Skip to content

انٹر نیشنل سنی کانفرنس.مفتی گلزار احمد نعیمی

  • by

انٹر نیشنل سنی کانفرنس
مفتی گلزار احمد نعیمی
15 مئی 2022
جماعت اہل سنت پاکستان اہلسنت وجماعت کی نمائندہ جماعت ہےجو اپنی شاندار تاریخ رکھتی ہے۔علامہ شاہ احمد نورانی,مجاہد ملت مولانا عبد الستار خان نیازی غزالئ زماں علامہ احمد سعید کاظمی علیھم الرحمہ جیسے نابغہ روزگا شخصیات نے اسکی بنیاد رکھی۔بنیادی طور پر یہ جماعت غیر سیاسی اور غیر انتخابی ہے۔یہ پاسبان مسلک اہل سنت ہے۔لیکن اس جماعت نے پاکستان میں اہل سنت کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں کے لیے نرسری کا کام کیا ہے۔اس جماعت نے اہل سنت کو بہت جلیل القدر رہنماء دیے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کی لاجواب خدمات سرانجام دیں۔راقم بذات خود جماعت اہل سنت کا کم و بیش ایک دہائی تک خادم رہا ہے۔میں نے بحثیت مرکزی نائب امیر جماعت اہل سنت خدمات سرانجام دی ہیں۔میں نے جماعت میں رہ کر بہت کچھ سیکھا۔میرے مزاج میں اللہ سبحانہ وتعالی اتحاد امت کے لیے کاوش کرنا رکھا تھا اس لیے مجھے جماعت اہل سنت کو چھوڑنا پڑا۔
ایک عرصہ بیت گیا تھا میں جماعت کے کسی پروگرام میں بوجوہ شرکت کرنے سے قاصر رہا۔اس دفعہ اس کانفرنس کے لیے جماعت کے مرکزی قائدین جناب ڈاکٹر حمزہ مصطفائی,محترم راجہ ریاضت حسین اور برادر علامہ محمد اسلم ضیائی دعوت دینے کے لیے تشریف لائے تو ان سے وعدہ کیا کہ میں ان شاء اللہ حاضر ہونگا۔اس کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد کے گلبرگ گرین سیکٹر میں ہوا۔کانفرنس کے انتظامات بہت ہی اعلی تھے۔میں اس کانفرنس پر اپنا تنقیدی جائزہ اپنے قارئین کی خدمت میں ہیش نہیں کرونگا اور نہ ہی کمزور پہلوؤں کی طرف جاؤں گا۔میری زیادہ دلچسپی کانفرنس کے اعلامیے میں تھی۔میں ڈاکٹر حمزہ کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یہ وٹس اپ کیا۔ایک بات بہت ضروری سمجھتا ہوں اور جماعت کے قائدین کی خدمت میں اس پر توجہ کرنے کی بھی گزارش کروں گا۔میری دانست میں اس بین الاقوامی کانفرنس کے لیے جگہ کا انتخاب میرے نزدیک محل نظر ہے۔یہ کانفرنس ایسی جگہ پر منعقد کی گئی جو اس کانفرنس کے لیے بالکل موضوع نہیں تھی۔اردو کا ایک محاورہ ہے جو اس کانفرنس پر صد در صد صادق آتا ہےیعنی ” جنگل میں مور ناچا تو کس نے دیکھا”یہ ایک بڑی کانفرنس تھی اسے کسی بڑی مشہور جگہ پر منعقد کرنا چاہیے تھا۔منتظمین نے یقینا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو دعوت دی ہوگی۔مگر میڈیا نے اس کانفرنس کو کوریج نہیں دی۔میرے نزدیک اسکی بھی بڑی وجہ غیر معروف جگہ کا انتخاب ہی ہے۔مجھے امید ہے کہ ہمارے قائدین آئندہ کے پروگرامز میں اس پہلو کو ضرور مدنظر رکھیں گے۔کانفرنس کے انعقاد سے چند دن پہلے کسی بات پر اختلاف کی وجہ کچھ لوگوں نے اسکو رافضیوں کی کانفرنس قرار دیا جو میرے نزدیک نہایت لغو اور بے ہودہ بات ہے۔شاید الزام لگانے والے رافضیت کی تعریف سے بالکل بے بہرہ ہیں۔رفض کیا ہے اور رافضی کون ہوتا ہے ان لوگوں کو الزام لگانے سے پہلے کسی سے تعلیم لے لینی چاہیے۔اہل سنت کا وہ شخص جو خلفاء راشدین کے مراتب کا خیال رکھتا ہو اور تمام صحابہ کی تکریم کرتا ہو اس پر صرف اس وجہ سے رفض کا الزام لگانا کہ وہ محبت میں اہل بیت کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے,یہ حد درجہ کی جہالت ہے۔میں خود اس الزام کا دس سال سے سامنا کررہا ہوں جب سے میں نے خاتون جنت کانفرنس کا انعقاد شروع کیا۔(اس کانفرنس میں تمام مسالک کے جید علماء شرکت فرماتے ہیں)لیکن میں نے کبھی بھی اسکی پرواہ نہیں کی اور نہ ہی آئندہ کرونگا۔
