209

1947، تقسیم کشمیر سے پہلے تین ماہ کے واقعات

1947، تقسیم کشمیر سے پہلے تین ماہ کے واقعات
اطہرمسعود وانی
24 اکتوبر1947 کوریاست جموں وکشمیر کی آزاد حکومت کا قیام عمل میں آیا۔22 اکتوبر 47 ء کو قبائلی مظفر آباد داخل ہوئے۔ ان تاریخی واقعات کے حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ کشمیر پر قبائلی حملے سے پہلے ریاست جموں وکشمیر میں کیا صورتحال تھی۔مسلم کانفرنس نے جولائی 46 کو قرار داد آزا دکشمیر منظور کی جو کشمیری عوام کے مطالبات کی بنیاد و عکاس ہے۔
قرار داد آزاد کشمیر۔مجلس عاملہ کے اس تاریخی اجلاس کے بعد جولائی 46 ء میں مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل اور ممتاز کارکنوں کی ایک کنونشن چوہدری غلام عباس خان کی صدارت میں سری نگرمیں ہوئی۔ اس نے مجلس عاملہ کی 8 جون 46ء والی قرارداد کی تائید کرتے ہوئے” آزادکشمیر ” کی تاریخی قرار داد منظور کی ۔
”ہر گاہ کہ ہندوستان کے لئے نئے آئین کا ڈھانچہ مرتب کرنے کا ڈول ڈالا جا رہا ہے اور برطانوی ہند کے صوبہ جات اور ہندوستانی ریاستوں کو ایک محدود اختیار والی یونین میں منسلک کرنے کیلئے جس آئین ساز اسمبلی کو تشکیل دیا جارہا ہے اس میں دس کروڑ ریاستی باشندوں کی نمائندگی کے متعلق ذاتی سفارشات بالکل مبہم ہیں اور ریاستی عوام کو شبہ ہے کہ انہیں مطلق العنان شہزادگان کے رحم وکرم پر چھوڑا گیا ہے ۔ مجلس عاملہ کی رائے میں آئین ساز اسمبلی میں ریاستی عوام کو بھی اسی طرح اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا حق دیا جائے جیسا کہ برطانوی ہند کے عوام کو حاصل ہے ۔بالخصوص جہاں تک ریاست جموں وکشمیر کا تعلق ہے مسلم کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی میں ریاست کشمیر کی طرف سے جو نمائندے بھیجے جائیں لازمی طور پر کشمیر اسمبلی کے منتخب ممبروں کی طرف سے انتخاب کردہ ہونے چاہئیں اور ان کا تناسب وطریق انتخاب اسی طرح ہونا چاہئیے جیسا کہ برطانوی ہند کیلئے لازمی قرار دیا گیا ہے ۔مجلس عاملہ یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ مستقبل قریب میں جب ریاستوں کا ہندوستانی گروپوں میں شامل ہونا مقصود ہو تو کسی گروپ میں شمولیت کا حق صرف ریاستی عوام کو ہونا چاہئیے ۔
نیز ہر گاہ کہ آمریت اور جمہوریت کا دوش بدوش چل سکنا ممکن نہیں اور مجوزہ آئین ساز اسمبلی جو ہندوستان کے مختلف اجزاء کے لئے آئین مرتب کرے گی اس کا انحصار آزاد اور جمہوری اصولوں پر ہو گا اس لئے ضروری ہے کہ ریاست جموں وکشمیر جو آبادی اور وسعت کے لحاظ سے صوبہ سرحد سے بہت بڑی اور سندھ کے برابر ہے کا آئین بھی انہی اصولوں پر مرتب ہونا چاہئیے ۔بنا بریں ضروری ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے مطلق العنان اور غیر ذمہ دارانہ نظام حکومت کو فی الفور ختم کر دیا جائے اور عوام کو اپنی پسند کا آئین حکومت بنانے کا پورا پورا اختیار دیا جائے جو اپنے مخصوص حالات کے مطابق آزادکشمیر کے لئے جس طرزکا آئین حکومت چاہئیں مرتب کریں ۔اس کام کو سرانجام دینے کی خاطر جموں وکشمیر کے لئے ایک آئین ساز اسمبلی کا قیام از بس ضروری ہے ۔مجلس عاملہ مہاراجہ کشمیر سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے موجودہ الوقت مسلم کانفرنس کی پارلیمانی پارٹی کا اسمبلی سے استعفی ۔28 ستمبر 1946 ء کو مسلم کانفرنس کی اسمبلی پارٹی نے قانون تحفظ امن و مفاد عامہ کے خلاف بطور احتجاج ایک ساتھ استعفیٰ دیدیا ۔ اس موقعہ پر پارٹی کے لیڈر چوہدری حمید اللہ خان مرحوم نے مندرجہ ذیل بیان جاری کیا،
