رمضان اور اسلامی اقدار
رمضان المبارک اپنی تمام تر برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ عالم اسلام پر سائیہ افگن ہے اور اہل ایمان اس کی بابرکت ساعتوں سے متمتع ہو رہے ہیں. آج امت کو جتنے بھی درپیش مسائل ہیں ان میں اسلامی اقدار کا تحفظ بہت ہی اہم مسئلہ بن چکا ہے۔اسلامی اقدار کے تحفظ کی تناظر میں ماہ رمضان المبارک کو جب دیکھا جائے تو ہم پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رمضان المبارک ہماری روایات کے تحفظ کا بہترین ضامن ہے -آج کی اس گلوبل دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کارپوریٹ سرمائے نے انسان کو اس کے اصلی مقام سے گرا کر بہت ہی نیچے جا پھینکا ہے-آج کی جدید معاشیات صارف کو بادشاہ کہتی ہے۔اس بادشاہ کے من میں جو بات آئے اسے پورا کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا جاتا ہے چاہے اس کے لیے وہ فائدہ مند ہو یا نقصان دہ ۔نفس کی اصلاح کا کوئی معقول انتظام آج کی اس دنیا میں ہمیں کہیں پہ بھی نظر نہیں آتا۔رمضان المبارک کے روزے نفس انسانی کی اصلاح کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں ۔اگر اپ نفسیات پر کام کرنے والوں کا کام دیکھیں تو آپ کو ان کی تعلیمات میں نفس کی تسکین کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔انہوں نے انسانوں کے نفس کی تسکین کی بات کی ہے مگر اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے انسانی نفس کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار کی بھی بات کی ہے ۔یہی اقدار اسلامی اقدار کہلاتی ہیں اور انہی اقدار نے اسلامی تہذیب کو بھی تخلیق کیا ہے۔آج دنیا صرف تعلیم و تعلم کی بات کرتی ہے اور تعلیم سے انسانی اقدار کے تصور کو نکال دیا گیا ہے ۔لیکن اسلام صرف تعلیم ہی کی بات نہیں کرتا بلکہ انسانی زندگی کے ہر شعبے کو اسلامی روایات سے بھرپور طور پر مرصع اور مسجع دیکھنا چاہتا ہے۔رمضان المبارک کو شھر مواسات بھی کہا گیا ہے کہ یہ غم خواری کا مہینہ ہے
جب آپ نفس انسانی کی تسکین کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ انسان کی حیوانیت کی طرف رہنمائی کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی تسکین کرے چاہے وہ حلال سے کرے یا حرام سے کرے ۔ماہرین نفسیات کی اس سوچ نے انسانی اقدار کو تباہ کر دیا ہے بلکہ انسان کے احسن تقویم کے لبادے کو تار تار کر کے اسے اسفل السافلین میں پھینک دیا ہے۔آج انسان حیوانوں کے ساتھ جفتی کرتا ہوا نظر آتا ہے تو اس کے پیچھے اس کے نفس کی تسکین کار فرما ہے ورنہ کوئی مہذب معاشرہ اور اس معاشرے کا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں سوچ سکتا
اسلام نے انسانی نفس کے مختلف مراحل بیان کیے ہیں جن میں سے ایک نفس امارہ ہے جو انسان کو صرف برائی پر ابھارتا ہے ۔قرآن حکیم میں سیدنا یوسف علیہ السلام نے جو اپنی نفسیاتی کیفیت کو بیان فرمایا وہ بڑی اہم ہے اور قرآن کا انداز بیان بھی بہت ہی دو ٹوک ہے کہ انہوں نے اپنی نفسیاتی کیفیت کو یوں بیان کیا ۔وماابری نفسی ان النفس لامارۃ بالسوء الا مارحم ربی ان ربی غفورالرحیم(یوسف:53)ترجمہ:اور میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا یقینا نفس انسانی برائی کا ہی حکم دیتا ہے سوائے اس کے کہ جس پر میرا رب رحم فرمائے.بے شک میرا رب بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.
