132

ایران سعودی عرب معاہدہ کےخطے پراثرات

ایران سعودی عرب معاہدہ کےخطے پراثرات
ایران خطے کا ایک طاقتور ملک ہے جو بڑی دلیری سے امریکہ اور مغرب کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کا مقابلہ کر رہا ہے ۔ کسی بھی موقع پر اس نے بزدلی دکھاکر امریکہ اور سامراجی قوتوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ۔ اسی طرح سعودی عرب بھی عرب دنیا کا ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کا ایک اہم ملک ہے ۔ عرب دنیا کے تمام ممالک اسکی عزت کرتے ہیں اور اسی کی ہر بات ماننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سعودی عرب نے بہت سے موقعوں پر امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا کر عرب و عجم میں اپنی اہمیت کو کم کیا ہے مگر محمد بن سلیمانی کے ولی عہد بننے کے بعد صورت حال نے قدرے دوسری طرف کروٹ لی ہے۔ سعودی عرب کو امریکہ کا ساتھ دینے پر اسلامی ممالک کی عوا م پسند نہیں کرتی تا ہم حرمین شریفین کی وجہ سے ابھی بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔دنیائے اسلام میں سعودی عرب اور ایران دو ایسے ممالک ہیں جو دوستی اور دشمنی میں مخالف سمتیں رکھتے ہیں ۔ خصوصا انقلاب اسلامی ایران کے بعد یہ مخاصمت اور مخالفت بہت حد تک دشمنی میں تبدیل ہو گئی۔ اس مخالفت کا عروج اس وقت ہمارے سامنے آیا جب سعودی عرب نے 2 جنوری 2016کو اپنے ایک شہری اور مکتب تشیع کے نامور عالم دین جناب شیخ نمر باقر النمر کا سر قلم کر دیا تھا۔ شیخ نمر کی سزا پر پوری دنیائے اسلام میں احتجاج ہوا ۔ یہ احتجاج بہت ہی بھر پور تھا جسکا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سعودی عرب کا مشرقی صوبہ قطیف جوشیخ النمر کا آبائی صوبہ ہے وہاں شیخ النمر کے آبائی شہر العوامیہ سے لیکر قطیف تک بہت سخت احتجاجی مارچ ہوا جس میں آل سعود کے خلاف شدید نعرہ بازی کی گئی ۔ پورے مارچ کی زبان پر “Down with Aal Saud” کا نعر ہ تھا ۔ 2جنوری کو ہی جہاں اکثر اسلامی ممالک میں سعودی عرب کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگ رہے تھے وہاں ایرانی عوام ایران کے دار الحکومت تہران میں سعودی سفارت کے سامنے جمع ہوئے ۔ مظاہرین نے بلڈنگ پر تیل چھڑک کر اسکو آگ لگا دی ۔ ایرانی حکومت نے مظاہرین کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ناکام ہوئے ۔سعودی عرب نے اپنے سفارت خانے کو بند کرنے اور ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کر دیا ۔مسلسل سات سال کے سفارتی تعطل کے بعد 10 مارچ 2023کو چین کے شہر بیجنگ میں عوامی جمہوریہ چین کی سفارتی کوششوں سے یہ تعلقات بحال ہوئے۔ سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت دونوں ممالک دو ماہ کے اندر اندر اپنے سفارت خانے ایک دوسرے کے ملک میں کھولیں گے۔ فریقین ایک دوسرے کے جعرافیائی حدود کا احترام کریں گے اور ایک دوسرے پر حملے بھی نہیں کریں۔نیوز چینلز پر بھی ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کی جائے گی اور ایک دوسرے کے خلاف پرواپیگنڈا کے دروازے بند کر دیے جائیں گے۔ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ایک دوسرے کے خلاف پراکسیز کے ذریعے کار وائیاں کرنے کا سلسلہ بھی مسدود کر دیا جائے گا ۔ یاد رہے کہ یمن ، لبنان ، شام اور فلسطین ایسے ممالک ہیں جہاں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف بالواسطہ نبرد آزما ہیں ۔ یمن ایک بہت پر سکون ملک تھا جس کے باشندے بہت پر امن زندگی گزار رہے تھے کہ اس پر ایک ناجائز جنگ مسلط کر دی گئ۔ آج یمن کا یہ عالم ہے کہ یونیسیف کی رپورٹ کےمطابق اس کے 22 لاکھ سے زیادہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں ، یہ بچے جان بچانے والی ادویات سے محروم ہیں اور تعلیم کے ان کے پاس ادارے بھی موجود نہیں ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ ایران سعودی معاہدہ ان کے لیے رحمت ثابت ہو گا اور یمنیوں کی یہ آنے والی نسل ایک تاریک مستقبل کی طرف جانے سے محفوظ ہو جائے گی۔