” میں او رمیری پارٹی” مسودہ قانون تحفظ امن و مفاد عامہ ” سے اظہار جرات کرتے ہیں جسے حکومت نمائندگان عوام کی مخالفت کے باوجود سرکاری ممبروں کی اکثریت کے بل بوتے پر اس ایوان سے منظور کرانا چاہتی ہے یہ قانون عوام کے ابتدائی شہری حقوق اور سیاسی آزادی پر براہ راست حملہ ہے جو تھوڑی بہت آزادی مسلمانوں نے اپنا خون دے کر حاصل کی ہے مگر موجودہ وزیراعظم کی پالیسی اس قدر مسلم کش اور جعت پسندانہ ہے کہ وہ مسلمانوںکو عام بغاوت اور جنگ آزادی پھر لڑنے پر مجبور کر رہا ہے ہم اس اسمبلی سے مستعفی ہوتے ہیں ہم اب اس آٹھ سالہ فرسودہ اسمبلی کی اصل کو پاچکے ہیں۔”
مسلم کانفرنس کا تحریک چلانے کا فیصلہ۔اسمبلی سے مسلم کانفرنس کی پارلیمانی پارٹی کا استعفیٰ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ مسلم کانفرنس نے اس سال اپنا سالانہ اجلاس مظفرآباد میں کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر وبائی بیماری کی وجہ سے اسے تبدیل کر کے سرینگر میں ہی سالانہ اجلاس 24 اکتوبر 46 ء کو منعقد کرنے کا اعلان ہوا۔ مگر حکومت نے اس پر پابندی عائد کی کیونکہ یہ خیال عام تھا کہ اس میں راست اقدام کا اعلان کیا جائے گا۔ مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے اجلاس سے دو دن قبل اپنے ایک جلسے میں عام تحریک شروع کرنے کا حتمی فیصلہ کیا اور اس کو ابتداء حکومت کی پابندی کو توڑتے ہوئے کیا جانا طے پایا مگر دوسرے دن ہی مجلس عاملہ کا ایک حصہ تحریک چلانے کا مخالف ہوگیا ( یہ لوگ وزیراعظم رام چند کاک سے مل چکے تھے) اس سے مجلس عاملہ اور جماعت کی قیادت کو ایک نازک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہ تو ٹھیک ہوا کہ مجلس عاملہ کی وہ قراردادا بھی پریس کو نہیں گئی تھی جس میں تحریک چلانے کا اعلان تھا آخر انتہائی مایوسی اور ے بسی کے عالم میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ صرف چوہدری غلام عباس خان بحیثیت صدر اور آغا شوکت علی بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے آپ کو انفرادی طور پر گرفتاری کے لئے پیش کریں اور دیگر کارکن باہر رہ کر جماعت کے پروگرام کے مطابق کام کریں۔ چنانچہ 24 اکتوبر کی رات کو مسلم پارک (جامع مسجد) سری نگر میں مسلم کانفرنس کا سالانہ اجلاس چوہدری غلام عباس خان کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اپنی صدارتی تقریر میں چوہدری غلام عباس نے حکومت پر تندوتیز الفاظ میں نکتہ چینی کی اور کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ ان کے ساتھ گرفتاری نہ دیں بلکہ باہر رہ کر جماعت کے پروگرام پر عمل کریں۔ اجلاس میں میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ آغا شوکت علی اور مولوی نورالدین نے بھی تقریریں کیں ۔حکومت نے اسی رات کوچوہدری غلام عباس خان آغا شوکت علی، اللہ رکھا ساغر اور مولوی نور الدین کو گرفتار کر کے نظر بند کر دیا ۔دیکھنا یہ ہے کہ جماعت کے قائدین کا یہ فیصلہ کہا ں تک درست تھا۔ اس بارے میں یہ بات دو ٹوک ہے کہ اجتماعی خلاف ورزی کے فیصلہ کو بدل کر انفرادی خلاف ورزی کا فیصلہ جماعت کے وقار کے لئے مضر ثابت ہوا۔ مجلس عامہ میں پھوٹ کے پیش نظر حالات کی نزاکت سے انکار نہیں ہے مگر جو بھی ہو، دور رس سیاسی حالات کا یہی تقاضا تھا کہ یا تو سرے سے ہی کوئی گرفتاری نہ دی جاتی ورنہ ”جماعتی غداروں ”کی پرواہ کئے بغیر تحریک شروع کی جاتی ۔ اس امر سے کوئی بھی انکاری نہیں ہوگا کہ اگر جماعت اس وقت حکومت کے خلاف کوئی تحریک شروع کرتی تو کشمیری مسلمان اسی جوش ولولے اور والہانہ جدبات کے ساتھ اس کا ساتھ دیتے جس طرح انہوں نے 31 ء سے 35 ء تک کی شہر ہ آفاق تحریکوں کا ساتھ دیا تھا۔ قائد کی گرفتاری کے بعد بعض نوجوانوں کا بدستور اصرار تھا کہ عام گرفتاری شروع کی جائے چنانچہ مسلم کانفرنس کے صدر مجلس عمل میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا،
”حکومت نے انتہائی غیر دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے قائد ملت چوہدری غلام عباس خان صاحب کو گرفتار کیا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ اور ساتھی قید کر دیئے گئے۔ عوام میں سخت اشتعال پیدا ہو ا ہے، ریاست کے مختلف مقامات سے مجھے مسلم کانفرنس کے کارکنوں اور عام مسلمانوں کی طرف سے یہ اجازت طلب کی جا رہی ہے کہ انہیں بھی اپنے قائد کے ساتھ گرفتار ہونے کی اجازت دی جائے۔ سرینگر میں بھی مسلمانوں کا یہی اصرار ہے مگر میں انہیں قائد کے حکم کے مطابق اس کی اجازت نہیں دے سکتا ہوں۔ قائد ملت نے گرفتاری سے قبل یہ واضح ہدایت کی ہے کہ کوئی بھی کارکن گرفتاری نہ دے ،اس لئے میں مسلمانان جموں وکشمیر سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ پرامن رہیں اور اپنے لیڈر کے حکم کے مطابق مسلم کانفرنس کے پروگرام پر عمل کریں”۔
(روزنامہ ”ہمدرد” سری نگر)
مسلم کانفرنس نے پروگرام کے مطابق اپنا کام جاری رکھا مگر بدقسمتی سے صدر مجلس عمل میر واعظ محمد یوسف شاہ اور قائم مقام صدر مسلم کانفرنس چوہدری حمید اللہ خان مرحوم کے درمیان ناخوشگوار کش مکش شروع ہوئی۔ دونوں نے اپنے لیڈر کی غیر حاضری میں قائم مقام ہونے کا دعویٰ کیا ۔ اس باہمی کشمکش نے جماعت کو کچھ وقت کے لئے دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور اس نازک موقعہ پر جماعت کے وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
ڈوگرہ راج کی آخری اسمبلی۔4 جنوری 47 ء کو کشمیر اسمبلی کے لئے انتخابات ہوئے مسلم کانفرنس نے قائم مقام صدر چوہدری حمید اللہ خان اور صدر پارلیمنٹری بورڈ کرنل علی احمد شاہ کی سرکردگی میں انتخابات میں بھرپور حصہ لیا۔ کچھ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے گئے تو بھی مسلم کانفرنس 21 میں سے 16 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ نیشنل کانفرنس نے آخری وقت انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اگر وہ بائیکاٹ نہ بھی کرتے تو بھی وادی کشمیر کے چند حلقوں کے سوا ان کے امیدواروں کی کامیابی کی امید ہی کہاں ہوسکتی تھی ۔ ان حلقوں میں نیشنل کانفرنس والوں نے آزاد امیدوار کھڑے کئے جن میں بیشتر ہار گئے۔
کانگریسی سازش۔نیشنل کانفرنس کی دار کونسل (جو مجلس عاملہ کی حیثیت میں کام کر رہی تھی) نے غلام محی الدین مہرہ کی صدار ت میں وسط اگست میں ایک جلسہ کیا۔ اس میں کل 13 ممبروں میں سے آٹھ ممبران نے الحاق پاکستان کے حق میں رائے دی ۔الغرض یہ بات صاف تھی کہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام کی ٹھوس اور غالب اکثریت الحاق پاکستان کی خواہش مند ہے۔ لیکن مہاراجہ ہری سنگھ عوام کی خواہشات سے بے نیاز رہ کر کانگرسی لیڈر وں کے ساتھ ایک گہری اور عوا م دشمن سازش میں مصروف تھے کانگریسی لیڈر بھی ریاست کو بھارت میں شامل کرنے کے لئے بے تاب تھے اور اس مقصد کے لئے سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔ 3 جون 47 ء کے اعلان سے چند دن قبل ہی کانگرس کے صدر آچاریہ کرپلانی کشمیر آئے اور یہاں نیشنل کانفرنسی کارکنوں ہندو لیڈروں اور مہاراجہ ہری سنگھ اور ا نکے مشیروں کے ساتھ پراسرار ملاقاتیں کرتے رہے۔ کانگریس کے کمیونسٹ لیڈر بھی ان دنوں بار بار کشمیرآئے۔ اگست 47 کے پہلے ہفتے میں کانگرس کے ”روحانی باپ” گاندھی جی بھی غالباً زندگی میں پہلی اورآخری بار کشمیر چلے آئے۔ جونہی انہوں نے اپنے دورے کا اعلان کیا تو ریاست کے عوامی نمائندوں نے ان کے خلاف زبردست احتجاج کیا ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ گاندھی جی کانگرسی لیڈروں اور ہری سنگھ کی ناپاک سازش کی آخری منزلیں طے کرانے آ رہے ہیں چنانچہ مسلم کانفرنس کی مجلس عمل کے صدر میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ نے گاندھی جی کی آمدسے چند دن قبل مندرجہ ذیل بیان جاری کیا،
”اگر مہاراجہ بہادر نے مسٹر گاندھی کے اثرورسوخ میں آکر کشمیر کو ہندو انڈیا میں شامل کیا تو ریاست میں خلل امن کا زبردست اندیشہ ہے ۔ مجھے امید ہے کہ مہاراجہ بہادر اس نازک ترین موقع پر تدبر سے کام لیں گے اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے مسلمانان کشمیر کے ناراض ہو جانے کا اندیشہ ہو”۔
(روزنامہ ہمدرد سرینگر)
جب ریاست میں گاندھی جی کے دورے کے خلاف ایک طوفان برپا ہوا تو انہوں نے کشمیر جانے سے قبل دہلی میں ایک بیان جاری کیا،
” میں کشمیر اس لئے نہیں جارہا ہوں کہ مہاراجہ بہادر پر کسی قسم کا دبائو ڈال دوں کہ وہ انڈین یونین میں شامل ہوں۔ اس سوال کا فیصلہ کرناکہ ریاست کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے یا ہندوستان میں وہاں کے عوام کا کام ہے۔میں اس میں کوئی دخل نہیں دینا چاہتا ۔ نہ میں وہاں نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ عبداللہ اوران کے رفقاء کو جیلوں سے رہا کرانے کے لئے جا رہا ہوں”۔
(روزنامہ ”ٹریبون” لاہور)
لیکن اس کے ساتھ ہی ٹریبون اپنے نامہ نگار خصوصی کے حوالہ سے مندرجہ ذیل خبر بھی شائع کی،
” گاندھی جی کا دورہ کشمیر اس مقصد کے لئے ہو رہا ہے کہ مہاراجہ صاحب گاندھی جی سے ملاقات کریں گے اورالحاق کے بارے میں ان کا مشورہ حاصل کرینگے” ۔
جب گاندھی جی اپنے اس پراسرار مشن کے سلسلہ میں کشمیر آئے تو بارہ مولااور سری نگر میں مسلم کانفرنس کی طرف سے ان کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے۔ مشتعل عوام نے ان کی کار پر پتھروں کی بارش کی”۔
ان کی سرینگر آمد پر صدر مسلم کانفرنس پارلیمنٹری بورڈ میجر سید علی احمد شاہ اسمبلی میں مسلم کانفرنسی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر خواجہ غلام احمد جویلر اورپارٹی کے چیف وہپ سردار محمد ابراہیم نے مندرجہ ذیل مشترکہ بیان جاری کیا،
”ہمیں ڈر ہے کہ کہیں مہاراجہ بہادر پر انڈین ڈومینین کے ساتھ شامل ہونے کیلئے دبائو نہ ڈالا جائے اس لئے ہم مسلمانان کشمیر کی طرف سے یہ صاف ظاہر کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان ڈومینین کے ساتھ شامل ہوناچاہتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسٹر گاندھی اپنے وعدے کی بناء پر اس بدنصیب ریاست کی سیاست میں دخل نہ دیں۔ اگر انہوں نے ریاست کی سیاست میں دخل دیاتو حالات بگڑ جائیں گے”۔
(روزنامہ ہمدرد سرینگر)
گاندھی جی نے آتے ہی 3 اگست کو مجاہد منزل میں نیشنل کانفرنس کے کارکنوں سے خطاب کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ مہاراجہ صاحب کے خلاف نہ بولیں ۔ اسی دن انہوں نے وزیراعظم کشمیر پنڈت رام چند کاک سے دوبار ملاقات کی ۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے گروجی سے بھی ملے اور خود مہاراجہ ہری سنگھ سے بھی طویل ملاقات کی۔ اس کے بعد واپس چلے گئے ان کی واپسی کے ایک ہفتے بعد ہی وزیراعظم کا ک کو سبکدوش کر کے ایک ڈوگرہ جرنیل جنگ سنگھ کو وزیراعظم کشمیر مقرر کیا گیا۔ کاک کے متعلق یہ افواہ تھی کہ وہ ریاست کوخود مختار رکھنے کے حق میں تھے۔ 15 اگست 47 ء کو قیام پاکستان پر ریاست جموں وکشمیر میں جگہ جگہ مسلمانوں نے پورے جوش وخروش کے ساتھ یوم پاکستان منایا ۔ سری نگر کی جامع مسجد میں میر واعظ کشمیر کی صدارت میں ایک لاکھ اسلامیان کشمیر کا احتجاج ہوا۔ جس میں الحاق پاکستان کا پرزور مطالبہ کیا گیا۔ 27 اگست کو مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدر چوہدری حمید اللہ خان اورصدر مجلس عمل میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ کا ایک مشترکہ بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے کہا،
”ہم مہاراجہ بہادر کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر اس نے انڈین یونین میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو ریاست کے تمام مسلمان اس کی مزاحمت کریں گے۔ ریاست کے مسلمانوں کی رائے یہ ہے کہ کشمیر پاکستان میں شامل ہو کیونکہ جغرافیائی تسلسل اور تمدن واشتراک عمل اس کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اگر اکثریت کے جذبات و احساسات کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلمان ہر نازک صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں”۔
(روزنامہ ”ہمدرد” سرینگر)
ریاست میں کشمیری مسلمانوں کو دبانے کی پالیسی۔ 27اگست 47 ء کو ریاست جموں وکشمیر کا پاکستان کے ساتھ باقاعدہ ”جوں کا توں معاہدہ ”ہوا۔ ہندوستان نے اس قسم کا معاہدہ کرنے سے انکار کردیا ۔ یہ بھی ایک فریب کارانہ چا ل تھی۔30 اگست 47 ء کو مسلم کانفرنس کی طرف سے وزیراعظم کشمیر کو ایک یادداشت پیش کی گئی جس میں مندرجہ ذیل مطالبات پیش کئے گئے۔
(1 )۔ کشمیر فوراً پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرے ۔
(2) ریاست کے جدید آئین کیلئے ایک آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے۔
(3)۔ ریاست میں فوری طور پر ذمہ دارنظام حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
(4)۔ کشمیر پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں شمولیت کا اعلان کرے۔
(5)۔شہری آزادی کو بحال کیا جائے اور مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس خان اور ان کے ساتھیوں کو رہا کیا جائے ۔
(6)۔ پونچھ کے حالات پر خاص توجہ دی جائے ۔
قیام پاکستان کے دن ہی پونچھ میں پاکستان کے حق میں جلسے اور مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس سے پہلے ہی وہاں عدم ادائیگی محصولات کی تحریک جاری تھی۔ ڈوگرہ حکومت نے اہل پونچھ کو زبردستی دبانے کی کوشش کی۔ چنانچہ 26 اگست 47 ء کو باغ کے ایک جلسہ عام پر فوج نے فائرنگ کی جس سے متعدد مسلمان شہید ہوگئے ۔مسلم کانفرنسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد قید کردی گئی۔ (ان میں سے کانفرنس کے ایک مخلص کارکن اور باغ مسلم کانفرنس کے جنرل سیکرٹری سید خادم حسین شاہ مرحوم کو ڈوگرہ ظالموں نے جیل میں ہی شہید کردیا ۔ اس مجاہد کے لبوں پر آخری دم تک پاکستان زندہ باد کے الفاظ رہے) مسلم کانفرنس نے 5 ستمبر 47 ء کو یوم پونچھ منایا ۔ قائم مقام صدر مسلم کانفرنس نے ایک بیان میں اس قتل عام کی شدید مذمت کی اور کہاکہ
” قتل عام کا مقصد الحاق پاکستان کی تحریک کوختم کرنا ہے”۔
19 ستمبر 47 ء کو مسلم کانفرنس نے پھر ایک بار”یوم پاکستان” منایا اور ہر جگہ عام جلسے کر کے الحاق پاکستان کامطالبہ کیا گیا۔ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہی نیشنل کانفرنس کے صدر شیخ محمد عبداللہ کو بھدرواہ جیل سے بادامی باغ چھائونی لایا گیا۔ اس دوران کانفرنس کے دو جلاوطن لیڈر بخشی غلام محمد اور غلام محمد صادق پر سے پابندی ختم کی گئی ۔ وہ جلاوطنی کے دوران کانگرسی لیڈروں سے ساز باز کر آئے تھے اور شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ پراسرار ملاقاتیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اچانک 29 ستمبر 47 ء کو شیخ محمد عبداللہ اپنی معیاد قید مکمل کرنے سے پونے دو سال پہلے ہی رہا کردیئے گئے۔ 7اکتوبر 47 ء تک ”کشمیر چھوڑ دو” تحریک کے تمام قیدی رہا کئے جا چکے تھے لیکن مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس خان اوران کے ساتھی بدستور نظربند رکھے گئے۔ شیخ صاحب کی رہائی سے تین دن قبل 26 ستمبر کو مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدر چوہدری حمیداللہ خان مرحوم کا داخلہ بھی ریاست میں بند کردیا گیا، وہ لاہورآئے تھے۔دوسرے دن کشمیر اسمبلی کا اجلاس ہوا تو مسلم کانفرنس اسمبلی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر خواجہ غلام احمد جیولرنے چوہدری حمید اللہ خان کے ریاست میں داخلہ پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا اور بطور احتجاج تمام پارٹی اسمبلی سے واک آئوٹ کر گئی۔ اس کے ساتھ ہی مسلم کانفرنسی کارکنوں کی جلاوطنی نظربندی اور زبان بندی کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس سے قبل ہی جنگ سنگھ کی جگہ ایک کٹرہندومہرچند مہاجن کو ریاست کا وزیراعظم مقرر کیا جا چکا تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں مسلم کانفرنس کوکچلنے کا اعلان کر دیا ۔ البتہ الحاق کے بارے میں یہ بتایا کہ اس کا فیصلہ کرتے وقت عوام کی مرضی کا خیال رکھا جائے گا ۔لیکن یہ کہنے کی باتیں تھیں۔ مسٹر مہاجن توآئے ہی اس لئے تھے کہ ہری سنگھ اور کانگرس کی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ اس کے ساتھ ہی کٹھوعہ روڈ کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔یہ سڑک کشمیر کو بھارت سے ملانے والا واحد راستہ ہے ۔