234

زمانہ تمہارا دوست نہ ہو تو اس سے جنگ کرو!

زمانہ تمہارا دوست نہ ہو تو اس سے جنگ کرو!
لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

الحمد اللہ! ہر صبح میرے لئے ایک نیا چیلنج لے کر طلوع ہوتی ہے اور چیلنج یہ ہوتا ہے کہ آج کس موضوع پر کالم لکھا جائے۔ مَیں عمر کی اس منزل میں ہوں جب آپ بچپن، لڑکپن،جوانی اور ادھیڑ عمری کے مرحلوں سے گزر آتے ہیں اور بڑھاپے کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔یہ منزل ایک انمول خدائی نعمت ہے۔ آپ کی پشت پر برس ہا برس کے دُنیاوی تجربات ہوتے ہیں۔تعلیم، ملازمت، شادی، بچوں کی پیدائش، ان کی تعلیم و تربیت، ان کی شادی/شادیاں، رنج و الم، شادمانی و یار باشی، دوستوں، عزیز و اقربا اور اپنی جان سے پیاروں کی مستقل جدائیوں کا غم، ثواب و گناہ کی ترغیبات، ذاتی تجربات کے پیچ و خم اور نہ جانے کیا کیا اَن دیکھی اور دیکھی انہونیاں سب کی سب آپ کی نظروں کے سامنے گزر جاتی ہیں۔بعض باتوں پر آپ کا اختیار اور بعض پر بے اختیاری، آپ کو تجربات کا ایک مخزن بنا دیتی ہے۔مَیں تو جب عین عنفوانِ شباب میں صبح بیدار ہوتا تھا تو ایک ناگفتنی سا احساس استقبال کرتا تھا اور کہتا تھا:”صبح بخیر“!……کافی کچھ دیکھا، سنا، لکھا اور پڑھا۔ اپنے اختیار اور بے اختیاری کا ذکر اوپر کر چکا ہوں لیکن ان کا مجسم تجربہ اسی وقت ہوتا ہے جب آپ پر مختلف کیفیاتِ شادی و غم گزرتی ہیں۔

مذہب کی تاریخ پڑھی اور دُنیا بھر کے مذاہب کا ”موٹا موٹا“ جائزہ لینے کی توفیق بھی خدا نے ارزانی فرمائی اور ساتھ ہی دُنیا بھر کی زبانوں کے ادبِ عالیہ کی ”سن گن“ سے بھی متاثر ہوا۔ نظم و نثر کے عالمی ادب پاروں کے وسیع و عریض سمندروں کے ساحلوں پر گھومنے کے مواقع ملے، شعر و سخن کی محافل ِ شبینہ اٹینڈ کیں بلکہ خود بھی ان کا حصہ بننے کے مواقع عطا ہوئے۔ مَیں نے جب پہلی بار کالج کے طلبا اور طالبات کو ادب و شعر سے روشناس کروانے کی پروفیشنل ذمہ داریوں کا آغاز کیا تو یہ ایک بالکل انوکھا تجربہ تھا۔ 22،23 برس کا ایک نو عمر ٹیچر جب اپنے سامنے اپنے (تقریباً) ہم عمر طلباء کو بیٹھا دیکھتا ہے تو یہ سرشاری ناقابل ِ فراموش ہوتی ہے۔مَیں نے دو برس تک اس کا بھرپور تجربہ کیا۔ سارا سارا دن صرف ایک پیریڈ کی تیاری کرنے میں گزر جایا کرتا تھا۔ کالج کی لائبریری سے استفادہ کی وہ لَت بھی میرے فوج جوائن کرنے کے بعد ملٹری سٹیشن لائبریریوں کے چکر لگانے اور ان کو کھنگالنے کے کام آئی۔