اس معاہدہ پر اسرائیل سب سے زیادہ چیں بجبیں ہوا ہے۔ اسرائیل امریکہ کی سرپرستی میں عرب ممالک کے ساتھ “ابراہیمی معاہدہ” کے نام سے تعلق مضبوط بنا رہا ہے ۔ اس نے براعظم افریقہ کے کچھ ممالک کے ساتھ بھی تعلقات استوار کیے ہیں ۔ یہ ایک بالکل نئی صف بندی ہے جو محض ایران کی مخالفت پر مبنی ہے ۔ امریکہ نے ناجائز طور پر ایران کے خلاف پروپگنڈا کیا ہے کہ وہ ایٹم بم بنا رہا ہے اور وہ اسے عرب ممالک کے خلاف استعمال کرے گا۔ اس خوف نے کچھ عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ گو کہ سعودی عرب نے ابھی تک اپنے آپ کو اس ابراہیمی معاہدہ سے بوجوہ دور رکھا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اگر فلسطین کا مسئلہ بہتر طریقے سے حل ہو جاتا ہے تو وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنا سکتا ہے۔ لیکن میرے خیال کے مطابق اگر ایران سعودی معاہدہ پر اچھی پیش رفت ہوتی ہے تو عرب ممالک کے تحفظات بھی ختم ہو جائیں گے اور یہ ممالک بھی ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھانے کی پوزیشن میں ہو جائیں گے ۔ امریکہ ایران کے خلاف غلط معلومات پھیلا کر عرب اور ایران کے مابین دشمنیوں کے جو بیج بو رہا تھا وہ اُگ نہیں سکیں گے ۔ اسرائیل بھی اپنے مضموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ ایران کے لیے امریکہ نے بہت معاشی مشکلات پیدا کی ہیں اور اسکی معیشت کو کمزور تر کرنے کے لیے بہت ناجائز معاشی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس کے امن کو تباہ و برباد کرنے کے لیے بیرونی ملک رہنے والےایرانیوں پر بہت بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ ایران کے اندر بہت مہیب قسم کے فتنوں کی آبیاری کی ہے۔ ایرانی ریال بہت ہی کمزور ترین ہے جسکا دنیا کی معیشتوں میں کوئی مقام نہیں ہے۔ لیکن ایران کی قیادت کو سلام ہے کہ ان دگرگوں حالات میں بھی سامراج کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب امریکہ کا حلیف ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہے اور اسکی معیشت ترقی بھی کر رہی ہے ۔ آرامکو سعودی عرب کی تیل پیدا کرنے والی غالبا سعودیہ میں سب سے بڑی کمپنی ہے ، اس نے اس سال تقریبا 161 بلین ڈالرز کا منافع کمایا ہے ۔ میرے خیال میں جب اس معاہدہ پر عمل درامد ہو گا اور باہمی اعتماد کو مضبوطی ملے گی تو دو نوں ممالک کے معاشی تعلقات بھی استوار ہونگے اور ایران کو معاشی بحرانوں سے نکلنے کا راستہ بھی ملے گا اور سعودی عرب کی معیشت پر بھی غیر ضروری اخراجات کا بوجھ کم ہو گا۔ اس معاہدہ کو اگر ہم مجموعی تناظر میں دیکھیں تو اس کے پوری امت مسلمہ پر بہت مثبت اثرات مرتب ہونگے مگر بطور خاص ایران کو اس سے بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔ مجھے امریکہ کی ایران کو چاروں شانے چت کرنے کی حکمت عملی کی ناکامی نظر آرہی ہے ، امریکہ کی ایران کو ہمیشہ دباو کے نیچے رکھنے کی پالیسی ناکام ہوتی نظر آرہی ہے ، امریکہ نےعرب ممالک کے لیےایران کی صورت میں خوف کا جو پہاڑ کھڑا کیا ہوا تھا اور وہ اس کی آڑ میں لوٹ مار کر رہا تھا اس لوٹ مار کا سلسلہ بھی ختم ہو گا ۔ اسلامی ممالک کو باہم ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملے گا۔ امت مسلمہ میں اتحاد و یگانگت کی فضا قائم ہو گی اور غلط فہمیاں ختم ہو نگی،مجھے امید ہے کہ ایران اور سعودی عرب اس معاہدہ کو برقرار رکھیں گے بلکہ اس کو مزید آگے بڑھائیں گے، سازشوں کو اپنے درمیان نہیں پنپنے دیں دے۔ اسرائیل اور سامراجی قوتوں کی ریشہ دانیوں کا اب بھر پور طریقے سے متحد ہو کر مقابلہ کریں گے۔ اس میں اگرچہ وقت لگے گا مگر ہم پر امید ہیں۔ ان شاء اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں