٹ کر محبت کرتاہے جب تنہا ہوتاہے تو روتاہے ، سو ٹوٹ کر محبت کرنا اس کا مشغلہ اور رونا اس کا اثر ہے ۔ا سکے لئے شراب محبت کے ایسے پیالے پینے کے لئے ہیں جس کی وجہ سے وہ تمام بندوں سے وحشت محسوس کرتا ہیــــ۔
صوفیاء کے عمل میںاستقامت کی بڑی ااہمیت ہے ۔ صوفیاء نے ہمیشہ ذکر ، شکر، توکل ، رضاکے دامن کو مضبوطی سے تھامااور فکر آخرت کو ہر لمحہ اپنے سامنا رکھا پھر جا کر اس مقام پر پہنچے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا
لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون
ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالی کے خاص بندوں کی فہرست میں شامل ہو ں جن کے شان و عظمت بیان ہوئی ہے