278

بنام خدا، بنام رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) تین مصوم جانیں مزید لی جائیں گی؟ تین مزید مسلمانوں کو ناحق قتل کیا جائے گا؟

بنام خدا، بنام رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) تین مصوم جانیں مزید لی جائیں گی؟ تین مزید مسلمانوں کو ناحق قتل کیا جائے گا؟
۔
جب تک بندے کے اوپر کوئی مصیبت نا آجائے اس کا ادراک کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے. ہم نے بس سوشل میڈیا پہ دیکھا ہے کہ اپنے سیاسی مفادات یا ایسی ہی کسی اور وجہ سے لوگوں پر توہینِ رسالت کا الزام لگادیا جاتا ہے. لوگوں کو قتل تک کردیا جاتا ہے. کوہاٹ میں تبلیغی جماعت کے دو لوگوں کو توہینِ رسالت کے الزام میں ٹی ایل پی سے متعلق لوگوں نے قتل کیا، احسن اقبال کو گولی ماری گئی، بہاولپور میں پروفیسر کو قتل کیا گیا، خوشاب میں بینک مینجر کو قتل کیا گیا. پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر کو، جو خود بھی ختم نبوت تحریک کا کارکن تھا اس کو قتل کیا گیا. اٹک کی اسسٹنٹ کمشنر کا گھیراؤ کیا گیا، اس نے ختم نبوت ریلی نکال کے جان بچائی.
۔
اکثر لوگوں کو پتہ نہیں ہوگا مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلاسفیمی کے نوے فیصد مقدمے مسلمانوں پر ہی کیے گئے ہیں. حیرانی ہوتی ہے کہ کیا پورا پاکستان ہی گستاخ ہوگیا ہے؟ یا ناموسِ رسالت جیسا مقدس مشن چند اجڈ اور جنونی زومبیوں کے ہاتھ دے دیا گیا ہے. عمران خان کو ہی دیکھ لیں، جو بندہ دنیا کے ہر فورم پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا دفاع کرتا ہے، ان جاہلوں کے نزدیک وہ بھی گستاخ ہے. سمجھ نہیں آتی بندہ کدھر جائے.
.
تازہ ترین قصہ یہ ہے کہ خالد اسماعیل، جو میرے دوست اور یونیورسٹی کے سینئر ابراہیم بھائی کے ماموں ہیں اور کھوئی رٹہ آزاد کشمیر میں رہتے ہیں. ان پر توہینِ رسالت کا الزام لگادیا گیا ہے. الزام کی نوعیت بھی سن لیں. ان کی دکان پر نعوذ باللہ، نقل کفر، کفر نباشد، کسی نے رات کو “گو محمد گو” لکھ دیا (صلی اللہ علیہ وسلم). اللہ مجھے معاف کرے میں یہ الفاظ ہرگز نقل نہیں کرنا چاہتا تھا، مگر صرف اس لیے نقل یے ہیں تاکہ ہر بندہ سوچے کہ کیا کوئی ایسا لکھنے کا سوچ بھی سکتا ہے؟ اور وہ بھی اپنی ہی دکان کے باہر؟ اور وہ بھی ایسا آدمی جو باریش ہو اور نمازی بھی ہو. مسئلہ اتنا تھا کہ انہوں نے وہاں کسی بندے سے پانچ لاکھ روپے لینے تھے، اس پر لڑائی ہوگئی تو اس بندے نے دھمکی لگائی کہ تمہیں دیکھ لوں گا. اس کے علاوہ خالد صاحب نے ایک کمیٹی بھی ڈالی ہوئی تھی جس کی مالیت لاکھوں میں ہے اسکی بھی ادائگی کا بھی وقت آگیا تھا. اس کے بعد یہ الزام لگ گیا.
.
پولیس ان کو اور ان کے دو نوجوان بیٹوں کو اٹھا کر لے گئی ہے. اب چونکہ وہ مزہبی آدمی تھے، اور وہاں کہ مزہبی میں حلقوں میں ان کی جان پہچان بھی تھی، لہذا جماعت اسلامی اور جمیعت اھل حدیث والوں نے کہا بھی ہے کہ بھائی یہ جھوٹا الزام ہے، مگر ٹی ایل پی والوں نے کہا ہے کہ اس گستاخ کو لٹکاؤ فوراً. اب تک ٹی ایل پی والے دو پریس کانفرنس کر چکے ہیں اور وکیلوں کو بھی دھمکی لگا رہے ہیں کہ اس کیس سے دور رہو.
.
عجیب دکھ اور کرب کی کیفیت ہے. ایک بندے کا کاروبار تباہ ہوگیا، بچے تک جیل چلے گئے. اب ان کو اس کی جان بھی چاہیے جبکہ الزام بھی سراسر جھوٹ اور لغو ہے. خواتین بے اماں ہیں اور گھر کے تینوں مرد قاتلوں کے نشانے پر ہیں.
تمام دوستوں سے اپیل ہے کہ اس پر آواز اٹھائیں، جیسا الزام لگایا گیا ہے، ایسی گستاخی کا کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا. کسی دوست کے پاس ٹی ایل پی کے کسی سینیئر لیڈر کا رابطہ ہو تو ضرور بتائے، تاکہ ان کا منت ترلا کر لیں، شاید اس سے مسئلہ حل ہوجائے.
۔
آج سے پہلے سنا تھا کہ لوگ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں. آج دیکھا ہے تو بہت افسوس ہوا. بہت مایوسی ہوئی ہے. پہلی بار خوف قریب سے محسوس ہورہا ہے. پہلی بار ان لوگوں کی باتیں ٹھیک لگ رہی ہیں جو کہتے ہیں کہ پاکستان رہنے کے لائق نہیں، یہاں سے نکلنا بھی ہجرت ہی ہے.
۔
آخری گزارش یہ ہے کہ آئندہ کبھی بھی ایسا موقع آئے تو برائے کرم ماب مینٹیلٹی کا شکار مت ہوئیے گا. کسی بھی جنونی کو سپورٹ مت کیجیے گا، شاید یہ ملک کچھ رہنے لائق ہو جائے.”

اپنا تبصرہ بھیجیں