فرح علی بے 157

فرح علی بے: مریخ پر زندگی کی تلاش میں مصروف ناسا کی سسٹمز انجینیئر کون ہیں

فرح علی بے: مریخ پر زندگی کی تلاش میں مصروف ناسا کی سسٹمز انجینیئر کون ہیں

’ایک انجینیئر کی حیثیت سے میں اپنے والد کی طرح دل لگا کر کام کرتی ہوں جبکہ میری ایک خواہش یہ ہے کہ جو جنون میری والدہ نے مجھ میں پیدا کیا وہ میں اپنی کمیونٹی کو واپس دے سکوں۔‘

امریکہ کے خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کے مریخ پر زندگی کی تلاش کرنے والی ریموٹ کنٹرولڈ خلائی گاڑی ‘پرسیویئرنس’ کو زمین سے کنٹرول کرنے والی ٹیم کی سربراہ فرح علی اب اس سوال کا جواب تلاش کریں گی کہ کیا کائنات میں انسان جیسی کوئی اور مخلوق بھی موجود ہے؟

چند روز پہلے جب ناسا کی خلائی گاڑی پرسیویئرنس کے مریخ کی فضا میں داخل ہونے کے وہ سات منٹ فرح علی کی زندگی کا طویل ترین مرحلہ تھا۔ زمین سے بھیجی گئی اس گاڑی کے سُرخ سیارے پر اترنے کے چند منٹوں کے بعد کینیڈا کے شہر مونٹریال میں پیدا ہونے والی ناسا کی اس سسٹم انجینیئر کی سانس میں سانس آئی اور انھوں نے شکر ادا کیا۔

ناسا کی ’جیٹ پروپلشن لیبارٹری‘ میں کام کرنے والی فرح کہتی ہیں کہ ان کے سامنے اس منصوبے کا اگلا کام وہ مشکل مرحلہ ہے جس میں وہ مریخ پر اترنے والی اس خلائی گاڑی کی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے یہ جاننے کے لیے رہنمائی کر رہی ہیں کہ آیا مریخ پر ماضی میں کسی زندگی کے امکان تھے، ‘یہ تلاش کرنا میرے لیے ایک اعزاز ہے۔’

انسان کے ذہن میں قدیم دور سے جو سوال موجود ہے فرح نے اُس سوال کا جواب تلاش کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ‘کیا انسان کائنات میں اپنی نوعیت کی ایک تنہا مخلوق ہے؟’ فرح کہتی ہیں کہ ‘یہ ایسا سوال ہے جس پر انسان اگر ہزاروں برس سے نہیں تو کم از کم سینکڑوں برس سے غور کر رہا ہے۔

‘یہ کہنا کہ میں اُس ٹیم کا حصہ ہوں جو اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ایسا سوال جس کا جواب دینا تو درکنار، اِسے اٹھانا بھی مشکل سمجھا جاتا ہے اور اس کے بارے میں کوئی رائے رکھنا بھی خاصی دقت کا کام ہے۔ یہ سب کچھ ناقابلِ یقین لگتا ہے۔’

ناسا کی ویب سائٹ کے مطابق وہ کینیڈا کے شہر مونٹریال میں پیدا ہوئیں، انھوں نے ہائی سکول کی تعلیم انگلینڈ کے شہر مانچسٹر سے حاصل کی اور پھر کیمبرج یونیورسٹی سے ڈگری لی۔

ناسا کی ویب سائٹ کے مطابق اپنی پیدائش اور اعلیٰ تعلیم کے درمیان انھوں نے کچھ عرصہ مڈغاسکر میں اپنے آبائی قصبے میں بھی گزارا اور وہ بتاتی ہیں کہ ’میں ایک چھوٹے سے قصبے میں پلی بڑھی جہاں ناسا میں کام کرنا کبھی کسی نے سنا ہی نہیں تھا۔ میں نے سخت محنت کی، استقامت کا مظاہرہ کیا، اور بہت سی رکاوٹوں کے باوجود آج میں اس مقام پر کھڑی ہوں۔ یاد رکھیے آپ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے لطف اندوز ہونا کبھی بھی نہ بھولیں۔ یہ خلائی ریسرچ کا میرا جنون ہے جس نے مجھے کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا تھا اور اس سے مجھے ہر روز خوشی ملتی ہے کہ میں کام پر آتی ہوں۔‘

وہ آٹھ برس کی تھیں اور انھوں نے اپالو 13 کے مناظر دیکھے اور وہیں سے ان کی یہ محبت شروع ہوئی۔

وہ بتاتی ہیں ’جس چیز نے مجھے متاثر کیا۔ ان مناظر میں نہ صرف خلا کے وسیع و عریض خطرات تھے بلکہ انجینئروں کی وہ ٹیمیں بھی تھیں جو ان خطرات سے نبرد آزما ہونے کی تیاریاں کرتی تھیں جن کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ یہ ناقابل تسخیر مسائل کا بھی حل تلاش کرسکتے ہیں۔

’مجھے یاد ہے کہ میں انھیں جب کامیاب ہوتے دیکھتی تھی تو محسوس کرتی تھی کہ میں اس قسم کا کیریئر اختیار کرنا چاہتی ہوں۔ ایک ایسا مقام جہاں میں خلا کی تلاش کو آگے بڑھانے کے لیے تخلیقی صلاحیت، علم اور ٹیم ورک کو استعمال کروں گی۔ آج ایک سسٹم انجینئر کی حیثیت سے بظاہر ناقابل حل مسائل کو حل کرنا میری روزمرہ کی زندگی کا ایک حصہ ہے اور یہ ایسا کام ہے جس سے مجھے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔‘
’میرے والدین نے مجھے متاثر کیا‘

ناسا کی ویب سائٹ پر دیے گئے ان کے پروفائل کے مطابق ’میرے والدین نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ یہ دونوں مڈغاسکر (مشرقی افریقہ) میں پیدا ہوئے تھے، جہاں سے وہ اُس دور کی بدامنی کی وجہ سے کینیڈا ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ اور اپنے اہل خانہ میں وہ پہلی نسل تھی جنھوں نے کالج میں تعلیم حاصل کی تھی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ بڑی ہو رہی تھیں تو ان کے والدین نے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے خوابوں کی پیروی کریں۔

’مثال کے طور پر انھوں نے میری رہنمائی کی اور مجھے دکھایا کہ میرے ذہن میں جو بھی ہے وہ میں کرسکتی ہوں۔میرے والدین نے یہ بھی یقینی بنانے کے لیے بہت قربانیاں دیں کہ میں اچھی تعلیم حاصل کروں اور یہ کہ میں اپنی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں استعمال کرسکوں۔ ان کا اثر مجھ میں آج بھی بہت واضح ہے، ایک انجینیئر کی حیثیت سے، میں اپنے والد کی طرح دل لگا کر کام کرتی ہوں جبکہ میری ایک خواہش یہ ہے کہ جو جنون میری والدہ نے مجھ میں پیدا کیا وہ میں اپنی کمیونٹی کو واپس دے سکوں۔‘

وہ اپنے یا دیگر شعبوں میں جانے کی خواہش رکھنے والوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ ’اپنے خوابوں سے خوفزدہ نہ ہوں اور ہار نہ مانیں۔ میں ایک چھوٹے سے قصبے میں پلی بڑھی جہاں ناسا میں کام کرنے کے بارے میں کبھی کسی نے سنا ہی نہیں تھا۔

’میں نے سخت محنت کی، استقامت کا مظاہرہ کیا اور بالآخر اس جگہ پہنچ گئی جہاں میں آج ہوں۔ اس عمل کے ذریعے آپ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے لطف اندوز ہونا کبھی بھی نہ بھولیں۔ یہ خلائی ریسرچ کا میرا جنون ہے جس نے مجھے متحرک رہنے میں مدد دی ہے اور اس سے مجھے ہر روز خوشی ملتی ہے۔‘