اشرافیہ کی باندی 203

کیسا بساط بچھ چکی ہے؟

کیسا بساط بچھ چکی ہے؟
نسیم شاہد

قومی سیاست میں ایک خاص نوعیت کی تلخی عام آدمی بھی محسوس کر رہا ہے۔ تین دن لاہور میں گزرے تو اس شہر کی فضاؤں میں بھی اس تلخی کی بو باس موجود تھی۔ اسلام آباد کے ڈی چوک میں مسلم لیگی رہنماؤں پر جو جوتے چلے اور تھپڑ برسے وہ اس تلخی کو بڑھا گئے ہیں۔ویسے تو پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان انتہا درجے کی محاذ آرائی ہمیشہ ہی جاری رہتی ہے، یہ آج کی نہیں کئی دہائیوں کی روایت ہے، مگر بات زبانی کلامی حد تک رہتی، یہ تضحیک جواب دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اس نے اس سیاست کو محاذ آرائی سے بڑھ کر دشمنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ مَیں اور خواجہ اقبال جوہرٹاؤن کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کے لئے گئے تو تقریباً ہر میز پر بیٹھے ہوئے لاہوریئے جن میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی سیاست کی گرم بازاری میں الجھے ہوئے تھے۔ ساتھ والی میز پر بیٹھے نوجوانوں میں اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کو اسلام آباد میں جوتا پھینکنے کا جواب لاہور میں دینا چاہیے یا نہیں۔ مریم نواز نے جس طرح احسن اقبال کو جوتا مارنے کو بدترین واقعہ قرار دیا ہے، وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بات بہت آگے چلی گئی ہے۔ ان کے اس بیان پر بھی تبصرے ہو رہے تھے کہ وزیراعظم عمران خان بغیر پروٹوکول کے عوام میں جا کر دکھائیں انہیں پتہ لگ جائے گا۔ عوام کتنے بھرے بیٹھے ہیں، عوام کا تو پتہ نہیں، البتہ یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ مسلم لیگی بھرے بیٹھے ہیں اور کوئی دن ہی جاتا ہے کہ کسی جگہ اس جوتے کا جواب سامنے آ جائے گا۔

وزیراعظم عمران خان کے پاس ایک بہت اچھا موقع تھا کہ وہ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد درجہ حرارت کم کرنے کے لئے ایک مفاہمانہ تقریر کرتے، سوشل میڈیا پر آج کل ایک وڈیو پوسٹ بہت دیکھی جا رہی ہے، جن میں بے نظیر بھٹو اور عمران خان کی اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد کی گئی تقریروں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ بے نظیر بھٹو اپنی تقریر میں اعتماد کا ووٹ ملنے پر اس طرح جوش میں نہیں آ جاتیں جس طرح وزیراعظم عمران خان آئے، بلکہ وہ یہ کہتی ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک سے ملک ہل جاتا ہے۔یہ کوئی مذاق نہیں، ہمیں ایسی محاذ آرائی سے بچنا چاہیے۔دوسری طرف عمران خان کی تقریر کا کلپ چیخ چیخ کر بتاتا ہے کہ وزیراعظم اس اعتماد کے ووٹ کو اور زیادہ قوت سے اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو، لٹیرے ثابت کرنے کا موقع سمجھتے ہیں۔ جناب مجیب الرحمن شامی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ازراہ تفنن وزیراعظم عمران خان کے اس جملے پر تبصرہ کرنے کو کہا کہ اپوزیشن رہنماؤں کی شکلوں سے لگتا ہے کہ یہ غدار ہیں۔ مَیں نے کہا اس ملک میں مخالفین کو غدار کہنے کی رسم تو بہت پرانی ہے، لیکن یہ ملکہ صرف عمران خان میں دیکھا ہے کہ وہ شکل دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ کون محب وطن اور کون غدار ہےّ دنیا میں شاید بڑی سے بڑی خفیہ ایجنسی والوں میں بھی یہ صلاحیت نہ ہو کہ وہ شکل دیکھ کر کسی کے غدار ہونے کا فیصلہ کر سکیں،

یہ ہمارے کپتان کی چھٹی حس ہے جو انہیں کسی کی شکل دیکھ کر غداری کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی صلاحیت بخشتی ہے۔ اب کپتان کو کون سمجھائے کہ سرکار یہ کام پہلے ہی بہت ہو چکا ہے۔ یہ کام اب بند ہونا چاہیے، کوئی غدار نہیں سب محب وطن ہیں۔ بس سیاست کو سیاست سمجھئے اور اپنی کارکردگی سے مخالفین کو مات دیجئے۔ اس غداری کے کھیل نے پاکستان کو انتشار اور تلخیوں کے سوا کچھ نہیں دیا، جس وقت کپتان اسمبلی میں تقریر کر رہے تھے، انہیں ہلہ شیری دینے والوں کا جوش و خروش دیدنی تھا، وہ اس طرح ڈیسک بجا رہے تھے جیسے آج کے بعد اپوزیشن کا نام و نشان تک مٹ گیا ہے۔ کیا محاذ آرائی کو بڑھانا کسی حکمران کے مفاد میں ہو سکتا ہے۔ کوئی عقل کا اندھا ہی اس کا جواب اثبات میں دے گا، مگر یہاں کپتان کے کھلاڑی نہ صرف خود اپوزیشن پر چڑھ دوڑتے ہیں، بلکہ وزیراعظم عمران خان چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کی اصطلاحیں استعمال کریں تو دیوانہ وار پُرجوش تماشائیوں کی طرح داد دیتے ہیں۔

اس بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کی آگ پر پانی ڈالنے والا دور دور تک کوئی نظرنہیں آتا۔اپوزیشن خوش ہے کہ یہ محاذ آرائی آخری حدوں کی طرف بڑھ رہی ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ وزیراعظم عمران خان اعتماد کے ووٹ کو ایک ٹرننگ پوائنٹ بناتے، اچھا موقع تھا کہ وہ اپنی تقریر میں مفاہمت کی بات کرتے۔ اس کی بجائے انہوں نے ایسی فاتحانہ تقریر فرمائی، جو شائد ورلڈکپ جیتنے کے بعد بھی ہارنے والی ٹیم کے خلاف نہ کی ہو، شاید یہ اسی تقریر کا اثر تھا کہ اسمبلی کے باہر ڈی چوک پر جمہوری رویوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں۔ تشدد اور جوتے بازی ہو رہی تھی۔ یہ ملک پہلے ہی عدم برداشت کا شکار ہے، ایسے رویوں کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ ہو چکا ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ قومی اسمبلی اب پُرامن انداز سے چلائی جا سکے گی۔

کیا اس کا اجلاس منعقد ہو سکے گا؟ بہت ناممکن سی بات لگتی ہے۔ یہ تو اپوزیشن نے اعتماد کا ووٹ لینے والے سیشن کا بائیکاٹ کر دیا، اگر وہ ایوان میں رہنے کا فیصلہ کرتی تو شاید یہ ممکن ہی نہ ہوتا کہ سپیکر کارروائی مکمل کر سکتے۔ پھر تو ہنگامہ آرائی ہی ہونی تھی اور انتشار نے آسمان کو چھو لینا تھا۔اپوزیشن رہنما اعتماد کے اس ووٹ کو جعلی اور غیر آئینی قرار دے رہے ہیں، جبکہ حکومت اسے اپنی فتح سمجھتی ہے، اس سارے عمل میں قومی اسمبلی سینڈوچ بن گئی ہے۔ یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ جن 16ارکان اسمبلی نے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دیا ہے، وہ اس ووٹ کے بعد غداری کے الزام سے بری ہو گئے ہیں یا ان پر ابھی تک تلوار لٹک رہی ہے۔ یہ ارکان تو بڑے چھپے رستم نکلے کہ باغباں کو بھی خوش کیا اور صیاد کو بھی راضی کر گئے۔

لاہور کی فضاؤں میں یہ چہ میگوئیاں بھی سنیں کہ پنجاب میں تبدیلی آنے والی ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دن گنے جا چکے ہیں۔ ویسے تو عثمان بزدار کے بارے میں یہ باتیں شروع دن سے کی جا رہی ہیں، مگر ان باتوں اور آج کی چہ میگوئیوں میں بہت فرق ہے۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ کپتان عثمان بزدار کو تبدیل کر دیں گے۔ کپتان ہر بار اس کی تردید کرتے اور عثمان بزدار کی پیٹھ تھپتھپاتے رہتے تاہم اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن مرکز کی بجائے پنجاب میں عدم اعتماد کے ذریعے تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ اس ساری گیم میں چودھری کی لاٹری نکل سکتی ہے۔ شنید ہے کہ پیپلزپارٹی تو اس فارمولے کے لئے تیار ہے کہ پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ دے دی جائے، مگر مسلم لیگ (ن) اس کے سخت خلاف ہے۔

وہ حمزہ شہباز کے نام پر اس تبدیلی کے حق میں ہے، لیکن جب تک مسلم لیگ (ق) ساتھ نہ دے، یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ یہ آصف علی زرداری کا نظریہ ء تبدیلی ہے کہ وقتی طور پر نقصان بھی اٹھانا پڑے تو بڑے مقصد کے لئے اٹھا لیا جائے۔ اگر پنجاب میں چودھری برادری کو وزارتِ اعلیٰ دینے سے دراڑ پڑ سکتی ہے تو یہ سودا ان کے نزدیک بُرا نہیں، اس کے اثرات مرکز تک جائیں گے، مگر مسلم لیگ (ن) پنجاب میں چودھریوں کا سکہ دوبارہ جمتا نہیں دیکھنا چاہتی۔ دیکھتے ہیں اس بساط پر کس کی جیت کس کی ہار ہوتی ہے، البتہ بساط بچھ ضرور گئی ہے۔