240

امیرالمومنین حضرت امام علی اور طرز جہاں بانی.اظہر علی عابدی

امیرالمومنین حضرت امام علی اور طرز جہاں بانی
اظہر علی عابدی
(sayedabidi@yahoo.com)

دین اسلام جہاں انسان کو انفرادی رشد و ارتقاء کے لیے خود سازی اور تہذیب نفس کی تعلیم سے نوازتا ہے، وہاں اجتماعی ترقی و معاشرہ سازی کے لیے اصول جہاں بانی بھی عطا کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنفس نفیس ریاست مدینہ کو قائم کرتے ہوئے اسے ایک آئین عطا کیا۔ چنانچہ میثاق مدینہ کو دنیا کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جاتا ہے۔ رسول پاک کے پرورش یافتہ، باب مدینۃالعلم حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بھی آج سے چودہ سو سال قبل حکمرانوں کے لیے ایک ایسا آئین عطا فرمایا کہ جو عادلانہ، متوازن اور خوشحال معاشرے کے قیام کے لیے ہمیشہ ایک رہنما دستاویز کی صورت موجود رہے گا۔
حضرت علی علیہ السّلام کے خطبات، ارشادات و مکتوبات پر مشتمل کتاب نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر 53 میں مالک اشتر کو مصر کا گورنر بناتے ہوئے آپ نے انہیں ایک عہد نامہ عطا کیا۔ یہ عہد نامہ اسلامی اصول جہانبانی اور رموز سلطنت کا شاہکار ہے۔ حکمرانوں کے لیے مطلوبہ صفات، عوام کے مختلف طبقات اوران کی نفسیات و ضروریات، عدل و انصاف کے لیے اقدامات، امن عامہ اور قانون کی حکمرانی کے لیے تدابیر اور رد فتنہ و فساد کے لیے فراہمیء اسباب ، الغرض اسلام کی حیات بخش تعلیمات کی روشنی میں اس عہد نامے میں سب کچھ سمو دیا گیا ہے۔
اصول ہائے حکمرانی و جہانبانی کا یہ شاہکار جس تک بھی پہنچا، وہ اس کی افادیت تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکا۔ چنانچہ پاکستان کے سابق وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی مرحوم معراج خالد نے اس عہد نامے کو اہتمام کے ساتھ چھپوا کر بیوروکریٹس اور عوامی نمائندوں میں تقسیم کیا۔ مرحوم کوثر نیازی نے راجیو گاندھی کی موت پر اپنے ایک کالم میں ذکر کیا کہ راجیو گاندھی نے انہیں بتایا کہ یہ عہد نامہ ان کے پاس موجود رہتا ہے، لہذا وہ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے انسانی حقوق کی دستاویز کی پچاسویں سالگرہ پر اپنے پیغام میں انسانی حقوق پر اس جامع عہدنامے کا حوالہ دیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے انسانی ترقی کے ادارے کی 2002ء کی رپورٹ میں اصول حکمرانی کی اس عظیم دستاویز کا ذکر کرتے ہوئے دنیا کے رہنماؤں کو اس سے استفادے کی تشویق دلائی ہے۔ اس کالم میں ہم اس عظیم دستاویز کے چند حصوں کا نہایت مختصر ذکر کر پائیں گے۔

مالک اشتتر کو مصر کا گورنر بناتے ہوئے کہتے ہیں، “میں نے تم کو ایسے علاقہ کی طرف بھیجا ہے جہاں عدل و ظلم کی مختلف حکومتیں گذر چکی ہیں اور لوگ تمہارے معاملات کو اس نظر سے دیکھ رہے ہیں جس نظر سے تم ان کے اعمال کو دیکھ رہے تھے اور تمہارے بارے میں وہی کہیں گے جو تم دوسرں کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ ۔۔رعایا کیلئے اپنے دل کے اندر رحم و رافت اور لطف و محبت کو جگہ دو۔ ان کیلئے پھاڑ کھانے والا درندہ نہ بن جاؤ کہ انہیں نگل جانا غنیمت سمجھتے ہو۔”۔
عوام کی قسمیں اور ان کے حقوق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں، ” دو قسم کے لوگ ہیں: ایک تو تمہارے دینی بھائی اور دوسرے تمہارے جیسی مخلوقِ خدا” پس مولا علی دونوں کےحقوق کی نگہداری کا بتا رہے ہیں۔ امام علی کا یہی قول بڑے بڑےاستقبالی بینرز کی صورت نجف اشرف میں آوایزاں کیا گیا ، جب حا ل ہی میں پوپ فرانسس آیت اللہ سیستانی سے ملے، کیونکہ وہ آیت اللہ سیستانی کی جانب سے عراق کے مسیحی بھائیوں کے حقوق کے دفاع میں دیے گئے فتوے کے تشکر کے طور پر ان کے پاس گئے۔
امام علی عدل کے نفاذ اور ظلم کے خلاف تما م زندگی برسر پیکار رہے، فرماتے ہیں، ” جو خدا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے تو بندوں کی بجائے اللہ اس کا حریف و دشمن بن جاتا ہے، اور جس کا وہ حریف و دشمن ہو اس کی ہر دلیل کو کچل دے گا، اور وہ اللہ سے بر سر پیکار رہے گا، یہاں تک کے باز آئے اور توبہ کر لے”

