ilme kalam kaisay janam leta hai 387

علم کلام کیسے جنم لیتا ہے؟

علم کلام کیسے جنم لیتا ہے؟

واضح کیا گیا کہ علم کلام کا مطلب درست عقیدے کی وضاحت ہے اور اس کی بنیاد توحید ہے۔ جس طرح علم فقہ کے ماہرین (جنہیں مجتہد کہا جاتا ہے) نصوص کی تعبیر کے لئے ایسے اصول معلوم کرتے ہیں کہ نصوص کا ظاہری تضاد رفع ہوجائے نیز نفس مسئلہ درست طور پر سامنے آجائے (اجتہاد کے اس عمل کو اصول فقہ کی زبان میں “بیان” کہتے ہیں) اسی طرح علمائے متکلمین کا کام نصوص سے ایسے اصول اخذ کرنا ہے جن سے ایک طرف نصوص کا ظاہری تضاد رفع ہوجائے اور دوسری طرف نفس مسئلہ کی درست وضاحت بھی ہوجائے۔ علم کلام کے اس موضوع، ضرورت اور ارتقاء کو سمجھنے کے لئے سورہ فاتحہ اور بقرہ کے ابتدائی دو رکوع کا مطالعہ کرتے ہیں کہ ان کے مطالعے سے عقیدے سے متعلق کیسے وہ سب سوالات جنم لیتے ہیں جو علم کلام کا موضوع ہیں۔ یہاں صرف ایسی مثالوں کا ذکر کیا جائے گا جو واضح ہیں اور آیات کی فرسٹ ریڈنگ سے پیدا ہوسکتے ہیں:

1) سورہ فاتحہ کا مطالعہ شروع کرتے ہی آیت آتی ہے: “الحمد للہ” جس کا مفہوم “تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں” بنتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ کے علاوہ کسی کی تعریف کرنا جائز ہے؟ کیا یہ شرک ہوگا یا نہیں؟ ذرا آگے بڑھے تو آیت آگئی “ایاک نستعین”۔ سوال پیدا ہوا کہ کیا غیر اللہ سے استعانت کلیتا ناجائز ہے؟ اگر نہیں تو کس اصول کے تحت

2) سورہ بقرہ کی تلاوت شروع کرتے ہی الفاظ آگئے: “الم”۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان الفاظ کا کوئی معین معنی ہیں؟ اگر نہیں تو کیا خدا بندوں سے ایسی گفتگو کرتا ہے جن کا کوئی معنی ہی نہیں؟ یعنی کیا خدا کا کلام (صفت الہی) بے معنی ہوسکتا ہے؟

3) پھر آیت آگئی “الذین یؤمنون بالغیب”۔ اسے پڑھ کر سوالات پیدا ہوئے کہ

– ایمان سے کیا مراد ہے اور کیا نہیں؟ کیا اعمال ایمان میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں؟

– “بالغیب” میں کونسے امور شامل ہیں؟ کیا تمام تفاصیل اس میں شامل ہیں جیسے خدا کا بندوں کے فعل کا خالق ہونا نیز بندوں کا کاسب ہونا یا پھر یہاں صرف اجمالی امور کی بات ہورہی ہے جن پر ایمان لے آنا “مفلحون” میں شمولیت کے لئے کافی ہے؟

4) آیت آگئی “یقیمون الصلوۃ”۔ سوال اٹھا کہ کیا صلوۃ کی ادائیگی نہ کرنے والا صاحب ایمان ہوگا (متعدد نصوص میں بظاہر ایمان کی نفی آئی ہے)؟

5) پھر آیا “اولئک علی ھدی من ربہم” نیز “ختم اللہ علی قلوبہم”

– یہ آیات پڑھتے ہی مسئلہ تقدیر کی پیچیدگیاں جنم لینے لگیں گی اور کہنے والے کو تین میں سے ایک بات کہنا پڑے گی: (1) سب کچھ اللہ کرتا ہے بندہ مجبور محض ہے، (2) سب کچھ بندہ کرتا ہے اور اللہ اعمال کا خالق بھی نہیں (3) خدا اعمال کو خلق کرتا ہے اور بندہ ان کا فاعل اور کاسب ہے

– ایک ضمی سا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا علم کا ماخذ “قلب” ہے یا ذھن؟

6) پھر آیا “ولہم عذاب الیم”۔ سوال پیدا ہوا کہ کیا خدا پر واجب ہے کہ کافر کو اس کے کفر کی سزا دے؟ یا آیات وعید کسی امر سے مشروط بھی ہیں؟

7) من الناس من یقول آمنا باللہ وبالیوم الاخر وما ھم بمؤمنین۔ یہاں منافقین کا ذکر ہورہا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ “اقرار باللسان” کرنے والے کسی شخص کے ایمان کی نفی کردیں؟ یہ بحث پھر “ایمان کیا ہے اور کیا نہیں” کی طرف لوٹ جائے گی

8) آگے آیت آئی “اللہ یستہزء بہم”۔ سوال پیدا ہوا کہ اللہ کے استہزاء کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا وہ بھی بندوں کی طرح استہزاء کرتا ہے جیسا کہ آیت سے بظاہر لگتا ہے؟

9) پھر آیا “واللہ محیط بالکافرین” سوال پیدا ہوا کہ خدا کا احاطہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ کیا خدا تین جہات میں آکر احاطہ کرتا ہے؟

10) “ان اللہ علی کل شیء قدیر”۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں “کل” سے کیا مراد ہے؟ کیا خدا اپنے جیسا خدا بنانے پر بھی قادر ہے؟ کیا خود انسان بن جانے پر بھی قادر ہے؟ کیا خدا جھوٹ بولنے پر قادر ہے؟ کیا وہ ہر اس فعل کی ادائیگی پر قارد ہے جو بندے سرانجام دیتے ہیں؟

یہ دس مسائل صرف تین رکوع کے مطالعے سے سامنے آجاتے ہیں۔ ان سوالات سے واضح ہے کہ یہ کوئی فرضی مسائل نہیں ہیں بلکہ حقیقی ہیں اور تفسیر و تاویل قرآن کرتے ہوئے انہیں ملحوظ رکھنا لازم ہے اور سب مفسرین ایسا کرتے ہیں۔ علمائے اسلام اپنی انتھک محنت کے بعد ایسے اصول وضع کرگئے ہیں جن کی روشنی میں ان آیات کا درست مفہوم متعین کرنا آسان ہوجاتا ہے ورنہ عین انہی آیات کو پڑھ کر درجنوں قسم کی گمراہ کن آراء پیدا ہوچکی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو آج یہ دیگ پکی پکائی مل گئی ہے اور انہوں نے کسی مدرسے میں تعلیم سے یا عالم کی کتاب سے انہیں پڑھ و سمجھ رکھا ہے وہ بڑے مزے سے گویا ہوتے ہیں: “آخر علم کلام کی ضرورت ہی کیا ہے؟” گویا یہ سب امور ہمیشہ سے از خود واضح تھے اور ان میں کسی دوسری رائے کا امکان ہی نہیں۔