754

ان شاء اللہ کہنے کی حکمت و اہمیت مُحمد نادروسیم

ان شاء اللہ کہنے کی حکمت و اہمیت
مُحمد نادروسیم
اللہ تعالی قادر مطلق ہے، ہر کام اس کی مشیئت سے انجام پذیر ہوتا ہے۔ ہر کام میں اس سے استعانت طلب کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔یہی درس دینے کے لیے قرآن کریم میں (6) مقامات پر ان شاء اللہ کا کلمہ وارد ہوا ہے۔سورۃ التکویر میں ہے۔(وما تشاؤن الا ان یشاء اللہ رب العلمین)(التکویر:27)یعنی اور تم تو تب ہی چاہو گے کہ جب اللہ چاہے گا، جو تمام جہان کا رب ہے۔پیر کرم شاہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر ضیاء القرآن میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تم از خود اس کی خواہش بھی نہیں کرسکتے جب تک توفیق الہی دستگیری نہ کرے، فہم و خرد کے سارے چراغ بجھے رہتے ہیں، راہ راست پر ایک قدم بھی نہیں اٹھ سکتا، جب اس کی نظر لطف چارہ سازی کرتی ہے تو سب حجاب اٹھ جاتے ہیں، ساری رکاوٹیں دور جاتی ہیں انسان پوری یکسوئی کے ساتھ اس منزل کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالی اپنے محبوب مکرم کا خود ہی معلم، خود ہی مربی اور خود ہی مؤدب ہے۔چنانچہ سورۃ الکہف میں نبی اکرم ﷺسے یوں خطاب فرمایا ہے۔(ولا تقولن لشیء انی فاعل ذلک غدا الا ان یشاء اللہ….الخ) “اے حبیبﷺ! اگر آپ یہ ارادہ کریں کہ کل آپ فلاں کام کریں گے تو یوں مت کہو کہ کل میں ایسا کروں گا “۔اس سے “ان شاء اللہ” کہنے کی اہمیت واضح ہوئی کہ اگر امام الانبیاءﷺکو بھی یہ حکم ہے کہ ہر کام میں ان شاء اللہ ضرور فرمایا کریں تو یہاں سے ہمیں اندازہ لگانا ہو گا کہ بارگاہِ رب العزت میں اس پر کتنی تاکید فرمائی گئی ہے۔ بلاشبہ کسی کے پاس وسائل کی کتنی فراوانی ہو اگر اللہ تعالی نہ چاہے تو اس کی ساری مساعی بے اثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔ہر چیز کے وقوع پذیر ہونے کا انحصار اسی کی مشیت پر ہے۔
سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کا قصہ بیان ہوا ہے جب اللہ تعالی نے انہیں ایک جرم کی پاداش میں ایک مخصوص حلیہ والی گائے جو چند صفات سے متصف ہو،ذبح کرنے کا حکم دیا تووہ اسے قریہ قریہ تلاش کرتے رہے ایسا کرنے میں انہیں بڑی دقت بھی ہوئی اور کامیابی بھی حاصل نہ ہوئی لیکن جب انہوں نے کلمہ “ان شاء اللہ” کہا تو ان کو اللہ کی طرف سے اہنمائی حاصل ہوئی اور بالآخرمطلوبہ گائے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے۔ قرآن کریم میں ان کا حال یوں بیان ہوا ہے۔(قالوا ادع لنا ربک یبین لناماھی ان البقر تشبہ علینا وانا ان شاء اللہ لمھتدون) یعنی آپ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کیجیے کہ وہ ہمیں یہ بیان کرے کہ اس کے اوصاف کیسے ہیں؟ بے شک گائے ہم پر مشتبہ ہو گئی ہے اور بیشک اگر اللہ نے چاہا تو ہم ضرور ہدایت پاجائیں گے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ یہ کلمہ نہ کہتے تو قیامت تک یہ معاملہ ان پر واضح نہ ہوتا۔معلوم ہوا کہ ان شاء اللہ کہنے کی برکت سے کام جلدی اوربطریق احسن مکمل ہوتا ہے کیونکہ جب تک انہوں نے ا ن شا ء اللہ نہیں کہا گائے تک نہیں پہنچ پائے۔ قرآن میں حضرت موسی علیہ السلام کے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ وعدہ کو یوں بیان کیا گیا ہے۔(قَالَ سَتَجِدْنی اِن شَاء َ اللَّہْ صَابِرًا وَلَا اَعصِی لَک اَمرًا)کہا عنقریب اللہ چاہے تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں تمہارے کسی حکم کے خلاف نہ کروں گا۔]الکہف: 69[.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاجوج و ماجوج ہر روز (اپنی دیوار) کھودتے ہیں یہاں تک کہ جب قریب ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی ان کو دکھائی دے تو جو شخص ان کا سردار ہوتا ہے وہ کہتا ہے: اب لوٹ چلو (باقی) کل کھودیں گے، پھر اللہ تعالیٰ اسے ویسی ہی مضبوط کر دیتا ہے جیسی وہ پہلے تھی، یہاں تک کہ جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی، اور اللہ تعالیٰ کو ان کا خروج منظور ہو گا، تو وہ (عادت کے مطابق) دیوار کھودیں گے جب کھودتے کھودتے قریب ہو گا کہ سورج کی روشنی دیکھیں تو اس وقت ان کا سردار کہے گا کہ اب لوٹ چلو، ان شاء اللہ کل کھودیں گے، اور ان شاء اللہ کا لفظ کہیں گے، چنانچہ (اس دن) وہ لوٹ جائیں گے، اور دیوار اسی حال پر رہے گی، جیسے وہ چھوڑ گئے تھے، پھر وہ صبح آکر اسے کھودیں گے اور اسے کھود کر باہر نکلیں گے (سنن ابن ماجہ:4080)
آپ ﷺنے حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا کہ ایک دن انہوں نے کہا: آج رات میں نوے عورتوں کے پاس جاؤں گا ان میں سے ہر عورت ایک شہسوار بچے کو جنم دے گی جو (بڑا ہو کر) اللہ کی راہ میں لڑائی کرے گا۔ تو ان کے ساتھی نے ان سے کہا: ان شاء اللہ کہیں۔ انہوں نے ان شاء اللہ نہ کہا۔ وہ ان سب کے پاس گئے تو ان میں سے ایک عورت کے سوا کوئی حاملہ نہ ہوئی اور اس نے بھی آدھے بچے کو جنم دیا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺکی جان ہے! اگر وہ ان شاء اللہ کہہ دیتے تو وہ سب گھوڑوں پر سوار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے۔ معلوم ہوا کہ اگر آپ ان شاء اللہ کہہ دیتے تو مراد پا لیتے۔ (صحیح مسلم)
ان سطور سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ ادب کا تقاضا ہے کہ انسان ہر کام کو اللہ تعالی کی مشیئت پر موقوف سمجھے، اس سے اللہ تعالی کی مدد اور توفیق حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی کام اس وقت تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا جب تک اللہ کی مشیئت نہ ہو، اس لئے ہر انسان کو اپنی زندگی کا نصب العین بنانا چاہیے کہ مستقبل میں کوئی کام کرنا ہوتوان شاء اللہ ضرور کہا کرے