dr mujahid mansoori 194

ترقی کی روشنی اور نئے سیکورٹی چیلنجز.ڈاکٹرمجاہدمنصور

دنیا بھر میں حکومتوں، امن اور بنیادی انسانی حقوق سے متعلقہ عالمی اداروں، علاقائی تنظیموں اور سفارتی حلقوں میں اب یہ حقیقت مکمل عیاں ہے کہ پاکستان نے نائن الیون کے تناظر میں نہ صرف اپنی سکت اور سیکورٹی پوزیشن کے برعکس نیٹو کی ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں سب سے زیادہ اور نتیجہ خیز تعاون کیا بلکہ بطور فرنٹ لائن (اور نان نیٹو پارٹنر) ناقابلِ فراموش جانی و مالی اور جملہ نوعیت کی قربانیاں دیں۔ اس کا بنیادی ڈیٹا تو ہمارا مستقل سفارتی و سیاسی بیانیہ بن ہی چکا ہے۔ اس سے ہٹ کر ہمارے حساس مقامات ہی نہیں اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں حتیٰ کہ علاج و معالجہ کے مراکز اور خالصتاً سول سروسز کے عام اداروں کی عمارتوں کے چاروں جانب کھڑی کی گئی دیواریں اور ان پر بھی خار دار آہنی تاروں کی حفاظتی تنصیب کا بوجھل منظر آج بھی پاکستان پر 20سالہ ریاستی و غیرریاستی اور ’’اتحادی‘‘ دہشت گردی کی داستان سنا رہا ہے۔ سیکورٹی اہل کاروں کی ایک ملک گیر فوج اس کے علاوہ ہےجو پُرامن حالات میں غیر مطلوب ہے، بدستور موجود ہے۔ بم دھماکوں اور دہشت گردوں کی فائرنگ سے معذور ہوئے لاکھوں بےگناہ شہری اور سابق سیکورٹی اہلکار، بیوائیں اور یتیم اس امر کا واضح اور زندہ ثبوت ہیں کہ ہمارا پُرامن وطن سولہ، اٹھارہ برس کیسی اور کتنی دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ اس کے پاکستانی معاشرے پر پڑنے والے انسانی، اقتصادی و سیاسی اثرات کے اصل اور اذیت ناک حقائق معلوم کرنے کے لئے تو الگ سے قومی سطح کے ایک تحقیقاتی ادارے یا ’’یونیورسٹی آف پیس اینڈ اسٹیبلٹی‘‘ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ تو دہشت گردی کے خلاف بقول چینی صدر جناب شی چنگ پنگ ’’چھوٹے ملکوں‘‘ کی شروع کی گئی ’’وار آن ٹیرر‘‘ (جس کا میدانِ کار زار افغانستان اور پاکستان کو بنایا گیا) اور اس کی آڑ میں گریٹ گیم کا ایک پہلو ہے۔ ہر دو ملکوں کی پُرامن زندگی اور سیاسی و اقتصادی عمل پر اس کے کتنے اور کیسے اثرات پڑے؟ یہ ایک کھلی اور مکمل ثابت شدہ کہانی ہے۔ اب پاکستان کو اپنے غیرضروری دفاع، ابلاغ اور جوابی وضاحتوں کو ترک کرکے نئی پوزیشن لینے کی ضرورت ہے۔ جنگ شروع کرنے والوں کی ’’کمائی‘‘ کے تجزیے خود ان کے اپنے ممالک میں ہو رہے ہیں۔ ہمیں اس پر بھی زیادہ ابلاغ کی ضرورت نہیں۔ انہیں اگر ہماری اور اپنی مالی، نفسیاتی اور امیج کی تباہی کے بعد ہوش نہیں آ رہا تو ہمیں انہیں ہوش دلانے پر محنت کی کیا پڑی۔ ان کے تھِنک ٹینکس، ان کی سلامتی کی چوٹی کی مشاورت اور دفاعی اداروں کی چالبازیاں کیا کرتی رہیں؟ کیا حاصل کیا؟

