203

بس اتنی سی کہانی ہے…اعزاز سید

18 اگست 2018 کو عمران خان کی بطور وزیر اعظم تقریبِ حلف برداری میں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ اور بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے درمیان ایوان صدر میں تاریخی معانقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن عمل کے لئے تو خوشگوارتھا ہی مگر یہ بھارت میں مقیم سکھ برادری کے لئے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔

دنیا کو اس معانقے کے بعد نوجوت سنگھ سدھو کے ذریعے ہی پتہ چلا کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سکھ برادری کے پہلے گورو باباگورونانک کا گردوارہ بھارت کے سکھ یاتریوں کے لئے کھولنا چاہتے ہیں۔ یہ گردوارہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سیالکوٹ کے نزدیک کرتارپور کے مقام پر بابا گرونانک نے 1504 میں تعمیر کیا تھا۔

پاکستانی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی طرف سے یہ پیشکش دراصل پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل بات چیت کے تناظر میں کی گئی تھی جس کی تفصیلات ابھی کسی کو دستیاب تو نہیں لیکن شاید کچھ عرصہ میں وہ بھی سامنے آجائیں گی۔

بہرحال دونوں ملکوں کے لئے یہ ایک اچھا منصوبہ ہےمگر ایسا نہیں کہ یہ منصوبہ آسمان سے اترا اور آنکھ جھپکتے ہی سب کچھ ہو گیا۔ دراصل اس منصوبے کی بازگشت سال 2013 میں پہلی بار سنی گئی تھی۔ اس وقت مقامی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی فنڈنگ بھی منظور کروالی گئی تھی۔

اس حوالے سےدسمبر2015 میں ورلڈ بینک کی جانب سے کرتارپورسمیت پاکستان میں سکھ یاتریوں کے مذہبی مقامات کھول کر سیاحت کو فروغ دینے کے لئے 50 ملین ڈالر کے قرض کی منظوری بھی دی گئی تھی۔ طے پایا تھا کہ منصوبے پر کل 5 اعشاریہ 775 ارب روپے کی لاگت میں سے 91 فیصد ورلڈ بینک قرض کی مد میں ادا کرے گا جبکہ باقی 9 فیصد رقم پنجاب حکومت دے گی۔

منصوبے کو قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی یا ایکنک سے منظور کروا کے اس کی منظوری مرکزی ترقیاتی ورکنگ پروگرام سے لے کرتمام ضابطے پورے کرتے ہوئے اسے آگے بڑھایا گیا مگر اچانک منصوبے پر پیشرفت بند ہوگئی۔

اس وقت کے وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس منصوبے کے تناظرمیں کرتارپورکے ہی ایک مقامی سکھ سرداررمیش سنگھ کو ممبرپنجاب اسمبلی بھی بنوایا تھا۔

احسن اقبال کا کہنا تھا ہم منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھا رہے تھے کہ مجھے ایک سیکورٹی ادارے کے افسر نے ملاقات کرکے کہا کہ آپ اس منصوبےکا پیچھا کیوں کررہے ہیں یہ ملکی سلامتی کے خلاف ہے اس کے بعد یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔

لیگی حکومت کے خاتمے اورعام انتخابات کےبعد عمران خان کی تقریب حلف برداری میں آرمی چیف اور نوجوت سنگھ کی جپھی کیا لگی گویا ردی کی ٹوکری میں پھینکا گیا کرتارپورمنصوبہ دوبارہ زندہ ہوگیا۔

مقامی سول انتظامیہ اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے کم و بیش ایک سال کی مدت میں 8 سو75 ایکٹرکا رقبہ حاصل کیا جس کے 105 ایکٹررقبے پر گردوارے کی خوبصورت عمارت تعمیر کی گئی جس میں میوزیم ، لنگر خانہ ، ڈسپنسری اور دیگر سہولیات موجود ہیں۔

جلد تعمیر مکمل کرنے کا ہدف حاصل کرنے کے لئے کام کی تعمیر کے دوران ٹھیکے دیتے ہوئے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس مجریہ 2002 کی شرائط کوملحوظ خاطر نہ رکھا گیا۔

ان شرائط کے مطابق کوئی بھی ٹھیکہ دینے کے لئے شفافیت کو یقینی بنانا اور اس کام کے لئے اشتہار دے کر دلچسپی لینے والی تمام کمپنیوں کو برابر کے مواقع دینا ضروری ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس منصوبے پر کم و بیش 7 سے 8 ارب روپے کی لاگت آئی ہے مگر لاگت کی اصل رقم کا کسی کو علم نہیں۔ اس معاملے پر چونکہکسی سے سرکاری سطح پر منظوری نہیں لی گئی تھی۔

اس لئے پاکستان پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی اس پرقانونی اعتراض اٹھا سکتی ہے لیکن اس قانونی اعتراض سے بچنے کے لئے وزارت مذہبی امور نے وفاقی کابینہ کو پچھلے دنوں ایک سمری ارسال کی ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ کرتارپورمنصوبے کو پاکستان پبلک پروکیورمنٹ آرڈیننس کی شرائط سے استثنیٰ دیا جائے۔

اس منصوبے کا افتتاح وزیراعظم عمران خان نے نومبر2019 میں کیا تھا اب کرتارپور پر سکھ یاتریوں کی آمدورفت جاری ہے جبکہ اس منصوبے کے تحت مختلف کام بھی بانٹ لئے گئے ہیں۔

پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی کے سابق جنرل سیکرٹری اور رکن پنجاب اسمبلی سرداررمیش سنگھ کے مطابق گردوارے کے اندر سکھ یاتریوں کا استقبال، ان کی عبادات اور ان کو سہولیات کی فراہمی پربندھک کمیٹی اور متروکہ وقف املاک کے ذمے ہے جبکہ سیکورٹی کا کام رینجرز اور گردوارہ کی دیکھ بھال کا کام ایک کمپنی کی ذمہ داری ہے۔

ویسے یہ بات بھی کسی اتفاق سے کم نہیں کہ اسی علاقے میں نارووال اسپورٹس کمپلیکس تمام قواعد وضوابط پر عمل کر کے تعمیر کیاگیا مگر اس سب کے باوجود احسن اقبال پر نیب نے ریفرنس بنا دیا اور اسی علاقے میں ایک دوسرے منصوبے کرتارپور پر بالکل ہی الگ انداز اپنایا گیا ہے۔

کرتارپورمنصوبے کے ٹھیکوں اور اخراجات وغیرہ پر پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قواعد سے استثنیٰ دینے کا فیصلہ بہرحال کابینہ کرے گی لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگریہ منصوبہ کسی سیاسی حکومت کے فیصلے کی روشنی میں تیار ہوتا تو کیا ملک میں احتساب اورلوٹ کھسوٹ کی رقوم واپس لانے کا دعویدار قومی احتساب بیورو اس منصوبے پر بدعنوانی کا کوئی کیس کھولنے سے باز آتا؟ پاکستان میں انصاف اور احتساب کی بس اتنی سی کہانی ہے کہ زور آور کو چھیڑا نہیں جاتا اور کمزور کو چھوڑا نہیں جاتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں