اشرافیہ کی باندی 226

لانگ مارچ، مریم نواز اور نیب کی پھرتیاں

لانگ مارچ، مریم نواز اور نیب کی پھرتیاں
نسیم شاہد
صاحبو! نیب کے وہ سب دلائل درست ہو سکتے ہیں جو اس نے مریم نواز کی ضمانت منسوخ کرانے کے لئے لاہور ہائیکورٹ میں دی گئی اپنی درخواست میں پیش کئے ہیں۔ مگر میرے دماغ کی سوئی اس نکتے پر اٹک گئی ہے کہ یہ خیال نیب کو اس وقت کیوں آیا جب پی ڈی ایم کے لانگ مارچ میں گیارہ دن باقی رہ گئے ہیں۔ مریم نواز ضمانت پر تو کب سے رہا ہو چکی ہیں، اس دوران انہوں نے بہت سے جلسے بھی کئے، ریلیاں بھی نکالیں، سخت تقاریر بھی کیں، ووٹ کو عزت دو والا بیانیہ بھی بڑھ چڑھ کر بیان کیا۔ آخر نیب کو ضمانت منسوخی کا خیال کیوں نہیں آیا۔

اب جبکہ 26 مارچ کو پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ہونا ہے، مریم نواز نے پنجاب کے قافلے کی قیادت کرنی ہے، تو نیب کو اچانک یہ درخواست دینی پڑی کہ مریم نواز تفتیش میں تعاون نہیں کر رہیں سب کو یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک بار نیب لاہور نے مریم نواز کو طلب کیا تھا ان کی وہ طلبی ہنگامے کی نذر ہو گئی تھی، کیونکہ مریم نواز کے استقبال اور ان کے ساتھ آنے والوں کی پولیس سے جھڑپ ہو گئی اور نیب نے اپنے دفتر کا گیٹ بند کر کے خود ہی یہ کہہ دیا تھا کہ اب مریم نواز شریف کا بیان ریکارڈ نہیں کیا جائے گا۔ اس دن کے بعد سے نیب نے مریم نواز کو بلانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ مگر اب ہائیکورٹ میں درخواست دے کر اس نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے ضمانت منظور کرتے ہوئے مریم نواز کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ نیب سے تفتیش کے معاملے میں تعاون کریں مگر وہ نہیں کر رہیں، اس لئے ان کی ضمانت منسوخ کی جائے۔

ہر کام میں وقت کا انتخاب بڑی اہمیت رکھتا ہے اس معاملے میں نیب کا ریکارڈ یہ رہا ہے کہ وہ چن چن کر ایسے وقت کا انتخاب کرتا ہے، جو اس شبے کو تفویت دے کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے کوئی احمق سے احمق آدمی بھی اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ نیب نے مارچ کے مہینے میں ہی کیوں ضمانت منسوخی کی درخواست دائر کی ہے اس سے پہلے نیب نے مریم نواز کو کتنی بار طلبی کا نوٹس دیا ہے۔ اگر طلبی کا نوٹس ہی نہیں دیا تو یہ بات کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے کہ مریم نواز سے نیب سے تعاون نہیں کر رہیں پھر ایسی فوری جلدی بھی کیا تھی، جہاں نیب نے سال ڈیڑھ سال انتظار کیا وہاں 26 مارچ گزرنے کا انتظار بھی کر سکتا تھا تاکہ یہ تاثر نہ ابھرے کہ لانگ مارچ میں مریم نواز کی شرکت روکنے کے لئے نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے ہمیں تو آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ نیب اگر سیاسی انجینئرنگ میں ملوث نہیں تو سیاسی حالات کو دیکھ کر فیصلے کیوں کرتا ہے۔ وہ اپنی ٹائمنگ کو غیر سیاسی کیوں نہیں رکھتا۔ نیب کو صرف قانونی معاملات تک محدود رہنا چاہئے، مگر وہ سیاسی تبصرے بھی کرتا ہے اور الزامات بھی لگاتا ہے ضمانت پر تو اور بھی رہنما ہیں، وہ سیاست بھی کر رہے ہیں اور حکومت کے خلاف سخت بیانات بھی دیتے ہیں کیا وجہ ہے کہ نیب ان کی ضمانتیں منسوخ کرانے کے لئے متحرک نہیں ہوتا، اس کی نگاہِ کرم صرف مریم نواز پر مرکوز ہو جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم نواز کو نیب سے تعاون کرنا چاہئے،

اس کے بلاوے پر انہیں نیب افسران کے سامنے پیش ہو کر لگائے گئے الزامات کی وضاحت کرنی چاہئے، مگر یوں لگتا ہے کہ جیسے نیب مریم نواز کی ایک بار کی گئی طلبی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا ہے اور اب آزاد مریم نواز کی بجائے گرفتار مریم نواز سے تفتیش کرنا چاہتا ہے۔ مگر کیا صرف اس بنیاد پر ضمانت منسوخ کی جانی چاہئے، کیا صرف اس لئے کسی کو آزادی سے محروم کیا جا سکتا ہے کہ تفتیشی ادارہ کسی آزاد ملزم کا بیان ریکارڈ کرنے سے قاصر ہے۔ حمزہ شہباز کو ابھی کچھ ہی دن پہلے ڈیڑھ سال بعد ضمانت پر رہائی ملی ہے، اگر کچھ عرصے بعد نیب یہ درخواست دائر کر دے کہ حمزہ شہباز تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے ان کی ضمانت منسوخ کی جائے تو کیا احمقانہ بات نہ ہو گی، جو شخص اتنے طویل عرصے تک آپ کی حراست میں رہا، اس وقت ساری تفتیش مکمل کیوں نہ کی گئی؟

چند روز پہلے سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مریم نواز کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، اگر انہیں کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ہو گی۔ نیب نے تو ضمانت منسوخی کی درخواست اب دائر کی ہے، یہ خبریں اور افواہیں تو کئی ہفتوں سے جاری ہیں کہ مریم نواز کی گرفتاری کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ خیال یہ تھا کہ مریم نواز کی گرفتاری کسی اور مقدمے میں ہو گی مگر یہاں تو گھوم پھر کے قرعہ پھر نیب کے نام ہی نکلا کہ وہ مریم نواز کی ضمانت منسوخ کرائے، یہ معاملہ اب چونکہ عدالت میں ہے، اس لئے اس کا فیصلہ اب وہیں سے آئے گا تاہم اس موقع پر نیب نے یہ قدم اٹھا کر اپنی ساکھ کو مزید متنازعہ بنا لیا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے حکومت اور پی ڈی ایم میں خوب ٹھنی ہوئی ہے سینٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اس نے ماحول کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے، اس سے پہلے ضمنی انتخابات میں مریم نواز نے بھرپور انتخابی مہم چلا کر نہ صرف نوشہرہ کی نشست جیتی بلکہ ڈسکہ میں بھی حکومتی امیدوار کو تقریباً دیوار سے لگانے میں کامیاب رہیں۔ اب پھر ڈسکہ میں ضمنی انتخاب ہونا ہے، ظاہر ہے ایک بار پھر مریم نواز وہاں جلسے کریں گی اور اس بار ان کا بیانیہ پہلے سے بھی زیادہ سخت ہوگا کہ اب ان کے پاس ووٹ چرانے کے ساتھ ساتھ بندے غائب کرنے کا بیانیہ بھی موجود ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 26 مارچ کو شروع ہونے والے لانگ مارچ میں لاہور سے جانے والے قافلے کی قیادت مریم نواز کریں گی اور یہ غالباً لانگ مارچ کا سب سے بڑا قافلہ ہوگا اس کا باقاعدہ اعلان ہو چکا ہے اور شیڈول آ چکا ہے۔ ایسے میں نیب اگر 15 دن انتظار کر لیتا اور لانگ مارچ گزرنے دیتا تو اس کا ضمانت منسوخ کرانے کا یہ عمل اتنے کھلے طور پر سیاسی نہ کہلاتا، جتنا اب نظر آ رہا ہے۔

چیئرمین نیب جاوید اقبال کے دعوے اپنی جگہ کہ نیب ایک غیر سیاسی ادارہ ہے، اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں مگر شعوری یا غیر شعوری طور پر نیب ایسے اقدامات اٹھاتا ہے، جو اس کی ساکھ پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن جاتے ہیں مریم نواز کے خلاف اس موقع پر ضمانت منسوخی کی درخواست بھی ایک ایسا ہی فیصلہ ہے، جس نے خاص طور پر اپوزیشن کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ نیب سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور مریم نواز کی موجودہ حالات میں ضمانت منسوخی کا مقصد اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ کو ناکام بنایا جائے۔