اب کیا کر رہی ہیں اور کیا منصوبہ بندیاں کی جا رہی ہیں؟ ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی افغانستان اور پاکستان میں ہونے والی جانی، مالی، اور جملہ تباہی کے متوازی افغانستان میں موجود ’’سرگرم سازشی جنگجوئوں‘‘ کی اپنی اقتصادیات، عسکری صلاحیت اور امیج کی تباہی کے بعد ان کا ہماری جانب رویہ اور ایکشن کیا ہیں؟ ہماری مطلوب پوزیشن کو ڈیزائن کرنے کا فوکس فقط اسی حوالے سے ہونا چاہئے۔ جہاں تک پاکستان کی اپنی عسکری و سفارتی صلاحیت، قومی قوتِ مدافعت اور افغان عوام کی مزاحمت کی صلاحیت کا معاملہ ہے،وہ اب سب ٹیسٹڈ ہے۔ ہم اور ہماری نئی پوزیشن ’’جنگ نہیں امن کے لئے تعاون، اشتراک‘‘ اور وزیراعظم عمران کے شہرہ آفاق بنتے ABSOLUTELY NOTنیرٹیو، اب فقط بیانیہ نہیں یہ پوزیشن اور یہ بیانیہ اب فقط سفارتی ابلاغ اور ضروریات تک محدود نہیں، ہم اس کے اصل عزائم اور مقاصد ’’عوامی ترقی وخوشحالی، ملکی استحکام اور یقینی سلامتی‘‘ کے حوالے سے بھی بہت واضح، قابل عمل اور ساتھ ساتھ نتائج دینے والی پوزیشن پہلے ہی لے چکے ہیں جس کے بعد پاکستان میں ترقی کی روشنی اپنے واضح امکانات کے ساتھ بڑھتی اور دور دراز تک پھیلتی جارہی ہے ۔ پاکستان کو اب عالمی مالی اداروں کا روپ دھارے پریشر ٹولزم، ثابت شدہ نام نہاد چوہدریوں، برادرانِ یوسف نما ملکوں کے پریشر سے آزاد ہو جانا چاہئے۔ اللہ تبارک تعالیٰ کی عنایات سے اسکا اہتمام ’’تابناک پاکستان‘‘ کے خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کےسازگار حالات پیدا ہونے کی صورت میں روز روشن کی طرح عیاں ہے، ہم نے اپنی آنکھیں کھول کر رکھنی ہیں۔ پاکستان کے مملکت خدا داد ہونے اور اس پر قادر مطلق کے فضل و کرم شروع ہونے، جاری و ساری فضل و کرم کا بڑا ثبوت عالمی اقتصادی، سیاسی امور کی شہرہ آفاق پبلی کیشن ’’اکانومسٹ‘‘ کی اپنی درجہ بندی کےمطابق پاکستان کا شمار کورونا وبا سے سب سے زیادہ محفوظ رہنے والے تین ملکوںنیوزی لینڈ اور ہانگ کانگ کے بعد تیسرے نمبر پر ہوتا ہے لیکن ہانگ کانگ کو ہم، دنیا اور نہ ہی اقوامِ متحدہ الگ ملک مانتا ہے، یہ تو عوامی جمہوریہ چین کی ریاستی حدود کا لازمی اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ حصہ ہے۔ نیوزی لینڈ، جغرافیائی لحاظ سے الگ تھلگ، لاہور کی نصف آبادی سے بھی کم ڈیموگرافی کا حامل ملک ہے۔ اعداد و شمار میں ’’اکانومسٹ‘‘ کے مکمل اعتبار کی شہرت اور نیوزی لینڈ اور ہانگ کانگ کی اصل حقیقت کو پیش نظر رکھ کر جان لیوا عالمی وبا میں پاکستان پر قدرت کے فضل و کرم (ہمارے اپنے مجموعی قومی اعمال کے باوجود) کا ذرا جائزہ لیں،غور کریں تو پاکستان کو اس کے یکطرفہ وار آن ٹیرر میں اختیار کئے انتہا کے مثبت رویے، بہ شکل قومی صبر جمیل اور استقامت کے نکلتے مثبت نتائج، بڑھتی پھیلتی ترقی کی روشنی اور بنتے عالمی امیج کا پھل مل رہا ہے۔ جھوٹوں اور شریروں کا خسارہ بھی اس کے مقابل واضح ہے۔ لیکن سیکورٹی کے نئے چیلنجز کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے اور بمطابق ایکشن اب ہماری ایک مستقل اولین قومی ضرورت بن گئی۔ اسی توجہ سے ہماری ترقی جڑ گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں