196

وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: یہ عدلیہ کو اور عدلیہ میں کیا ہو رہا ہے؟

وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: یہ عدلیہ کو اور عدلیہ میں کیا ہو رہا ہے؟
وسعت اللہ خان
تجزیہ کار

پچھلے سات عشروں میں نظریہ ضرورت سے لے کر جسمانی حملوں تک عدلیہ پر ایسے ایسے وار ہو چکے ہیں کہ اب عدلیہ کو چھینک بھی آئے تو بائیس کروڑ سائلوں کا پتہ پانی ہونے لگتا ہے۔

عدلیہ پر جب بھی کسی فوجی آمر یا سویلین تانا شاہ کی جانب سے حملہ ہوا تو ہر بار زخمی ہونے کے باوجود وہ اٹھ کھڑی ہوئی مگر قلعے کا دروازہ اگر اندر سے کھل جائے تو محاصرہ کرنے والوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔

پچھلا ہفتہ کچھ اچھا نہیں گزرا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے وکلا نے تجاوز زدہ چیمبرز ڈھانے پر ضلعی انتظامیہ کے بجائے اپنے ہی چیف جسٹس کا گھیراؤ کر لیا، بدتمیزی کی اور توڑ پھوڑ مچائی۔

اگرچہ دو درجن وکلا کے خلاف مجرمانہ کیس درج ہو گئے۔ مگر ان پرچوں سے ماتھے کا دھبہ تو مٹنے سے رہا۔ شاید تاریخ میں پہلی بار کسی اعلیٰ عدالت کے محاصرہ گزیدہ سربراہ کو وکلا گردی پر اپنے صدمے کا اظہار ایک خط کی شکل میں کرنا پڑ گیا۔
پر یہ سانحہ تو ہونا تھا کیونکہ بالخصوص پچھلے چودہ برس کے دوران وکلا نے اپنی مرضی کے خلاف جانے والے زیریں عدالتوں کے متعدد ججوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا (ایک واقعے میں تو جج کے کپڑے بھی اتارنے کی کوشش کی گئی، کئی بار ججوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا)۔ مجال ہے کہ اس عرصے میں کسی مجرم کو کسی اعلی عدالت نے ازحود نوٹس لے کر قرار واقعی سزا دی ہو۔

چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں گذشتہ ہفتے جو کچھ ہوا وہ عدلیہ کی جانب سے اپنی ہی برادری کے ایک اہم جزو کی لاقانونیت سے اغماض برتنے کا منطقی نتیجہ تھا۔ کون جانے کہ اگلی واردات کب کس کے ساتھ ہو جائے۔

اس کے بعد خبر آئی کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی جانب سے ان کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے خود کو اچانک اس مقدمے کی سماعت سے عین اس وقت علیحدہ کر لیا جب وہ فیصلہ لکھنے کے مرحلے میں تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’میرا یہ اقدام بدقسمتی ہے مگر خود کو مقدمے کی سماعت سے علیحدہ کرنے کے فیصلے کی وجوہات میں کھلے عام نہیں بتانا چاہتا۔‘ اب یہ کیس نیا بنچ سنے گا۔

پھر یہ خبر آئی کہ سینیٹ کے انتخابات سے پہلے خطیر ترقیاتی فنڈز ارکانِ پارلیمان کو دینے کے وزیرِ اعظم کے مبینہ فیصلے کے ازخود نوٹس کی سماعت سے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسی کو چیف جسٹس گلزار احمد نے اس بنا پر روک دیا ہے کہ جسٹس قاضی خود ایک مقدمے میں وزیرِ اعظم کے مقابل فریق ہیں۔ لہذا وزیرِ اعظم کے کسی اقدام کے خلاف شنوائی میں ان کا بیٹھنا مناسب نہ ہوگا (اب جسٹس قاضی کو سماعت سے ہٹا کر معمول کی دفتری ذمہ داریاں تفویض کر دی گئی ہیں)۔

مگر واقعہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس فیصلے کے بعد رجسٹرار کے نام خط میں سوال اٹھایا کہ انھیں سماعت سے روکنے کے حکم کی نقل ان تک پہنچنے سے پہلے میڈیا کے ہاتھ کیسے لگ گئی؟

واضح رہے کہ نوے کی دہائی میں سپریم کورٹ کے ایک چار رکنی بنچ نے فیصلہ دیا تھا کہ اگر مقدمے کے کسی فریق کو کسی جج کی غیر جانبداری پر شک ہو تو یہ فیصلہ صرف وہی جج کر سکتا ہے کہ اسے انصاف کے تقاضے کے پیشِ نظر بنچ سے الگ ہو جانا چاہیے یا سماعت جاری رکھنی چاہیے۔

اسی طرح کا اعتراض جب ارسلان افتخار کے کیس میں مدعی کی جانب سے اٹھایا گیا تو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے بیٹے کے مقدمے کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا تھا۔

مگر جسٹس قاضی فائز عیسی کے کیس میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی فریق نے نہیں بلکہ چیف جسٹس نے قاضی فائز عیسی کی مبینہ جانبداری پر سوال اٹھایا اور جسٹس عیسی کی جانب سے اس بارے میں کوئی وضاحت آنے سے پہلے ہی انھیں مقدمے کی سماعت سے روک دیا گیا۔

اگر ستائیس نومبر انیس سو ستانوے کو سپریم کورٹ کی عمارت پر نواز شریف کے حامیوں کے حملے اور عدلیہ کی دو حصوں میں تقسیم اور پھر مارچ دو ہزار چھ میں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی اور پھر اسی سال نومبر میں ایمر جنسی نافذ کر کے بحال شدہ چیف جسٹس کی دوبارہ برطرفی اور دیگر چھ ججوں سمیت نظربندی کے تناظر میں دیکھا جائے تو حالیہ واقعات بہت چھوٹے نظر آئیں گے۔

مگر جب عدلیہ کا وقار باہر سے بھی حملوں اور مداخلت کی زد میں ہو، جب کئی جج کھل کے یا زیرِ لب روز بروز بڑھتی اندھی سیاسی و عسکری مداخلت کا کھلے عام یا ڈرائنگ روم میں مرثیہ کہیں اور پھر اندر سے بھی عدلیہ کا وقار داؤ پر لگنے لگے تو پھر دل کا بیٹھنا تو بنتا ہے۔

اس ملک کی محروم رعایا کے لیے جیسی کیسی بھی سہی ایک عدلیہ ہی امید کا آخری سہارا ہے۔ اگر اس کو بھی رفتہ رفتہ مسمار ہونا ہے تو پھر یہ رعایا اور کہاں دیکھے، کیا کرے ، کہاں جائے؟

سب نے دیکھا میرا چہرہ یہ کسے علم ہوا

آنکھ پتھرا گئی اک اشک بچا رکھنے سے (احمد نوید)