بخدا مَیں آپ کو سچ بتا رہا ہوں کہ اس عالمِ شباب میں بھی مجھ پر عالم ِ پیری میں پیدا ہونے والے اس احساس کے دورے پڑا کرتے تھے کہ اگر مَیں آج اللہ کو پیارا ہو گیا تو مجھے کون یاد کرے گا؟ کیا کروں کہ مرنے کے بعد زندہ رہ سکوں؟ بڑے بڑے لوگ کیسے زندہ رہتے تھے؟ کون سی فیلڈ ایسی ہے جس میں مغز ماری کروں تو شاید لوگ مرنے کے بعد بھی یاد رکھیں۔بڑے بڑے تاجدارانِ عالم، پیر، پیغمبر، ولی، اولیا اور خدا کے نیک بندے، سائنس دان، موجد، فوجی کمانڈر، فلسفی، شعرا و ادبا، مصنفین، مورخین اور وہ عظیم شخصیات جو بعد از مرگ زندہ ہیں ان کی طرح مَیں کس فیلڈ اور کس شعبے میں ایسا کام کر جاؤں کہ لوگ کہیں کہ ایک ”جیلانی مرحوم“ بھی ہوتا تھا، اس نے یہ کیا، یہ تیر مارا اور یہ کارنامہ انجام دیا۔…… رحیم یار خان کے نواح میں ایک نہر بہتی تھی اور مَیں ہر سہ پہر وہاں ڈیڑھ دو گھنٹے تک سیر کیا کرتا تھا اور یہی سوچتا رہتا تھا کہ نہر کے پانی کی لہریں ابھرتی بھی ہیں اور ڈوب بھی جاتی ہیں۔……مَیں جب ڈوبوں گا تو کس طرح ابھروں گا؟…… آپ بے شک اسے میرا دیوانہ پن کہہ لیں۔ان ایام میں مَیں خود اپنے آپ کو پاگل ہی سمجھتا تھا۔ کالج کے ہاسٹل میں واپس آتا تو ہم جولیوں میں اپنے ”افکار“ کے تجربوں کا ذکر نہیں کیا کرتا تھا مبادا وہ لیبل لگا دیں کہ جیلانی صاحب دیوانگی کے عارضے میں مبتلا ہیں۔

پھر فوج میں آیا تو یہ دُنیا ہی اور تھی۔ مَیں اگرچہ ”آرمی ایجوکیشن کور“ میں بھرتی ہوا تھا اور اس کور کے بیشتر افسران دو اداروں میں پائے جاتے تھے…… ایک ملٹری کالج سرائے عالمگیر میں اور دوسرے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں۔ان کے علاوہ ایک تیسراSlot اور بھی تھا اور وہ تھا فارمیشن ہیڈ کوارٹروں (بریگیڈ، ڈویژن، کور اور جی ایچ کیو) میں بطور سٹاف آفیسر تعینات کیا جانا اور فارمیشن کی ایجوکیشن ٹریننگ کی نگرانی اور نگہداری کرنا…… یہ تدریسی نہیں،انتظامی فریضہ تھا۔ اور مَیں انہی فرائض کی ادائیگی میں فوج میں ”در بدر“ گھومتا رہا۔ اس سے ایک فائدہ ہوا کہ معلوم ہو گیا کہ افواجِ پاکستان کے تنظیمی ڈھانچوں میں کمانڈ، سٹاف اور انسٹرکشن کے مراحل کیسے طے ہوتے ہیں۔طبیعت میں چونکہ حصولِ معلومات کی وافر پیاس تھی اس لئے جہاں بھی جاتا وہاں کی ”تاریخ، جغرافیہ، ثقافت اور روایات“ کی خبریں لینے کی کوشش کرتا۔اصطلاح میں اس کاوش کو ملٹری ہسٹری کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس کا ایسا چسکا پڑا کہ ساری ”فوجی عمر“ اسی دشت کی سیاحی میں گزار دی۔ اپنا وہ ماضی جو شعر و ادب، غیر عسکری موضوعات و معاملات اور ان موضوعات کی تاریخ جاننے میں گزرا تھا، یہاں فوج میں آ کر اسے فراموش کر دینا پڑا۔مَیں نے دیکھا کہ یہ پروفیشن زندگی اور موت میں سے ایک کو گلے لگانے کا پروفیشن ہے۔ اس پروفیشن میں آپ کو زندگی کی عظیم ترین روایات سننے،دیکھنے اور برتنے کا موقع ملتا ہے۔
مَیں اپنے پاگل پن کا ایک اور واقعہ بھی آپ کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں۔…… اول اول جب یونیفارم میں کپتانی کا تیسرا پھول ٹانکا گیا تو مَیں ایجوکیشن کور میں ہوتے ہوئے یہ خواب دیکھا کرتا تھا کہ کہیں سے سلیمانی ٹوپی میرے ہاتھ آ گئی ہے۔ مَیں نے وہ زیب ِ سر کر لی ہے اور انڈین آرمی کےGHQ میں جا گھسا ہوں۔ ہاتھ میں ایک ایسا ریوالور ہے جس میں گولی چلنے سے آواز نہیں نکلتی۔مَیں ایک ایک کر کے سب انڈین جرنیلوں کو تہہ تیخ کر دیتا ہوں اور پھر پرائم منسٹر ہاؤس کا رخ کرتا ہوں۔ وہاں مسز اندرا گاندھی اپنے کمرے میں دفتر لگائے ٹیلی فون پر احکامات دے رہی ہے۔مَیں اندر داخل ہو کر اس کو بھی ”کیفر کردار“ تک پہنچا کر واپس باہر نکل آتا ہوں۔لیکن دہلی سے لاہور تک کا فاصلہ چونکہ خاصا طویل ہے اس لئے ٹرین بدل بدل کر آخر واہگہ تک آتا ہوں اور وہاں سے پیدل لاہور پہنچ جاتا ہوں۔گھر آ کر وہ ”کلاہِ سلیمانی“ ایک بریف کیس میں رکھتا ہوں اور جب صبح اٹھتا ہوں تو پاکستانی میڈیا میں طوفان آیا ہوتا ہے کہ انڈین آرمی کی ساری قیادت بمعہ وزیراعظم اندرا گاندھی کسی ”نامعلوم قاتل“ کی گولیوں کا نشانہ بن گئی ہے!…… اللہ اللہ خیر سلّا!!