اب میں اپنے قارئین کی خدمت میں اس کانفرنس کے اعلامیے کے حوالہ سے کچھ معروضات پیش کرتا ہوں۔کانفرنس اعلامیہ بارہ(12) نکات پر مشتمل ہے۔پہلے چار نکات اتحاد امت کے  حوالہ سے بہت اہم ہیں۔مسلمانوں کی ترقی اور عظمت کے لیے باہمی اتحاد واتفاق از حد ضروری قرار دیا گیا اور اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فی الفور متحد ہوجائیں تاکہ امت مسلمہ مضبوط و مستحکم ہو۔اعلامیہ کا چوتھا نکتہ وطن عزیز پاکستان کے حوالہ سے بہت ہی اہم ہے۔جس میں ملکی ترقی اور استحکام کے لیے فرقہ واریت کے خاتمہ کو ضروری قرار دیا گیا اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کی گیا کہ وہ فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ایک مضبوط ضابطہ اخلاق مرتب کرے۔اس اعلامیے میں بطور خاص اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کا کہا گیا۔پاکستان میں ماضی قریب میں فرقہ وارانہ تشدد اپنے عروج پر تھا اور لاتعداد قیمتی جانیں اس فرقہ وارانہ تشدد کی بھینٹ چڑھیں۔میری جماعت اہل سنت سے گزارش ہے کہ وہ اس کانفرنس کے اعلامیہ کی روشنی میں عملی اقدامات کریں اور ملک پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔اہل سنت  شکست وریخت کا شکار ہیں جسے دیکھ کر ہم جیسے کارکنوں کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔کہاں وہ دور کہ جب اہل سنت سیاسی طور پر پیپلز پارٹی کے بعد دوسری بڑی قوت تھی اور کہاں آج کا دور کہ اہل سنت پاکستان کے سیاسی اور غیر سیاسی نقشے پر نظر نہیں آتے۔میری جماعت اہل سنت کے قائدین سے گزارش ہے کہ وہ دل وسیع کریں اور تمام مکاتب فکر کو اپنے سینے سے لگائیں۔یہ چیز پاکستان کے استحکام اور دین متین کے لیے  از بس ضروری ہے۔
اس اعلامیہ میں وفاقی شرعی عدالت کے سود سے متعلق فیصلہ کو سراہا گیا۔جو نہایت خوش آئند بات ہے۔ملی یکجہتی کونسل کی مجلس قائدین کے 16 مئی 2022 کے اجلاس میں بھی کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا گیا۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے سود سے متعلق فیصلہ کو نافذ کرنے کے لیےحکومت پر پریشر ڈالا جائے تاکہ وہ اس فیصلہ کے خلاف سٹے آرڈر لینے عدالت کی طرف رجوع نہ کرے۔ہمارے سیکولر جماعتوں کے قائدین شریعت مطاہرہ کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اہل مذہب حفاظت دین کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔اس کے لیے جماعت اہل سنت کو غیر سیاسی معاملات میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے ساتھ اشتراک وتعاون کرنا چاہیے۔اس اعلامیہ میں تحفظ ناموس رسالت کے قانون کی بھی بات کی گئی اس حوالہ سے بھی جماعت اہل سنت اور ملی یکجہتی کونسل کا موقف بالکل ہم آہنگ ہے۔ہمیں “تعاونوا علی البر والتقوی” کے قرآنی حکم اور اصول کے مطابق ہم آہنگ ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ماضی میں اس قانون سے بہت قابل افسوس حد تک سوئے استفادہ کیا گیاجسکی وجہ اس قانون کے خلاف اندرون وبیرون ملک آوازیں اٹھیں ۔اس لیے اسکا سد باب بھی اشد ضروری ہے۔
اس اعلامیہ میں دینی تعلیم کے فروغ کے ہر خانقاہ پر دو مدارس کے قیام پر بھی زور دیا گیا۔میرے خیال میں ہمارے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا ایک اہم مرکز خانقاہ ہے جو اپنا کردار ادا نہیں کررہی۔اس کانفرنس میں اہم معاملہ کیطرف توجہ دلائی گئی جو بہت ضروری تھی۔
مجموعی طور جماعت اہل سنت پاکستان کے زیراہتمام سنی کانفرنس بہت اہم تھی اور اس کے اعلامیے میً اٹھائے والے نکات اہم تر ہیں۔ان نکات کو عملی شکل دینا اشد ضروری ہے۔مجھے امیدا واثق ہے کہ قیادت اس کو عملی شکل دینے میں اپنی صلاحیتیں ضرور صرف کر گی۔
طالب دعاء
مفتی گلزار احمد نعیمی
مرکزی صدر جماعت اہل حرم پاکستان
سابق نائب امیر جماعت اہل سنت پاکستان۔
ممبر نیشنل کمیشن فار مینارٹیز

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *