149

احساسِ کمتری. بلال رشید

آپ کبھی ایسے شخص سے ملے ہوں گے، جو بظاہر وجاہت کا نمونہ لیکن اندر سے احساسِ کمتری کا مارا ہوا ہوتاہے۔ اعتماد نام کو نہیں، خوف اور کنفیوژن کا مارا ہوا۔ انسان کی ایک تو ظاہری شکل و صورت ہوتی ہے۔ اس کے بال، اس کی آنکھیں، اس کا رنگ اور قد کاٹھ۔ اسی طرح انسان کے دماغ کی بھی ایک شکل و صورت ہوتی ہے۔ انسان کے اندر ایک خفیہ شخصیت موجود ہوتی ہے۔ یہ خفیہ شخصیت ایک باقاعدہ شکل و صورت اور دوسری خصوصیات رکھتی ہے۔ ماہرینِ تصوف اسے نفس کہتے ہیں۔ نفس کی عادات یا خواہشات ہر انسان میں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں۔ اگر آپ مغرب سے متاثر ہیں اور اسے نفس نہیں کہنا چاہتے تو اسے دماغ کہہ لیجیے یا انسانی نفسیات۔ یہ خواہشات دماغ کے اندر ہی گندھی ہوئی ہوتی ہیں۔

نفس کیا ہے ؟ بنیادی حیوانی خواہشات کا مجموعہ۔ یہ عادات حشرات الارض سے لے کر بندر اور بھینس سے لے کر انسان تک میں بالکل ایک ہی جیسی ہیں۔ نفس خواہشات کا مجموعہ ہے۔ خوفناک ترین خواہشات کا۔ یہ خواہشات زمین پر گزرے پچھلے ساڑھے چار ارب سال میں اس کے اندر یوں نقش ہوچکی ہیں، جیسے ایک میموری کارڈ پر اس کا ڈیٹا لکھا ہوتا ہے یا جیسے ڈی این اے میں جاندار کی خصوصیات درج ہوتی ہیں۔ صوفیا نے اس نفس کی کچھ خصوصیات نوٹ کیں۔ جب نفس کی کوئی عادت بیان کی جاتی ہے تو ہر شخص چونک کر یہ سوچتا ہے کہ یہ تو بالکل میری بات ہو رہی ہے۔

نفس کی یہ خصوصیات کیا ہیں ؟ نفس کو خود سے انتہائی شدید محبت ہوتی ہے اور خود کو نقصان پہنچانے والی ہر شے سے شدید نفرت۔ آپ اگر اس کی خود پسندی دیکھنا چاہتے ہیں تو کسی محفل میں ایک شخص کی باتوں پر کچھ دیر ہنسیے۔ اسے یہ احساس دلائیے کہ وہ بہت بذلہ سنج ہے۔ پھر اگر آپ دس سال بعد بھی اس سے ملیں تو وہ فورا آپ کو ہنسانے کی کوشش کرے گا۔ آپ ہنسیں گے تو اسے خوشی ملے گی۔ محفلوں میں کیوں لوگ ایک دوسرے کو ہنسانے کی کوشش میں نیم دیوانے سے ہو جاتے ہیں اور لڑ بھی پڑتے ہیں۔ نفس میں اپنی بقا کا شدیدخوف بھی موجود ہوتاہے۔ اگر اس پر کوئی ہنس پڑے تو اسے خوف محسوس ہوتاہے کہ یہ عمل مستقل طور پر نہ شروع ہو جائے۔ اس لیے وہ بھرپور جوابی حملہ کرتاہے۔ یوں بعض اوقات ہمیشہ باقی رہنے والی دشمنیوں کی بنیاد پڑتی ہے۔

اگر آپ نفس کی خود پسندی دیکھنا چاہیں تو ان مردوں کو دیکھیں، جنہوں نے لمبی زلفیں رکھی ہوتی ہیں۔ نفس اپنے ساتھ اس قدر رومانٹک ہوتاہے کہ یہ انسانی دماغ کی imaginationکی صلاحیت کو بھرپور طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہ لوگ بار بار بال پیچھے کرنے کے لیے سر جھٹکتے ہیں۔ لاشعوری طور پرانہیں ایک خوبصورتی، دوسرے مردوں پر ایک برتری کا احساس ہو رہا ہوتا ہے اور یہ عمل انتہائی لذت انگیز ہوتا ہے۔ انسان حقیقت سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ ہو سکتاہے کہ اسے دیکھنے والوں کو اس کے لمبے بال برے ہی لگ رہے ہوں لیکن نفس اس قدر چالاک ہے کہ یہ انسان کو اس کی اصلی شکل و صورت دیکھنے ہی کہا ں دیتا ہے۔ گنج پن کے شکار نوجوان جب آئینہ دیکھتے ہیں تو یہ نفس اس زاویے (Angle)سے انہیں اپنا عکس دکھاتا ہے، جس میں گنج پن کم از کم نظر آتا ہے۔ اگر بال سامنے سے اڑے ہوئے ہوں تو وہ سر نیچے کر کے درمیان والے بال دکھا کر اسے تسلی دیتاہے کہ ابھی تو کافی بال سر پہ موجود ہیں۔ یہی نفسیات تن سازی کرنے والوں کی ہوتی ہیں۔ بہانے بہانے سے وہ اپنے مسلز کی نمائش کر رہے ہوتے ہیں۔ دوسروں کو خواہ اس کے مسلز میں رتی برابر دلچسپی نہ ہو۔ اس میں جب دوسری جبلتیں تعامل (Interact)کرتی ہیں، مثلاً جنسِ مخالف کی کشش، یعنی اسے دیکھنے والوں میں خواتین بھی شامل ہوں، تو اس کے بعد تو انسان موٹر سائیکل کا اگلا پہیہ اٹھا کر چلانا شروع کر دیتا ہے ؛تا آنکہ کسی ٹرک کے نیچے آجائے۔

احساسِ کمتری کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ نفس کو خود سے اس قدر شدید محبت ہوتی ہے کہ ذرا سی خامی بھی اسے برداشت نہیں ہوتی۔ چھوٹا قد، کالا رنگ تو بہت دور کی بات، یہ چھوٹی چھوٹی چیزوں، حتیٰ کہ ہاتھ کی ایک انگلی کٹ جانے کا صدمہ بھی مکمل طور پر کبھی نہیں بھول پاتا۔ یہ لاشعوری طور پر دوسرے لوگوں سے ملتے ہوئے ان خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتاہے۔ لوگ وگ کیوں پہنتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسانو ں کو اس طرح سے پیدا کیا گیا ہے کہ ہر ایک میں کچھ نہ کچھ خامیاں موجود ہیں۔ نفس کے پاس جب علم نہیں ہوتا تو ان کمیوں سے اس کے اندر ایک شدید غم پیدا ہوتا ہے۔

احساسِ کمتری ظاہری شکل و صورت سے لے کر نسل اور بچپن کی شدید غربت سے لے کر بولتے ہوئے ہکلانے تک کہیں بھی، کسی بھی رنگ میں ہو سکتاہے۔ بعض اوقات یہ ایسی خیالی ذاتی خامیوں پر مشتمل ہوتاہے، جو درحقیقت پائی ہی نہیں جاتیں۔ علاج علم اور صبر میں ہے۔ صبر خود بھی علم کا مرہونِ منت ہوتاہے لیکن علاج تو تب ہوتاہے، جب انسان پہلے اپنے اندر کی کسی خامی سے آگاہ ہو اور وہ علاج چاہتا بھی ہو۔ انسانوں کی ایک عظیم تعداد تو یہ سمجھ ہی نہیں پاتی کہ وہ کیوں احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ علاج کہاں سے ہو؟

اپنا تبصرہ بھیجیں