Skip to content

بلاد عرب میں درحقیقت ہو کیا رہا ہے؟ حیدر جاوید سید

بلاد عرب میں درحقیقت ہو کیا رہا ہے؟

حیدر جاوید سید

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کار کے آغاز کے بعد ہمارے یہاں شروع ہونے والی بحث میں زمینی حقائق’ تاریخ اور سامنے دیوار پر لکھے مستقبل سے زیادہ جذباتیت کارفرما ہے۔
معاملات یہاں تک کیسے پہنچے ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا ہم کامل سنجیدگی کیساتھ دو اہم باتیں مدنظر رکھ کر مکالمہ اُٹھا سکتے ہیں؟
اولاً 9/11 کے بعد تشکیل پانے والے اس عالمی منظرنامے کے حوالے سے جس میں امریکہ دنیا کی سپریم طاقت بن کر عرب سے ایشیاء تک کشتوں کے پشتے لگاتا چلا گیا۔
ثانیاً 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ جو اصل میں حزب اللہ اسرائیل جنگ ہے’
ساعت بھر کیلئے رک کر ایک سوال پر غور کیجئے۔
2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ میں مشرق وسطیٰ کی بعداز اسرائیلی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ کسی ملک نے اسرائیل سے اپنے مقبوضہ علاقہ کو آزاد کروا دیا ہو۔
یاد کیجئے جنوبی لبنان پر اسرائیلی تسلط کا عرصہ اور پھر 2006ء میں اسرائیل کا جنوبی لبنان سے انخلاء
اس کیساتھ ہی یہ بھی یاد کیجئے کہ اسرائیل کے جنوبی لبنان سے انخلاء کے بعد بلاد عرب کے لوگوں میں اپنے حکمرانوں کیخلاف ایک لہر پیدا ہوئی، لوگ سوال کرنے لگے کہ اگر حزب اللہ لبنان’ جنوبی لبنان سے اسرائیل کو نکلنے پر مجبور کرسکتی ہے تو عرب حکومتیں اپنے اپنے مقبوضہ علاقوں کو واپس لینے کیلئے اقدامات کیوں نہیں اُٹھاتیں؟

یادداشت کا مزید امتحان لیجئے، آپ کو یاد آئے گا کہ اسرائیل کیخلاف حزب اللہ کی کامیابی کے بعد عرب لیگ کا ایک اجلاس ہوا تھا جس میں لبنان وحزب اللہ کی تحسین کی بجائے اس کیخلاف قرارداد منظور ہوئی تھی۔
معاف کیجئے گا ذہن کو مزید نہ تھکائیں کیونکہ ہم بھی ان مجرموں میں شامل ہیں جنہوں نے حزب اللہ کی صورت میں لبنانیوں کی قومی مزاحمت اور اسرائیل کیخلاف تاریخ ساز کامیابی کو فرقہ وارانہ تعصب کی عینک سے دیکھا تھا

عجیب لوگ ہیں ہم حزب اللہ کی قیادت چونکہ شیعہ ہے (اکثریت شیعہ ہے لیکن حزب اللہ میں صوفی سنی بھی ہیں اور لبنانی مسیحی بھی) اس لئے ہمیں عرب لیگ کی قرارداد اپنے اپنے مسلک کے قریب ہی تو لگی تھی۔
لبنان یا حزب اللہ اسرائیل جنگ کے دوران حزب اللہ کا اعلانیہ مددگار شام تھا۔ غیراعلانیہ طور پر کچھ مدد سوڈان نے کی اورکچھ عراق کی بعض تنظیموں نے (ایران کا کردار بھی تھا لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے)۔
اب غور کیجئے کہ شام میں حکومت کیخلاف پہلی مسلح تنظیم جہادالاکبر دسمبر2006ء میں قائم ہوئی، اگلے برس مجاہدین الاسلامی میدان میں اُترے، شامی حکومت نے دستاویزاتی ثبوتوں کیساتھ دونوں تنظیموں کے پیچھے اسرائیل سمیت کچھ مقامی کردار بے نقاب کئے،
اسی دوران لبنان میں شام کیخلاف احتجاجی لہر منظم کروائی گئی اس احتجاج کی ڈوریں بظاہر امریکہ ہلا رہا تھا لیکن مالی معاونت مقامی قوتیں کر رہی تھیں۔
شام جو حزب اللہ اسرائیل جنگ کے دوران لبنان کا دست وبازو تھا راتوں رات ولن بن گیا۔
شام کا ایک جرم یہ تھا کہ اس نے حزب اللہ سے تعاون کیا دوسرا جرم امریکہ اور اسرائیل کے دباؤ کے باوجود فلسطینی حماس کی سیاسی قیادت کو خالد مشعل سمیت اپنے ہاں پناہ دئیے رکھی۔
2010ء کے بعد ایک نیا منظرنامہ بنا، شامی حکومت کیخلاف النصرہ فرنٹ معرض وجود میں آیا، امریکہ اسرائیل اور مقامی قوتیں فوراً اس کی پشت بان ہوگئیں۔
اگلے مرحلہ پر دولت اسلامیہ شام وعراق بنی جو داعش کے نام سے معروف ہوئی خطے میں نیا کھیل شروع ہوگیا۔ اسرائیل نے النصرہ اور داعش کے جنگجوؤں کیلئے تین موبائل ہسپتال مقبوضہ گولان وادی میں پہنچا دئیے، داعش والے کون تھے کیسے منظم ہوئے کہاں تربیت پائی اور کہاں سے وہ تین سو نئی نویلی گاڑیوں کے قافلہ میں نمودار ہو کر شام اور عراق میں بعض علاقوں پر قابض ہوگئے
اس ابتدائی مرحلہ میں تکریت عراق کے سرکاری بنک سے 30 کروڑ ڈالر بھی داعش کے ہاتھ لگے تھے۔

داعش کے جنگجو عراق اور شام میں انسانی تاریخ کے گھناؤنے جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے رہے اور یہاں ہم کہتے لکھتے بولتے رہے کہ داعش کا جہاد عراق وشام کی شیعہ قوتوں کیخلاف ہے۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کے عزائم کو سمجھنے کی بجائے ہم شیعہ سنی چورن بیچتے اور پھانکتے رہے۔ 5 سے 6 سال کے دوران داعش نے شام کی مزاحمتی قوت کا بھرکس نکال دیا۔
روس’ چین اور ایران شام کی مدد کو پہنچے اورحزب اللہ بھی،
اس طور پر النصرہ فرنٹ اور داعش کو شکست ہوئی۔
کیا ہم ترکی میں قائم داعش کے لانچنگ پیڈ کو بھول گئے؟ معاف کیجئے گا ہم خطوں کی سیاست اور معاملات کو اپنے شعور کی روشنی میں سمجھنے کی بجائے فرقہ واریت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔
آج صورتحال یہ ہے کہ اگر روس چین اور ایران شام کیساتھ نہ کھڑے ہوں تو امریکہ اسرائیل اسے کچا چبا جائیں، کسر ہمارا خلیفہ اردگان بھی بلکل نہ چھوڑے،
اب سمجھنے کی کوشش کیجئے!
عراق صدام حسین کی حماقتوں سے برباد ہوا’ شام آج بھی بحران سے دوچار ہے’ لبنان میں حزب اللہ کی قومی مزاحمت کو شیعہ رنگ میں پیش کرنے والے اپنا راگ الاپ رہے ہیں’ مصر کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں، اردن اور کویت پچھلے دو سال سے درون خانہ رابطوں میں ہیں، بحرین کے اسرائیل سے سفارتی مراسم ہیں۔
کسی کو یاد ہے کہ اسرائیل کے قیام پر سب سے پہلے کس مسلم ملک نے اس سے سفارتی تعلقات قائم کئے؟
جواب ہے ترکی، 1960ء میں ایران نے اسرائیل سے تعلقات استوار کئے، 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد یہ تعقات ختم ہوگئے
تب سے اب تک دونوں خطے کی سیاست میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔
اب خطے میں نئی صف بندی ہو رہی ہے، متحدہ عرب امارات اسرائیل کے کیمپ میں چلا گیا، سوڈان نے اسرائیل سے سیاسی معاہدے کا عندیہ دیا ہے، کویت اور اردن بیک ڈور ڈپلومیسی میں مصروف ہیں، عراق خستہ حال ہے،
دنیا میں معاشی مفادات پر نئی صف بندی میں روس’ چین اور ایران ایک طرف ہیں، امریکہ بھارت اور اسرائیل دوسری طرف۔
اس کیمپ کے کچھ امریکی اتحادی صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، کچھ کا موڈ متحدہ عرب امارات جیسا ہے۔
دنیا کے دو اہم خطوں میں سے اسرائیل عرب دنیا میں امریکی تھانیدار اور بھارت ایشیاء میں یہی کردار ادا کرے گا۔
یہاں بدقسمت پاکستانی ہیں جو کچھ سوچنے سمجھنے کو تیار نہیں اور نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے والے ہیں۔

جمعرات 20 اگست 2020 ء
روزنامہ مشرق پشاور