یہ بھی لارڈ مونٹ بیٹن اورریڈ کلف کی سازش اور بددیانتی سے ضلع گورداسپور کی وجہ سے بھارت کو ملا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گورداسپور کا بھارت کوملنا کشمیری عوام کے خلاف سازش کی ایک اہم کڑی تھی ۔15 اکتوبر کو وزیراعظم کشمیر نے حکومت پاکستان کے نا م ایک تار روانہ کیا جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ ریاست کی ضروریات زندگی کی سپلائی میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ دوسرے دن ہی وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے اس کے جواب میں ایک تارحکومت کشمیر کو بھیجا جس میں تمام الزامات کی پرزورتردید کردی گئی اور ساتھ ہی کشمیری مسلمانوں کو دبانے کی پالیسی پر اظہار تشویش کیا گیا۔
آزاد حکومت ریاست جموںو کشمیر کا قیام۔24 اکتوبر 47 ء کو سردارمحمد ابراہیم خان کی صدارت میں باقاعدہ حکومت ”آزادجموں وکشمیر حکومت ”کے نام سے قائم کی گئی چنانچہ اس دن پلندری سے حسب ذیل اعلان جاری ہوا،
”ہنگامی حکومت نے جسے عوام نے کچھ ہفتے قبل ناقابل برداشت ڈدوگرہ مظالم کے خاتمہ اور عوام کے آزادانہ اقتدار کے حصول کے لئے بنایا تھا، اب ریاست کے ایک بڑ ے حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور بقیہ حصے کو ڈوگرہ ظلم کے تسلط سے آزاد کرانے کی امید کئے ہوئے ہے۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت کی تشکیل نو عمل میں لائی گئی ہے ا ورصدر دفاتر کو پلندری منتقل کر کے مسٹر ابراہیم بیرسٹر کو عارضی حکومت کا صدر مقرر کیا گیا ہے ۔نئی حکومت ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کی متحدہ آواز کی ترجمان ہے کہ عوام کو ظالم اور غاصب ڈوگرہ خاندان سے نجات دلائی جا سکے۔ آزادی کی یہ تحریک جس نے اس عبوری حکومت کو جنم دیا ہے 1929 ء سے جاری ہے اس تحریک میں جموں و کشمیر کے ہزاروں لوگوں نے جیل کاٹے اور جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ بہرحال عوام کی متفقہ آواز کی جیت ہوئی ہے اور حکمران کی متشدد فوج ہار گئی ہے ۔ حکمران اپنے وزیراعظم کے ساتھ کشمیر سے بھاگ چلا ہے اور شاید عنقریب جموں سے بھی بھاگ نکلے گا۔ عارضی حکومت جو ریاست کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے ہی ہے ایک فرقہ وارانہ حکومت نہیں ہے۔ اس حکومت کی عارضی کابینہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شامل ہوں گے۔ حکومت کا مقصد سردست ریاست میں نظم و نسق کی بحالی ہے تاکہ عوام اپنی آزادانہ رائے سے ایک جمہوری آئین ساز اسمبلی ا ور ایک نمائندہ حکومت چن لیں۔ عارضی حکومت اپنے ہمسایہ مملکت ہائے ہندوستان اور پاکستان کے لئے بہترین جذبات دوستی و خیر سگالی رکھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ ہردو مملکتیں کشمیری عوام کی فطری آرزوئے آزادی کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کریں گی۔ عارضی حکومت ریاست کی جغرافیائی سا لمیت اور سیاسی انفرادیت برقرار رکھنے کی متمنی ہے۔ پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا سوال یہاں کے عوام کی آزادانہ رائے شماری سے طے کیا جائے گا۔ غیر ملکی مبصرین و مشاہدین کو دعوت دی جائے گی کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ عوام کی آزادانہ رائے سے مسئلہ بخیر وخوبی طے ہوگیا”۔