عطاء الحق قاسمی 306

یہ ہمارے ناشکرے غریب غربا!

یہ ہمارے ناشکرے غریب غربا!
عطاء الحق قاسمی
میں نے ملک صاحب سے کہا، ملک صاحب آج کل لوڈ شیڈنگ سے عوام بہت پریشان ہیں۔ ایک گھنٹے کے لئے بجلی آتی ہے اور پھر کئی گھنٹوں کے لئے چلی جاتی ہے۔ عوام اِس صورتحال کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس پر ملک صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے پتا نہیں تم کن عوام کی بات کر رہے ہو میں تو بالکل نارمل ہوں۔

کیا تمہیں میرے چہرے پر کوئی پریشانی نظر آ رہی ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں کیونکہ آپ کے پاس 32کے وی کا جنریٹر ہے، جس سے کئی گھر روشن کئے جا سکتے ہیں۔ ملک صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری۔ اُنہوں نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’یہ کوئی دلیل نہیں، میں اگر پریشان ہونا چاہوں تو مجھے کون روک سکتا ہے، دراصل تم لوگ پریشانیوں سے محبت کرنے لگے ہو‘‘۔

میں نے عرض کی، ملک صاحب اتنی سنگدلی کا مظاہرہ نہ کریں، لوگ مسائل کے ہاتھوں عاجز آئے ہوئے ہیں، مہنگائی نے اُن کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ ملک صاحب نے یہ سن کر ایک بار پھر قہقہہ لگایا اور بولے کون سی مہنگائی؟ میں کل بازار گیا تھا اور قیمتیں سن کر حیران رہ گیا، اس قدر کم قیمتیں! یقین کرو اٹلی کا بنا ہوا سوٹ صرف ڈیڑھ لاکھ میں مل رہا تھا۔ اِس وقت میری دسترس میں کوئی اینٹ نہیں تھی جس سے میں اپنا یا ملک صاحب کا سر پھوڑ سکتا۔

چنانچہ میں نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ملک صاحب، آپ اپنی بات نہ کریں، آپ امیر آدمی ہیں۔ میں غریب لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن کے لئے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہو رہی ہے۔ یہ سن کر ملک صاحب نے روتی آواز میں کہا کیوں میری غربت کا مذاق اڑاتے ہو؟ میں ستر کروڑ روپے کا مقروض ہوں۔ میں نے عرض کی اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی کہ آپ کے یہ ستر کروڑ روپے حکومت نے معاف کر دیے ہیں۔ اس پر ملک صاحب نے میری بےخبری پر سر پیٹ لیا اور بولے یہ ستر کروڑ ابھی معاف نہیں ہوئے، وہ پچاس کروڑ معاف ہوئے ہیں جس کی خبر تم نے پڑھی ہو گی۔

مجھے ملک صاحب کی غربت پر ترس آنے لگا تھا تاہم میں نے اِس مقروض شخص سے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی آپ اُن لوگوں کا سوچیں جو اِس شدید سردی میں گیس کا ہیٹر بھی نہیں چلا سکتے کہ گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی زوروں پر ہے۔ ملک صاحب بولے پتا نہیں یار! تم کس دنیا میں رہتے ہو۔ میں بھی تو انسان ہوں۔

میں بھی تو اِس سردی میں آخر جی ہی رہا ہوں۔ میں نے کہا ملک صاحب! لگتا ہے شاید غربت اور کروڑوں روپوں کے مقروض ہونے کی وجہ سے آپ کی یادداشت متاثر ہوئی ہے کیونکہ آپ بھول رہے ہیں۔ آپ کا گھر سینٹرلی ہیٹڈ ہے۔ ملک صاحب کو میری یہ بات اچھی نہیں لگی۔ چنانچہ غیظ و غضب کے عالم میں بولے تم لوگوں میں اتنا حسد کیوں ہے، اور تم لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ انسان اگر گزارہ کرنا چاہے تو ہر طرح کے حالات میں کر سکتا ہے۔ آخر انسان کبھی غاروں میں بھی تو رہا کرتا تھا۔ وہاں کون سی بجلی، کون سی گیس تھی؟ یہ جو تم دو وقت کی روٹی کی بات کرتے ہو، وہاں کون دو وقت کی روٹی کھاتا تھا؟

ملک صاحب کا یہ لیکچر میرے لئے خاصا چشم کشا تھا۔ اُن کے اندر کا وہی غاروں میں رہنے والا انسان باہر آ گیا تھا جو Survival Of The Fittestپر یقین رکھتا تھا، مجھے لگا جیسے آج بھی ایک عام آدمی غاروں میں رہنے والے انسان کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ چنانچہ بجلی، پانی اور مناسب خوراک سے اُسی طرح محروم ہے جس طرح اُس کے ’’آباو اجداد‘‘ محروم تھے۔

اُن لمحوں میں مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ ملک صاحب اور اُن ایسے دوسرے دس، بیس لوگ تیر کمان کاندھوں سے لٹکائے اپنے ٹھکانوں سے باہر نکلتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب وہ جانوروں کی بجائے انسانوں کا شکار کرتے نظر آتے ہیں۔ اقتدار اُن کے پاس ہے، سیاست ان کے گھر کی لونڈی ہے، عدالتیں اُن کی ہیں، قانون اُن کا ہے، معیشت اُن کے اشاروں پر چلتی ہے، وسائل اُن کے پاس ہیں محلات میں رہنے والی یہ مخلوق عوام نام کی مخلوق سے متعارف نہیں ہے۔ عوام کے مسائل اُنہیں خود ساختہ لگتے ہیں۔

یہ ’’ڈان‘‘ ہیں اور لوگ اُن کے خوف سے گھروں میں سہمے بیٹھے ہیں۔ اہلِ قلم اِن سہمے ہوئے لوگوں کے دکھ درد بیان کرتے ہیں مگر اُن کا خوف دور نہیں کرتے، میں نے سوچا اہلِ قلم بھی تو اِنہی خوفزدہ لوگوں کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک خوفزدہ شخص کسی دوسرے خوفزدہ شخص کا خوف کیسے دور کر سکتا ہے؟

اور اب آخر میں ممتاز شاعر نصیر ترابی کے وہ مشہور زمانہ اشعار جو اُنہوں نے 16دسمبر 1971کو سقوطِ مشرقی پاکستان کی ہولناک خبر سننے کے بعد غزل کے انداز میں فی البدیہہ کہے:

وہ ہم سفر تھا مگر اُس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھائوں کا عالم رہا، جدائی نہ تھی

نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ، نہ تیرا ملال

شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی

محبتوں کا سفر اِس طرح بھی گزرا تھا

شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں مگر

بچھڑے والے میں سب کچھ تھا، بیوفائی نہ تھی