196

بڑوں کی نصیحت

بڑوں کی نصیحت
آپ کے ساتھ کسی کا جانا آپ کیلئے ہی بہتر ہے،اس طرح آپ حفاظت میں رہیں گی اور ہمیں بھی تسلی رہے گی

قرة العین فاروق
”سویرا!میں نے تمہیں آج اسکول آتے دیکھا تو ہنسی نکل گئی۔کیا تم آج بھی اپنی دادی کے ساتھ اسکول آتی ہو،میرا مطلب ہے کہ اب ہم میٹرک میں آگئے ہیں،اب تو اکیلی اسکول آیا کرو۔“فرحانہ نے کہا۔

”ہاں!میں اپنی دادی اور کبھی کبھی دادا کے ساتھ اسکول آتی ہوں۔تمہیں کیا مسئلہ ہے،میری مما کہتی ہیں کہ ہم جتنے بھی بڑے ہو جائیں، اپنے والدین کیلئے بچے ہی رہیں گے۔“سویرا نے فرحانہ کو جواب دیا اور غصے میں اس کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔

”اسے کیا ہوا؟“فرحانہ نے حیرت سے کلاس کی لڑکیوں سے پوچھا۔
”ہمیں کیا پتا؟‘ایک لڑکی نے جواب دیا اور سب اپنا اپنا لنچ کرنے لگیں۔لنچ ٹائم ختم ہوا،تب تک سویرا کا موڈ خراب تھا۔

چھٹی کے وقت اس کے دادا اسے لینے آئے۔

وہ گھر پہنچی تو اس کی امی کو بھی سویرا کا موڈ ٹھیک نہیں لگا۔جب سب کھانا کھا چکے تو سویرا نے خود اپنی امی اور دادی کو ساری بات بتائی ،جو اس کے اور فرحانہ کے درمیان ہوئی تھی۔
”یہ فرحانہ کون ہے،میں نے پہلے تو کبھی آپ کے منہ سے یہ نام نہیں سنا۔

”مما!ہماری کلاس میں نئی لڑکی آئی ہے۔“
سویرا نے جواب دیا۔
”بیٹی!فرحانہ یا دوسری لڑکیاں آپ سے جو بولتی ہیں،انہیں بولنے دو۔ہمیں آپ عزیز ہیں،ہم آپ کو اکیلے کہیں نہیں جانے دے سکتے۔ زمانہ پہلے بھی خراب تھا اور اب بھی خراب ہے۔
آپ کے ساتھ کسی کا جانا آپ کیلئے ہی بہتر ہے،اس طرح آپ حفاظت میں رہیں گی اور ہمیں بھی تسلی رہے گی۔“سویرا کی دادی نے کہا۔
”بیٹی دادی جان ٹھیک کہہ رہی ہیں،بچے والدین کو بہت عزیز ہوتے ہیں اور جو لڑکی آپ سے اس طرح کہہ رہی ہے آپ اسے سمجھائیں کہ کسی بڑے کے ساتھ اسکول آنے میں کوئی برائی نہیں بلکہ بھلائی ہے۔

”جی دادی جان اور مما،فرحانہ یا کسی بھی لڑکی نے آئندہ ایسی کوئی بات کہی تو میں اسے یہی جواب دوں گی۔“سویرا نے کہا۔
کچھ دن گزرے تھے کہ فرحانہ چھٹی کے بعد تھوڑا دیر سے اسکول سے پیدل گھر جانے لگی،اس کے گھر کے راستے میں سویرا کا گھر پڑتا تھا۔
سویرا کا گھر اسکول سے نزدیک ہی تھا مگر وہ پھر بھی کسی بڑے کے ساتھ اسکول پیدل آتی تھی۔فرحانہ کو راستے میں عجیب سے حلیے میں ایک عورت اور مرد نظر آئے،پہلے تو اس نے خاص نوٹس نہ کیا،وہ فرحانہ سے چند قدم کے فاصلے پر ان کے پیچھے چلنے لگے۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ فرحانہ کو ان سے ڈر لگنے لگا،اس نے سوچا کہ اگلی سنسان گلی میں مڑنے سے بہتر ہے کہ رش والی سڑک سے جایا جائے۔وہ بہت خوف زدہ ہو رہی تھی کہ اس انجان عورت نے پیچھے سے آواز دے کر اسے روکنے کو کہا۔فرحانہ نے اس کی آواز سنی اَن سنی کر دی اور تیز تیز قدم اٹھانے لگی بلکہ بھاگنے لگی۔
اس کے پیچھے ان دونوں مرد و عورت کے قدم بھی تیز ہونے لگے۔اب فرحانہ کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ کیا کرے ،کیسے ان سے پیچھا چھڑائیے۔گلی کے نکڑ پر سویرا کا گھر تھا پھر رش والی سڑک شروع ہوتی تھی۔اس رش والی سڑک سے اس کے گھر کا راستہ بہت لمبا پڑتا، اس نے فوراً سویرا کے گھر جانے کا سوچا بلکہ سوچا کیا،اس کے قدم خود بخود سویرا کے گھر کی طرف اٹھ گئے۔
وہاں پہنچ کر اس نے دروازہ زور زور سے کھٹکھٹانا شروع کر دیا،ساتھ ہی گھر کی گھنٹی پر تو جیسے ہاتھ رکھ کے بھول گئی اور اونچا اونچا بولنے لگی کہ جلدی دروازہ کھولو،میرے پیچھے کچھ لوگ پڑے ہیں،جلدی کھولو دروازہ۔سویرا کچھ دیر پہلے ہی اسکول سے اپنی دادی کے ساتھ گھر آئی تھی۔
اس کے گھر والے اچانک اس طرح سے دروازہ پیٹنے اور گھنٹی کی آواز سے گھبرا کر دروازے کی طرف بھاگے اور دروازے کے قریب پہنچ کر فرحانہ کی آوازوں سے اور پریشان ہو گئے اور جھٹ دروازہ کھول دیا۔دوسری طرف وہ مشکوک مرد اور عورت فرحانہ کو اس طرح دروازہ بجاتے دیکھ کر بھاگ گئے۔
اندر سے جلدی سے سویرا کے سارے گھر والے نکل آئے اور سویرا کا بڑا بھائی دروازے کے پاس پڑا ڈنڈا اٹھا لایا کہ یہ کون اس طرح سے دوپہر میں دروازے پر دستک پہ دستک دیئے جا رہا ہے۔آیا واقعی مدد کیلئے پکار رہا ہے یا فراڈیئے تو نہیں آگئے۔
دروازہ کھولتے ہی فرحانہ نے سویرا کو آواز دی۔
”امی یہ وہی فرحانہ ہے،جس کا میں نے آپ کو کچھ دن پہلے بتایا تھا۔“سویرا نے کہا۔
”بیٹی اسے اندر تو آنے دو،دیکھو کیسی سہمی کھڑی ہے۔“
اندر آکر فرحانہ ،سویرا کی امی کے گلے لگ کر رونے لگی اور جو ابھی اس کے ساتھ واقعہ پیش آیا تھا،وہ سب کو بتایا۔
وہ سویرا سے بہت شرمندہ ہو رہی تھی کہ کچھ دن پہلے اس نے کیسے سویرا کا کسی بڑے کے ساتھ اسکول آنے پر مذاق بنایا تھا۔
”چلو بیٹی میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ کر آتی ہوں۔تمہارے گھر والے انتظار کرتے ہوں گے۔“سویرا کی دادی نے کہا۔

”میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔“سویرا کی امی نے کہا اور پھر دونوں فرحانہ کو اس کے گھر چھوڑنے گئیں اور اس کے گھر والوں کو سمجھایا کہ اپنے بچوں کو ایسے اکیلے کہیں جانے نہ دیا کریں بلکہ بلاوجہ گھر سے نہ نکلنے دیں،چاہے کسی دوست یا رشتے دار کے گھر یا قریبی دکان پر بچوں کو جانا ہو تو ان کے ساتھ کسی نہ کسی بڑے کا ہونا ضروری ہے،اگر گھر میں دو تین بہن ،بھائی ہیں اور کہیں ضروری جانا ہو تو مل کر جائیں۔
سویرا کی امی اور دادی کی باتیں سن کر فرحانہ نے توبہ کی کہ آئندہ وہ کسی کا بھی بلاوجہ مذاق نہیں اُڑائے گی اور کبھی کسی کو اُلٹا سیدھا مشورہ نہیں دے گی۔