لیکن جب حقیقی صبح ہوتی ہے اور حقیقی زندگی کا آغاز ہوتا ہے تو گاڑی سٹارٹ کرنے سے پہلے ناشتہ کی میز پر بیٹھا بیٹھا یہ سوچتا ہوں کہ اگر یہ خواب مَیں نے اپنے کسی سینئر کو سنا دیا تو وہ میرا دماغی معائنہ کروانے کی سفارش کرے گا اور100% یقین ہے کہ فوج سے فارغ خطی مل جائے گی!…… خدا کا شکر ہے کہ یہ بخار ہولے ہولے اتر گیا اور مَیں حقائق کی دُنیا میں آ گیا، جس میں ”پاکستان کی حیثیت اقوامِ عالم میں کیا ہے“ جیسے موضوعات پر غورو خوض کرنے لگا۔ آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ دُنیا کی جن اقوام نے ترقی کی ہے انہوں نے اپنے خزانے اور اپنے ترکش کو سب سے پہلے بھرا ہے اور اس میں عمریں صرف کر دی ہیں۔ان کی ملٹری ہسٹری اس کی شاہد عادل ہے اور ہم پاکستانی تو اپنی ”مسلم ملٹری ہسٹری“ سے بھی نابلد ہیں!…… میری سمجھ میں یہ بات آنا شروع ہوئی کہ سب سے پہلے قوم کو خزانے اور فوج سے بھرنے کا اہتمام کرنا چاہئے،لیکن وہ اقتصادیات کیسے؟……

ہماری قوم تو خزانے (اقتصادی) اور فوج (دفاع) سے یکسر بے بہرہ ہے۔ صرف چند پروفیشنل ہیں جو یہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ باقی قوم کا بیشتر طبقہ یہ جانتا ہی نہیں کہ یہ دونوں باتیں تعمیر ِ قوم کے لئے کس قدر ضروری ہیں …… چنانچہ مَیں نے فیصلہ کیا کہ قوم کو ان دونوں موضوعات سے باخبر کیا جائے۔ لیکن یہ دونوں موضوعات چونکہ انگلش میں تھے اس لئے قوم کی اکثریت ان سے نابلد اور ناواقف ہے۔مَیں نے سوچا کیوں نہ ان موضوعات کو اس زبان میں قوم کے سامنے رکھا جائے جس کو وہ زیادہ بہتر طور پر جانتی ہے۔ اقتصادیات کا علم تو ایک ٹیکنیکل علم تھا۔ مَیں اگر اس علم میں کسی منزل کا مسافر ہوتا تو شاید اسی کو اختیار کر لیتا۔ لیکن دوسرا موضوع دفاع تھا۔ اس کو اردو میں بیان کرنا اگرچہ مشکل تھا لیکن خیال آیا اس سلسلے میں کوشش کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اللہ کا نام لیا اور آغاز کر دیا اور معلوم ہوا کہ:

جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے

خوبی ئ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے

ثم ّ الحمد للہ! آج عمر کی اس منزل میں ہوں کہ زندگی کی روائتی منازل سے گزر آیا ہوں، ہر صبح سوچتا ہوں کہ آج کس موضوع پر قلم اٹھاؤں، کیا نیا عنوان تلاش کروں، کسی ایسی خبر پر تبصرہ کروں جو پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کرے، کسی کو یہ خواب نہ آئے کہ اس کو ”کلاہِ سلیمانی“ کی ضرورت ہے۔…… آج کے ہر پاکستانی کی کلاہِ سلیمانی یہی ہے کہ وہ خواب کی دُنیا سے نکل کر حقیقت کی دُنیا میں آ جائے اور ”زمانہ با تو نساز و تو باز مانہ ستیز“ پر عمل کرے!