یہ نفس امارہ تو صرف اور صرف برائی کا ہی حکم دیتا ہے اس لیے اگر اس سے بچنا مقصود ہو اس کا واحد ذریعہ رحمت خداوندی ہے
اسلام کا انسان انسانی اقدار اور انسان کے حوالے سے اسلوب یہ ہے کہ اس نے انسانی نفس کی اصلاح کی بات کی ہے اور پھر نفس انسانی کی تسکین کی بات بعد میں کی ہے -اسلام پہلے نفس کی اصلاح چاہتا ہے اور پھر اس کے بعد تسکین کی بات کرتا ہے -اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بہت واضح انداز میں بتا دیا ہے کہ تمہارے نفس کی تسکین دنیا کی ان عارضی چیزوں میں نہیں ہے کیونکہ اس دنیا میں جن چیزوں سے تم محبت کرتے ہو یا عشق کرتے ہو وہ بالکل عارضی ہیں -اگر تم اپنی روح کو ہمیشہ کے لیے تسکین دینا چاہتے ہو تو پھر اس ذات سے آپ کو محبت و عشق کرنا پڑے گا جو ہمیشہ رہنے والی ہے -اسی لیے فرمایا الابذکر اللہ تطمئن القلوب۔(الرعد :28)
ترجمہ:خبردار رہو کہ اللہ کے ذکر سے ہی دل سکون پاتے ہیں.
انسانی اقدار میں سب سے بڑی قدر صبر ہے مصائب و شدائد کو اطمینان و سکون کے ساتھ برداشت کرنے کا سبق ہمیں ماہرین نفسیات کی تعلیمات میں کہیں نظر نہیں آتا – یہ اسلام ہی ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو ہر مشکل میں صبر اور شکر یا صبر اور بارگاہ خداوندی میں جھک کر مدد لینے کی تلقین کی ہے۔خدائے بزرگ و برتر نے ارشاد فرمایا واستعینوا بالصبر والصلوۃ(القرآن)یعنی صبر اور نماز کے ذریعہ سے مدد طلب کرو..…اسلام نے انسانی زندگی کو صبر و شکر سے روشناس کرانے کے لیے ایک پورا مہینہ رمضان المبارک کی صورت میں ہمیں عطا فرمایا -یہ مہینہ انسانوں کو صبر سکھاتا ہے اس مہینے سے بڑھ کر دنیا میں کوئی ایسا عمل نہیں ہو سکتا جو انسانوں کو دوسروں کے لیے مصائب و آلام جھیلنے کی عملی تربیت دیتا ہو
آج اسلام مخالف ایوانوں میں زلزلہ بپا ہے کہ ہم اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دے کر انسانیت کو ڈراتے ہیں لیکن جس کو ہم دہشت گرد مذہب کہہ رہے ہیں وہ شب و روز اپنی خوبصورت اقدار کی وجہ سے ہمارے معاشروں کے انسانوں کے دلوں کو مسخر کر رہا ہے-آج اسلام مخالف معاشرے اس کسم پرسی کا شکار ہیں کہ اگر باپ بیٹا ایک گاڑی میں سوار ہیں تو باپ اپنا کرایہ ادا کرتا ہے جب کہ بیٹا اپنا کرایا خود ادا کرتا ہے مگر اسلام رمضان المبارک کے ذریعے سے ہمیں عام انسانوں کے ساتھ بھی مالی تعاون کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اس کی عملی تربیت دیتا ہے اس ماہ مکرم میں انفاق فی سبیل اللہ کو ہم اپنے کمال درجے پر دیکھتے ہیں -اس مذہب کے بانی اور شارع علیہ الصلاۃ والسلام کا اپنا عمل یہ تھا کہ وہ تیز ہواؤں کی مانند اس مبارک مہینے میں انسانوں پر بے دریغ خرچ کیا کرتے تھے
رمضان المبارک میں فحش گفتگو سے سختی سے منع کیا گیا ہے بلکہ فحاشی اور منکر سے عام دنوں میں بھی دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے -حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی بے حیا اور فحش گفتگو کرنے والے شخص سے نفرت کرتا ہے —-اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: البذا من الجفا والجفافی النار.:ترجمہ: فحش گوئی خدا سے بد عہدی ہے اور بدعہد جہنم میں جائے گا
یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کا روزہ رکھنے والے شخص کو اس سے سختی سے روکا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جو شخص فحش گوئی سے نہیں رکتا اللہ سبحانہ و تعالی کو اس کے پیاسے اور بھوکے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
اعلی اخلاق اسلامی روایات و تہذیب کی بنیادی شناخت ہے سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلی اخلاق سے نوازا گیا اور اس ماہ مکرم کے روزہ مسلمانوں پر فرض کر کے ان کی اعلی اخلاقی تربیت کا ایک بڑا انتظام کیا گیا ہے -اللہ سبحانہ و تعالی نے مسلمانوں میں رمضان اور قرآن کے ذریعے اعلی اخلاقی روایات پیدا کی تاکہ مسلمان اس زمین پر اپنے رب کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے دوسری قوموں کے لیے اخلاقیات میں ایک معیار کی حیثیت حاصل کر سکے -مسلمان تو وہی ہوگا جو اپنی روایات کی پاسداری کرے گا جو اپنی روایات کو چھوڑ کر دوسرے مذاہب کی روایات کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس میں اور عام انسان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا