253

کیا مسئلہء افغانستان کا حل قریب آ گیا ہے؟

کیا مسئلہء افغانستان کا حل قریب آ گیا ہے؟
لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

امریکی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جو خفیہ خط افغان صدر کے نام لکھا گیا تھا اور جس کی ایک نقل طالبان کو بھی بھیجی گئی تھی اس کے لیک ہونے کا قصہ گزشتہ قسط میں بیان ہو چکا۔ اس خط کے مندرجات بہت واضح بلکہ بلنٹ ہیں۔ اشرف غنی سے جواب مانگا گیا ہے کہ وہ یکم مئی سے پہلے پہلے اس خط کا جواب دیں۔ اس میں جس عبوری حکومت کا ذکر کیا گیا ہے اور جس میں طالبان کو بھی شامل کرنے کا تذکرہ ہے تو اس سے بڑھ کر ڈائریکٹ وارننگ شاید ہی کوئی اور ہو سکتی ہے۔ امریکہ افغانستان سے نکلنے سے پہلے اس سرزمین میں امن و امان کی فضا دیکھنے کا خواہاں ہے لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟

20برس سے جن طالبان نے امریکہ اور ناٹو فورسز کو ناکوں چنے چبوائے ہوں وہ امریکی ٹروپس کے انخلاء کے بعد کیا اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ’سربراہی‘ تسلیم کر لیں گے؟ اور ہاں امریکی انتظامیہ بھی اتنی سادہ لوح نہیں ہے۔

امریکہ کو معلوم ہے کہ جونہی امریکی انخلا مکمل ہوا، اگلے روز اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ انخلا بھی مکمل ہو جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس ”کالیا“ کا کیا بنے گا جو افغانستان کے کوچہ و بازار اور کوہ و دمن میں بیٹھا ہوا ہے اور جسے طالبان اور پاکستان قیامِ امن کا ”مسٹر بگاڑو“ (Spoiler) کا نام دیتے ہیں؟…… یہ بگاڑو، انڈیا کے نام سے وہاں موجود ہے اور اس کی موجودگی کو دوام دینے کے لئے امریکی انتظامیہ نے ایک اور شوشہ چھوڑا ہے جس کا ذکر کل کے کالم کی آخری سطر میں کیا گیا تھا۔

یہ امریکی شوشہ وہ تجویز ہے جو امریکہ نے انڈیا کو خوش کرنے کے لئے پیش کی ہے اور اسے افغانستان کا ’ہمسایہ‘ قرار دیا ہے اور اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ افغان مسئلے کے حل کے لئے ایک متحدہ (Unifield) اپروچ کی ضرورت ہے جو علاقائی ممالک سے بات چیت کے ذریعے زیرِعمل آ سکتی ہے…… بندہ پوچھے، انڈیا کب سے افغانستان کا ہمسایہ ہے۔ پاکستان نے اس امریکی تجویز پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان مذاکرات میں صرف وہی ممالک شامل ہو سکتے ہیں جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہوں۔ چین، روس، ایران اور پاکستان کی سرحدیں تو افغانستان سے ملتی ہیں اور امریکہ چونکہ خود یہاں آکر بیٹھا ہوا ہے اس لئے اس کا سٹیک بھی اس تجویز میں ظاہر و باہر ہے۔ لیکن انڈیا کا سٹیک کیا ہے اور وہ کب سے افغانستان کا ہمسایہ بنا ہے؟ اگر انڈیا نے افغانستان کی کسی ”ترقی و تعمیر“ میں کوئی ”چندہ“ ڈال بھی دیا ہے تو یہ چندہ تو ناٹو کے دوسرے ممالک بھی عرصہ ء دراز سے ڈال رہے ہیں۔ تو پھر ان کو بھی اس بات چیت میں شامل کیا جائے۔ امریکہ ایک عرصے سے انڈیا کو آمادہ کر رہا ہے کہ وہ براہِ راست طالبان سے بات کرے لیکن اگر انڈیا، طالبان لیڈرز سے بات کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وہ اشرف غنی کی حکومت میں طالبان کو حصہ دار گردانتا ہے۔ اور اشرف غنی کبھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ انڈیا، طالبان سے براہِ راست مخاطب ہوں۔ لیکن صاحبو! اب تو امریکہ نے بھی طالبان کو ’براہِ راست‘ تسلیم کر لیا ہے۔ اپنے خط میں اس نے تسلیم کیا ہے کہ افغانستان کے نصف حصے پر طالبان قابض ہیں اور باقی نصف پر اشرف غنی حکومت کا کنٹرول ڈانواں ڈول اور برائے نام ہے۔ ایسی صورتِ حال میں امریکہ کا اقوام متحدہ کو افغانستان میں قیامِ امن کی متحدہ کوششوں میں انڈیا کو بھی ایک فریق بنانے کا مشورہ/ تجویز ایک عجیب و غریب تضاد ہے۔
لیکن امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ جب افغانستان سے بیک بینی و دوگوش بوریا بستر سمیٹ لے تو اس کے مفادات کی حفاظت کرنے والا بھی تو کوئی وہاں ہو۔ اور انڈیا سے بڑھ کر ’کوئی اور‘ بھلا امریکہ کا طرفدار ہو سکتا ہے؟…… چین، امریکہ کا حریف ہے اور انڈیا، امریکہ کا حلیف ہے یعنی امریکہ اور انڈیا دونوں چین کے حریف ہیں …… دوسری طرف چین، پاکستان کا حلیف ہے اور انڈیا، پاکستان کا حریف ہے۔ تو یہ مساوات یوں بنتی ہے کہ امریکہ اور انڈیا ایک طرف اور چین اور پاکستان دوسری طرف…… یہاں تک تو معاملہ سمجھ میں آتا ہے لیکن جب افغانستان کا قضیہ درمیان میں آئے تو معاملہ الجھ جاتا ہے۔ انڈیا، افغانستان کا ہمسایہ نہیں اور اگر اقوام متحدہ کی چھتری تلے مذاکرات ہونے ہیں تو ان میں صرف افغانستان کے ہمسایوں کو شامل کیا جائے۔

پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر کئی بار میڈیا پر آکر کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں اگر امن قائم کرنا ہے تو امن کا اصل بگاڑو تو انڈیا ہے۔ اس کو یہاں سے نکالا جائے…… خود بھیڑیا، بھیڑوں بکریوں کی رکھوالی / حفاظت کیسے کر سکتے ہے؟ معید یوسف بار بار کہہ چکے ہیں کہ انڈیا، افغانستان کی سرزمین میں بیٹھ کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف جو کچھ کرتا رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے اس کا ثبوت پاکستان نے اقوام متحدہ کو فراہم کر دیا ہے۔ وہ ڈوزیر نکال کر دیکھ لیا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ کیا انڈیا، افغانستان میں امن کے قیام کا خواہاں ہے یا امن کی ہر کوشش کو سبوتاژ کرنے پر کمربستہ رہا ہے (اور ہے)…… اگر آج افغانستان میں امن قائم ہو جائے تو انڈیا کو کون پوچھے گا؟ اس کی حالت وہی ہو گی جو فارسی کے ایک مقولے میں بیان کی گئی ہے کہ: ”کَس نمی پرسد کہ بھیّا کیستی!“

’حلفاً کہہ رہا ہوں کہ امپائر اب نیوٹرل ہو چکے‘ مریم نواز کی جانب سے نام لیے بغیر بلاول بھٹو کو سلیکٹڈ کا متبادل قرار دینے کے بعد نبیل گبول کا رد عمل
امریکی وزیر خارجہ نے حال ہی میں جو خفیہ خط افغان صدر کے نام لکھا ہے اس میں اقوام متحدہ کے توسط سے ہونے والی ایک کانفرنس کی تجویز بھی ہے…… یہ مجوزہ کانفرنس درج ذیل چار پہلوؤں کو محیط ہوگی:

1۔ کانفرنس اقوام متحدہ کی طرف سے بلائی اور عمل میں لائی جائے گی۔

2۔افغان حکومت اور طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے درمیان ترکی میں بات چیت ہو گی۔

3۔ افغانستان کے طول و عرض میں 90روز تک کوئی تشدد انگیز جھڑپ نہیں ہو گی۔

4۔کابل میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے گی جس میں طالبان کی نمائندگی بھی ہوگی۔
اس امریکی تجویز پر ابھی تک اشرف غنی حکومت کا ردعمل نہیں آیا۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ یہ تجویز ہنوز حکومت کے زیرِ غور ہے اور جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو وہ بھی شاید اشرف غنی حکومت کے جواب کے منتظر ہیں۔

یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ میڈیا میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ پاکستان نے باقاعدہ امریکی انتظامیہ کو مطلع کر دیا ہے کہ اسے اس مجوزہ اقوام متحدہ کانفرنس میں انڈیا کی شمولیت پر شدید تحفظات ہیں۔ اس نے باقاعدہ تحریری طور پر جوبائیڈن انتظامیہ کو اطلاع دی ہے کہ: ”ہم اس اقوام متحدہ کانفرنس میں انڈیا کو مدعو کرنے کے شدید مخالف ہیں۔ کیا کوئی ’تخریبی‘ بگاڑو (Spoiler) افغانستان میں کسی بھی قسم کا ’تعمیری‘ رول ادا کر سکتا ہے؟“ حال ہی میں مسٹر زلمے خلیل زاد نے (اسلام آباد کا) جو تازہ ترین دورہ کیا تھا اس میں بتا دیا گیا تھا کہ پاکستان کو اس امریکی تجویز پر شدید تحفظات ہیں۔ اس دورے میں زلمے خلیل زاد کے ہمراہ افغانستان میں امریکی فورسز کے سینئر ترین کمانڈر جنرل آسٹن سکاٹ مِلر Austin Scot Miller بھی موجود تھے۔ اس بات چیت میں پاکستان کی طرف سے جو وفد شامل تھا اس میں درج ذیل حضرات شامل تھے:

1۔ جنرل قمر جاوید باجوہ …… آرمی چیف

2۔لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید…… ڈی جی ISI

3۔جناب محمد صادق…… مسئلہ افغانستان پر پاکستان کے خصوصی سفیر

4۔ ڈاکٹر معید یوسف…… مشیر قومی سلامتی

اس کے علاوہ اپنے طور پر آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس موضوع پر 50منٹ تک امریکی وزیر خارجہ مسٹر بلنکن سے بات چیت کی۔ یہ بات چیت چونکہ بعض حساس اور جیوسٹرٹیجک موضوعات کو محیط تھی اس لئے اس کا تذکرہ کسی امریکی یا پاکستانی ابلاغی ادارے نے نہیں کیا…… خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ، پاکستان کے یہ تحفظات انڈیا تک پہنچائے گااور ان کاجو جواب بھی موصول ہو گا اس کی خبر بھی پاکستان کو دے گا اور دوسری طرف امریکہ خود بھی پاکستان کو اس کے تحفظات کم یا دور کرنے کی کوشش کرے گا۔

انڈیا، افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف جو کارروائیاں کر اور کروا رہا ہے اس کے وافر ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ یہ تازہ ثبوت پاکستان نے امریکی وفد کو شاید اس لئے بھی فراہم نہیں کئے ہوں گے کہ اس طرح انٹیلی جنس کے وہ سوتے جو پاکستان کو فی الوقت فراہم ہیں اور جن کی بنیاد پر وہ (بالخصوص بلوچستان میں) دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے، وہ خشک ہو جائیں گے۔(ختم شد)