عدل و انصاف کے نفاذ کو اسلامی اصول حکمرانی میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔ امام علی نے اس دستاویز میں تحریر کیا، ” تمہیں سب طریقوں سے زیادہ و طریقہ پسند ہوناچاہیے جو حق کے اعتبار سے بہترین، انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اور عوام کی زیادہ سے زیادہ مرضی کے مطابق ہو۔ کیونکہ عوام کی ناراضی خواص کی رضامندی کو بے اثر بنا دیتی ہے”

اسی تحریر میں ایک جگہ اور امام علی فرماتے ہیں، “تمہارے لئے سب سے بد تر وزیر وہ ہو گا جو تم سے پہلے بدکرداروں کا وزیر اور گناہوں میں ان کا شریک رہ چکا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو تمہارے مخصوصین میں سے نہ ہونا چاہیے، کیونکہ وہ گنہگاروں کے معاون اور ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ان کی جگہ تمہیں ایسے لوگ مل سکتے ہیں جو تدبیر و رائے اور کارکردگی کے اعتبار سے ان کے مثل ہوں گے، مگر ان کی طرح گناہوں کی گرانباریوں میں دبے ہوئے نہ ہوں۔۔۔۔۔ ایسا ہو نا چاہیے کہ تم بلند خاندان، نیک گھرانے اور عمدہ روایات رکھنے والوں اور ہمت و شجاعت اور جود و سخاوت کے مالکوں سے اپنا ربط ضبط بڑھاؤ، کیونکہ یہی لوگ بزرگیوں کا سرمایہ اور نیکیوں کا سر چشمہ ہوتے ہیں”

یہ عہد نامہ علم و حکمت کا گراں مایہ سرچشمہ اور طرز حکومت کے لیے ایک شاہکار ہے۔ کسی دانشور نے بجا کہا تھا کہ سوشل سائینسز ابھی بھی وہاں نہیں پہنچ سکیں کہ جہاں مولا علی کی نظر تھی۔ حکومت کے ستون اور طبقوں کے حوالے سے کبھی تین اور کبھی چار ستون بتائے جاتے ہیں۔ یہاں امام علی حکومت کے کم ازکم چھ ستونوں یا طبقات کا ذکر کرتے ہیں:
“ان میں سے ایک طبقہ وہ ہے جو اللہ کی راہ میں کام آنے والے فوجیوں کا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو عمومی و خصوصی تحریروں کا کام انجام دیتا ہے۔ تیسرا انصاف کرنے والے قاضیوں کا ہے۔ چو تھا حکومت کے وہ عمال جن سے امن اور انصاف قائم ہوتا ہے۔ پانچواں خراج دینے والے مسلمان اور جزیہ دینے والے ذمیوں کا۔ چھٹا تجارت پیشہ و اہل حرفہ کا۔ ساتواں فقرا و مساکین کا وہ طبقہ ہے کہ جو سب سے پست ہے۔ اور اللہ نے ہر ایک کا حق معین کر دیا ہے اور اپنی کتاب یا سنت نبویؐ میں اس کی حد بندی کر دی اور وہ (مکمل) دستور ہمارے پاس محفوظ ہے”۔
طبقات گنوانے کے بعد امام علی ان تمام طبقات کی تفصیل اور ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کرتے ہیں جو موثر حکومت چلانے کے لیے ضروری ہیں۔
عوام کے حوالے سے فرماتے ہیں، “اور تم اپنے اوقات کا ایک حصہ حاجتمندوں کیلئے معین کر دینا جس میں سب کام چھوڑ کر انہی کیلئے مخصوص ہو جانا، اور ان کیلئے ایک عام دربار کر نا، اور اس میں اپنے پیدا کرنے والے اللہ کیلئے تواضع و انکساری سے کام لینا، اور فوجیوں، نگہبانوں اور پولیس والوں کو ہٹا دینا، تاکہ کہنے والے بے دھڑک کہہ سکیں۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کئی موقعوں پر فرماتے سنا ہے کہ اس قوم میں پاکیزگی نہیں آ سکتی جس میں کمزوروں کو کھل کر طاقتوروں سے حق نہیں دلایا جاتا”
افسوس کے حضرت مالک اشتر کو مصر جاتے ہوئے شہید کر دیا گیا اور 40 ھ کی 21 رمضان کو امام علی بھی شہید کردئے گئے اور امت اس منارہ ہدایت سے محروم ہو گئی۔ تاہم یہ دستاویز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی۔ اس عہدنامے کو ہمارے نصاب تعلیم میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل کے معمار اسے پڑھیں اور متوازن، ترقی یافتہ، خوشحال اور عادلانہ معاشرے کے قیام کے لیے نوجواں نسل کو تیار کیا جا سکے. جب اغیار اس عظیم دستاویز پر عمل پیرا ہوکر عروج کی جانب گامزن ہیں تو ہماری نوجوان نسل کے لیے تو اس سے آشنائی واجب ٹھہرتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں