493

آہ ! محسن پاکستان. تحریر:مفتی گلزاراحمد نعیمی ممبر : قومی اقلیتی کمیش پاکستان۔ صدر :جماعت اہل حرم پاکستان.مہتمم :جامعہ نعیمیہ اسلام آباد

آہ ! محسن پاکستان

تحریر:مفتی گلزاراحمد نعیمی

مہتمم :جامعہ نعیمیہ اسلام آباد
صدر :جماعت اہل حرم پاکستان
ممبر : قومی اقلیتی کمیش پاکستان۔

محسن پاکستان ، محافظ پاکستان، جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان رحمتہ اللہ علیہ اس دارفانی سے رخصت ہوئے اور دار بقا کی طرف اپنے رب کے پاس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تشریف لے گئے۔ ایک سچا پاکستانی اور ایک نہایت ہی راسخ العقیدہ ، بلکہ ایک خوش بو دار عقیدہ کا حامل عظیم سائنس دان ہمیں داغ مفارقت دے گیا۔ اللہ سبحانہ وتعالی آپکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور آپکا حشر اسلام کے ان ہیروز میں ہو جن پر اسلام بجا طور پر فخر محسوس کرتا ہے ۔ آمین ۔ کل جب سے انکی وفات کی خبر مشتہر ہوئی تو اس وقت سے ہمارے بہت سے احباب کی زبا ن وقلم پر ایک شعر رواں ہے اور وہ یہ ہے ” عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن ” مجھے اس سے بالکل اتفاق نہیں ہے۔ محسن پاکستان کو اہل وطن اور اہل پاکستان نے ہمیشہ اپنا ہیرو سمجھا ہے اور جب تک پاکستان موجود ہے وہ ڈاکٹر اے کیو خان کو اپنا محسن اور ہیرو سمجھتے رہیں گے۔ قوم نے آپکو ہمیشہ عزت دی اور عزت دیتے رہیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ملک میں استعمار اور اسلام مخالف حکومتوں اور قوتوں کے حکمران گماشوں نے آپ کے لیے ہمیشہ مشکلات کھڑی کیںمگر قوم ہمیشہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کھڑی نظر آئی ۔یہ سختیاں جو ڈاکٹر صاحب پر ڈھائی گئیں یہ قوم کی طرف سے نہیں تھیں بلکہ قوم کے غداروں اور امریکہ کے وفاداروں کی طرف سے تھیں ۔اس لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے باب میں قوم کو بدنام نہ کیا جائے بلکہ ہدف تنقید ان ضمیر فروش اور نام نہاد پاکستانی حکمرانوں کو بنایا جائے جنہوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے امریکہ اور مغرب کے کہنے پر ڈاکٹر اے کیو خان پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھا۔
یاد رکھیں ! کہ جو کچھ اس ایٹمی سائنس دان سے ہوا یہی کچھ ماضی میں اسلام کے بڑے بڑے ہیروز کے ساتھ ہوا ہے ۔ محمد بن قاسم ، موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد جیسی دیو مالائی شخصیات کے مالک بھی نہایت کرب ناک زندگی گزار کر اس دنیا سے گئے تھے۔ اس لیے یہ کچھ کسی ہیرو کے ساتھ پہلی دفعہ نہیں ہوا اور نہ ہی اس جورو جفا کا اختتام ہو گیا ہے۔آئندہ بھی ہیروز کے ساتھ ایسا ہی ہو تا رہے گا۔ کیونکہ ہماری تاریخی روایات یہی ہیں ہم اپنے ہیروز کے ساتھ ایسا ہی کرتے آئے ہیں ۔ ڈاکٹر اے کیو خان کے ساتھ ایک آمر نے جو کچھ کیا وہ بہت ہی افسوس ناک بلکہ شرم ناک ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ بھی کھڑے تھے جنہوںنے آمر کے سامنے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ہم آپکو ڈاکٹر اے کیو خان کو امریکہ کے حوالہ کبھی بھی نہیں کرنے دیں گے۔ اللہ تعالی ان کے اس عمل کو انکی نجات کا ذریعہ بنائے (آمین)
ڈاکٹر اے کیو خان ایک سچے پاکستانی اور بہت مضبوط عقیدہ کے حامل مسلمان تھے ۔ میرا ا نکی ٹیم کے صف اول کے سائنس دانوں سے تبادلہ خیالات کا سلسلہ رہا ہے۔ انکی شہادت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب بہت ہی راسخ العقیدہ اور روحانیت کے عظیم درجہ پر فائز مسلمان تھے۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم کا آنا اور پاکستان کا ایک ایٹمی ملک بننا اس میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا اتنا کمال نہیں ہے کہ جتنا عظیم روحانی ہستیوں کے روحانی فیوض و برکات کا حصہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اس پورے منصوبے کا سربراہ ایک پکا اور سچا مسلمان نہ ہوتا تو یہ روحانیت کیسے آ سکتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ایک عظیم محب وطن پاکستانی اور مضبوط اسلامی شخصیت کے مالک تھے۔ میرے خیال میں شاید انہیں سزا بھی انہی دو ” جرائم”کی دی گئی تھی۔ کہ وہ پاکستان اور اسلام سے پیار کرتے ہیں۔ اپنے ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا تھا”ہم بھوپالیوں کو دو چیزوں پر فخر ہے۔ ایک تو یہ کہ ہمارے ہاں آج تک کوئی غدار پیدا نہیں ہوا اور ہمیں اس پر بھی فخر ہے کہ ہمارے ہاں آج تک کوئی قادیانی پیدا نہیں ہوا”۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے نہ صرف ان تھک محنت کی بلکہ اس کے لیے بہت عظیم قربانیاں بھی دیں ۔ ایک اعلیٰ اور پرسکون زندگی کو چھوڑ کر تیسری دنیا کے ایک چھوٹے سے غیر ترقی یافتہ ملک میں آکر آباد ہوجانا اور پھر اسکی دفاعی صلاحیت کو ناقابل شکست بنا دینا، یقینا ایسا ایک محبت وطن شخص ہی کر سکتا ہے ۔ اگر ڈاکٹر صاحب ایک راسخ العقیدہ مسلمان نہ ہوتے اور منکرین ختم نبوت کے کیمپ میں شامل ہو جاتے تو ان کی زندگی کبھی بھی یوں اجیرن نہ بنائی جاتی۔ مگر عزم و ہمت کے اس کو ہ گراں نے آمریت کی عطا کردہ تمام مشکلات برداشت کیں، پریشان کن سختیوں کو گلے سے لگایا مگر نہ وطن کے ساتھ غداری کی اور نہ اپنے عقیدہ سے۔ اورنہ اپنے ضمیر ،نہ اپنے وطن کے ساتھ محبت کا اور نہ ہی اپنے دین کا سودا کیا۔
جب میں سوچتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب پر یہ الفاظ کتنے کٹھن گزرے ہو نگے جو ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ایٹمی دھماکوں سے کچھ دن پہلے کہے تھے تو یقین جانیے لر ز جاتا ہوں ۔ پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کے خالق کو ایٹمی دھماکوں سے یوں دور رکھا گیا جیسے انکا اس منصوبہ سے دور دور کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا ۔حالانکہ ڈاکٹر اے کیو خان ہی اس عظیم ترین منصوبہ کا معمار اول تھا۔ ابتداء سے لیکر انتہاءتک سب کچھ انہوں نے ہی کیا تھا۔ اور یہ صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم پاکستان کے ساتھ عشق کی حد تک محبت رکھتے تھے ۔ جب ایک مشہور بھارتی صحافی کلدیب نیئر نے آپکا انٹر ویو کیا تو آپ نے نہایت جذباتی انداز میں فرمایا تھا کہ ” اگر بھارت دس ایٹم بم بنائے گا تو ہم سو بنائیں گے”۔
آج وہ ہم میں نہیں رہے لیکن تاریخ میں وہ امر ہو گئے ہیں۔ یاد رکھیں !ہیروز پیدائشی طور پر ہیروز ہوتے ہیں اور وہ کسی غدار یا آمر کی وجہ سے قوم کے دلوں سے نہیں نکالے جا سکتے ۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ڈاکٹر اے کیو خان پاکستانی قوم کے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بعد سب سے بڑے ہیرو ہیں ۔ اس ہیرو کے نماز جنازہ میںصف اول کے رہنمائوں کا شریک نہ ہونا دل کو بہت دکھی کر گیا۔ اس بہادر قوم کی دھشت زدہ قیادت کو کیا کہا جائے۔۔۔۔ بس دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ ان پر رحم فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں