PM IK cabinet meeting اردو زبان 260

آخری وزیراعظم. مظہربرلاس

اپنے تمام تر حربوں کے باوجود جگتو فرنٹ ناکام ہوگیا، اس کے تمام تر دعوے غلط ثابت ہوئے۔ جگتو فرنٹ کی فتح کی نوید سنانے والا شورشرابہ سترہ نومبر کو ڈوب گیا، اب یہ کام کم از کم چار چھ مہینے کے لئے ختم ہوگیا ہے۔ درجن بھر جماعتوں کو اکیلے عمران خان نے پچھاڑ کر رکھ دیا ہے، سارا رولا رپا ناکام رہا اور عمران خان کی حکمت عملی کامیاب رہی۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کئی بل منظور ہوئے مگر اپوزیشن کو سب سے زیادہ تکلیف ای وی ایم اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کی ہے۔ ای وی ایم کے ذریعے گھوسٹ ووٹوں کا خاتمہ ہو جائے گا، یہی گھوسٹ ووٹ کئی لوگوں کی فتح کو یقینی بناتے رہے ہیں۔ کچھ مردوں کے ووٹ تھے، اب وہ زندہ ہو کر کیسے ووٹ ڈالیں گے۔

اپوزیشن کی جماعتوں خاص طور پر ن لیگ کا خاصا نقصان ہوگیا ہے، رہی سہی کسر تحریک لبیک پوری کر دے گی۔ اوورسیز پاکستانیوں کا طویل عرصے سے مطالبہ تھا کہ انہیں ووٹ کا حق دیا جائے، ہمارے کئی حکمرانوں نے سمندر پار پاکستانیوں کو اس سلسلے میں کئی مرتبہ چکر دیئے مگر عمران خان کہاں چکر مکر دے سکتا تھا یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو طویل عرصے سے کر رہے ہیں، عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کرکے نہ صرف ان کے دل جیت لئے ہیں بلکہ دھرتی سے پیار کرنے والوں کے دلوں میں وطن کے لئے محبت کو اور بڑھا دیا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کی سب سے بڑی مخالف مسلم لیگ ن تھی۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ن لیگ کے رہنمائوں کو علم ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں میں سب سے مقبول جماعت تحریک انصاف ہے، انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے نوے فیصدووٹ پی ٹی آئی کے ہیں اور پنجاب کے ہر حلقے میں پچیس تیس ہزار ووٹ اوورسیز پاکستانیوں کا ہے بلکہ بعض حلقوں میں ووٹوں کی یہ تعداد ستر اسی ہزار سے بھی زیادہ ہے اور یہ حلقے جی ٹی روڈ کے ارد گرد ہیں۔ اوورسیز ووٹروں کے طفیل پی ٹی آئی جی ٹی روڈ کے دائیں بائیں بہت مضبوط ہو جائے گی۔

ای وی ایم اور اوورسیز پاکستانیوں کے سلسلے میں تازہ قانون سازی کے بعد وہ افواہ ساز ادارے بھی خاموش ہو جائیں گے جو مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ اگلا وزیراعظم فلاں ہوسکتا ہے بلکہ وہ بن رہا ہے۔

دوسرے سے لندن میں لوگ جاجا کے مل رہے ہیں کچھ نا سمجھ تو افواہوں کے بازار میں یہاں تک کہہ گئے کہ اسٹیبلشمنٹ کے چند لوگ لندن میں کسی پاکستانی سیاستدان کے ترلے کر رہے ہیں۔ بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے یہ بات تو مانی جاسکتی ہے کہ ایک جماعت کے رہنما پنڈی اسلام آباد کے چکر کاٹ رہے ہیں، ترلے منتیں کر رہے ہیں کہ کسی طرح ہمیں گھاس ڈال دیں۔ اطلاع یہ ہے کہ اس چکر کاٹنے والے سیاستدان کو مسلسل ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔

عمران خان نے چومکھی جنگ لڑتے ہوئے اپنا رستہ بنایا ہے۔ پہلے ہماری سب سیاسی جماعتیں مل کر یہ کوشش کرتی رہیں کہ عمران خان اقتدار تک نہ پہنچ پائے۔ جب وہ اقتدار میں آگیا تو انہوں نے ایک مولانا کی اقتداء میں یہ کوششیں شروع کردیں کہ عمران خان کے پاس زیادہ دیر اقتدار نہ رہے، صبح و شام کرتے کرتے تین سال گزر گئے۔ اس دوران کئی لوگ یہ سوچتے رہے کہ آخر ان جماعتوں کےکہنے پر عوام کیوں نہیں نکلتے، آخر وجہ کیا ہے؟ اپوزیشن کے جلسے بھی جلسیاں بن کر رہ گئے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ لوگوں نے تمام جماعتوں کو آزما لیا ہے، آخری جماعت تحریک انصاف ہے، اس کی آزمائش جاری ہے۔ اگر پرعزم عمران خان لوگوں کو مشکلات میں سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر ان کے مقابلے میں واقعی کوئی نہیں آسکے گا اور اگر مشکلات کا سلسلہ حالیہ مشکلات کی طرح رہا تو پھر عمران خان کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔

اپوزیشن کو ایوان میں شکست دینے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے عوام کے دل جیت لئے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے دل جیتنے کے ساتھ ساتھ یہاں رہنے والوں کے دل جیتنا بھی ضروری ہیں اگر آپ دلوں میں بس جائیں تو پھر آپ کا مقابلہ کون کرسکتا ہے؟

پچھلے پچیس تیس برسوں سے دیکھ رہا ہوں کہ لوگ آہستہ آہستہ موجودہ پارلیمانی نظام سے دور ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اس نظام نے لوگوں کے مسائل میں اضافہ کیا ہے اور یہ نظام ہمیں تنزلی کی طرف لے کے جا رہا ہے، اب شاید مزید یہ نظام نہیں چل سکتا۔ اس لئے میرے خیال میں عمران خان آخری وزیر اعظم ہیں اگر ان کے بعد کوئی وزیراعظم بنا بھی تو وہ مختصر سی مدت کے لئے ہوگا، عمران خان خود ہی کسی اور نظام کا رخ کرلیں گے، پاکستان کا آئندہ سیاسی نظام صدارتی ہوگا، چھوٹے گروپوں کی بلیک میلنگ اور لوگوں کی بددعائیں پارلیمانی نظام کھا گئی ہیں بقول وصی شاہ ؎

زندگی! اب کے مرا نام نہ شامل کرنا

گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہوگا

اپنا تبصرہ بھیجیں