206

اب اور نہیں کرسکتے

اب اور نہیں کرسکتے
احسن ضیائ

پیغام بہت واضح ہے،اب او ر نہیں کرسکتے۔بہت ہوا، اب بناء بیساکھیوں کے لڑو۔ہم اس طرح تمہارا ساتھ نہیں دے سکتے جس طرح اب تک دیتے آئے ہیں۔ خود بھی کچھ کرکے دیکھاؤ۔ڈھائی سال کا عرصہ کم تو نہیں ہوتا۔ اب محض زبانی جمع خرچ سے نہیں چلے گا۔سینٹ میں متحدہ اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی جیت اور حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کی شکست نے بہت کچھ طشت ِازبام کردیا ہے۔اشارہ بہت واضح ہے کہ ملک کے مقتدر حلقوں کی سوچ میں واضح تبدیلی آچکی ہے۔ورنہ کسے یاد نہیں کہ اس سے قبل چیرمین سینٹ کے الیکشن میں کیا کچھ ہوا ہوچکا ہے۔خود اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت چکرا کر رہ گئی تھی کہ کچھ گھنٹے پہلے وفاداری کا یقین دلانے والے ان کے کئی اراکین کیسے پس پردہ حکومت سے مل گئے۔وہ کیا محرکات تھے اور وہ کونسی قوتیں تھیں جنہوں نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا؟ یقینا اپوزیشن کی’بیک ڈور ڈپلومیسی‘ اس حد تک تو کارگر رہی کہ ان قوتوں نے اس بار اْس شد و مد کے ساتھ حکومت کو الیکشن جتوانے میں وہ کردار ادا نہیں کیا جو ماضی میں انکا خاصا رہا ہے اورجس کے حوالے سے اپوزیشن جماعتیں ان پر الزام لگاتی رہی ہیں۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری کی سینٹ الیکشن کے حوالے سے ایک روز قبل میڈیا سے کی گئی گفتگو کے دوران انکی پریشانی دیدنی تھی جو اس امر کی بھرپور غمازی کرر ہی تھی کہ حکومتی ’ایمپائر‘ کے نکل جانے سے حکومت کے پاؤں تلے زمین بھی سرک چکی ہے۔ سینٹ اور اس سے قبل حال ہی میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج بتارہے ہیں انتہائی کمزور مینڈیٹ کی حامل پاکستان تحریک انصاف کی کمزور حکومت کے لئے آنے والا د خاصی مشکلات سے بھرپور ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کے لئے بطور وزیر اعظم اسمبلیوں میں پانچ سال پورے کرنا گویا جائے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔کچھ حلقے سینٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی جیت کو ان پر عدم اعتماد کے طو ر پر بھی لے رہے ہیں۔بہرحال خفیہ رائے شماری میں آصف علی زرداری خوب کھیلے۔وہ مقتدر قوتوں کو آن بورڈ لینے اور پاکستا ن مسلم لیگ نواز سمیت پی ڈی ایم جماعتوں کے سڑک کی احتجاجی سیاست سے نکال کر اپنے پیچھے لگانے کامیاب نظر آئے۔

اگر حکومت کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو آپ کو چار کھونٹ محض وعدے، باتیں او ر طفل تسلیاں ہی نظر آئیں گی۔کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ اگر کچھ کرنے کا ارادہ ہو تااور ایسا کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی تو کم و بیش ڈھائی سال کا عرصہ تھوڑا تو نہیں تھا۔اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ نہ تو ارادہ تھا اور نہ ہی صلاحیت موجود ہے۔رہی باتیں اور وعدے، تو انکا مقصد عوام کو محض سہانے خواب دیکھا کراقتدار کا حصول تھا۔ سو وہ مل گیا، اور پھر وہی پرانی روش جس پر موجودہ اہل اقتدار و اختیار کے بہت سے پیش رو چلے۔اقتدار کو مضبو ط کرنے کے لئے اپوزیشن کو دیوار سے لگانا اور ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے کا استعمال۔حکومت نے اب تک جتنی توانائیاں ’میں نہ مانوں‘اور مخالفین کو دبانے میں صرف کی ہیں اگریہ حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود اور انکی محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے صرف کی ہوتیں تو یقینا چاہے مکمل تبدیلی نہ آتی، اسکے کچھ نہ کچھ مثبت نتائج ضرور برآمد ہوچکے ہوتے۔موجودہ حکمران شاید اس مغالطے میں مبتلا ہے کہ چونکہ عوام کی یاداشت ذرا کمزور ہوتی ہے اس لئے وہ بہت جلد اپنے ساتھ رونما ہونے والے بڑے سے بڑے حوادث بھول جاتے ہیں۔اس بار بھی شاید کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ لیکن ایسا نہیں ہے، عوام کچھ بھی نہیں بھولتے۔وہ اس کے برعکس سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور و بے بس ضرور ہوتے ہیں۔

تاہم موقع ملنے پر وہ اپنے کا غصے کا اظہار کبھی کبھار سڑکوں پر آکر یا الیکشن میں ووٹ کے ذریعے سے کرتے ہیں۔ کون نہیں جانتا ہے کہ موجودہ اقتدار میں آنے سے قبل حکومت نے عوام کے سامنے جو الیکشن ایجنڈا رکھا اس میں سرفہرست کرپشن کا خاتمہ، ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے وطن واپس لانا اور عوام کی حالت زار بدلنا تھا۔عوام کو انصاف کی فراہمی، پولیس و عدالتی اصلاحات، تعلیم و صحت کی سہولیات اور باعزت روگار کی فراہمی بھی حکومتی ترجیحات میں شامل تھیں۔وزیر اعظم عمران خان اور انکے وزراء و مشیران کی فوج ظفر موج الیکشن سے قبل اور اقتدار میں آنے کے بعد ان ترجیحات کا ذکر اپنے ہر بیان اور تقریر میں تسلسل کے ساتھ کرتے نظر آئے۔تاہم عوام کیلئے پچاس کروڑ نوکریاں اور بچاس لاکھ گھروں کا وعدہ اب کسی لطیفے سے کم نظر نہیں آتا۔

شکر تو اس با ت پر بھی ہے حکومت نے سوختہ حال پاکستانیوں کے سامنے یہ اراگ الاپنے سے کم از کم توبہ نہ سہی، فی الحال زبان بندی ضرور کرلی ہے۔لوگ بھی اس پر چپ سادہ کر بیٹھ گئے ہیں کہ چلو اچھا ہے، انہیں مزید بے وقوف تو نہیں بنایا جائیگا۔مختلف اوقات میں متعدد ملکی و غیر ملکی اور سرکار و غیرسرکاری اداروں کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق ماضی کے برعکس گزشتہ ڈھائی سالوں کے دوران پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری نے مزید پنجے گاڑھے ہیں جنہوں نے عام پاکستانی کو گھمااور ہلا کر رکھ دیا ہے۔عام پاکستانی چکی کے دو پاٹوں میں پس کر رہ گئے ہیں۔انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ وہ آکر جائیں تو کہاں جائیں۔اور کریں تو کیا کریں۔

خط ِغربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس امر کا اعتراف محکمہ شماریات پاکستان اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان اپنی کئی رپورٹس میں کرچکے ہیں۔حکومت کے پاس کوئی واضح معاشی پالیسی نظر نہیں آتی۔بظاہر سارا زور مخالفین اور مخالف آوازوں کو دبانے میں نظر آتا ہے۔ آزادی رائے پر غیر محسوس طریقے سے جس انداز میں قدغن لگائی جارہی ہے اس سے تو ملکی میڈیا اور اس سے وابستہ افراد ہانپتے اور کانپتے نظر آتے ہیں۔پرنٹ میڈیا کا گلہ تو تیزی سے دبایا ہی جارہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو بھی اپنے سر پر لٹکتی تلوار صاف نظر آرہی ہے۔رہی پولیس اصلاحات تو ڈسکہ الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ اس امر کی شاہد ہے کہ تبدیلی تو دور کی بات اس کا رویہ اور قبلہ تو مزید بگڑ گیا ہے۔

سرعام گولیوں چلتی رہیں اور پولیس دم سادھے بیٹھی رہی۔ یقینا محض متعلقہ آر پی او، ڈی پی او اور ڈی سی ہی اس لاقانونیت کے ذمہ دار نہیں بلکہ انہیں ہدایات دینے والے ان کے اعلیٰ افسران اور انکے سیاسی آقا میں اس میں شامل ہیں۔انکی نشاندھی ہونا بھی ضروری ہے۔تاہم یہ امر ہنوز حل طلب ہے کہ کیا کبھی ایسے طاقتور سرکاری افسران کے خلاف کبھی کوئی ٹھوس کاروائی ہوسکے گی بھی یا نہیں؟ جہاں تک معطلی یا تبدیلی کا سوال ہے تو یہ کوئی سزا نہیں۔ ایسے میں حکمرانوں کو یہ حقیقت ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ رب ذو الجلال و الاکرام کے علاوہ کائنات میں کسی کے اقتدار کو دوام نہیں اسلئے انہیں اپنی توجہ عوام کی فلاح و بہبود پر مرکوز رکھنی چاہیے