283

ھمارا میڈیا اور سیاسی رسہ کشی

ھمارا میڈیا اور سیاسی رسہ کشی
یقین کیجئے دل نہیں چاہتا کہ زبانِ قلم کو پاکستان کی سیاسیاستِ امروزہ سے آلودہ کروں لیکن جب خاک میں لتھڑے ہوئے اور خون میں نہلائے ہوئے واقعات ہر گھڑی سامنے آتے ہیں تو اُدھر کو بھی نظر لوٹ جانے پر مجبور ہوتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے رموز و اسرار پر تبصرہ کروں، ان عوامل کو قوم کے سامنے رکھوں جو ترقی یافتہ ممالک کے بامِ عروج تک پہنچنے کے زینے بنے۔ ہم بھی زینہ بہ زینہ ان ملکوں کی تقلید کرتے ہوئے اس سیڑھی پر چڑھ سکتے ہیں لیکن حکومت اگر دو زینے چڑھتی ہے تو اپوزیشن اگلے پچھلے تین زینے توڑنے کے درپے ہو جاتی ہے۔ جمہوریت میں اپوزیشن کا رول ایک کلیدی رول ہوتا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتو حکومت بدترین آمریت کا روپ دھار لے۔اپوزیشن، حکومت کی دریدہ دہنیوں کے آگے بند باندھتی ہے لیکن حکومت کے مثبت اشاریوں کی پشتہ بانی بھی کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ عوام کی رائے منقسم کرنے میں اپوزیشن کا کردار پاکستان کی بدنصیبی ہے۔

گزشتہ دو اڑھائی برسوں میں حکومت نے جو اقدام کئے ہیں ان کی مخالفت پر اپوزیشن نے گویا کمرکَس لی ہے۔ خدا نہ کرے کل کلاں اگر ملک میں زلزلہ آ جائے یا سیلابی صورتِ حال پیدا ہو جائے تو اس کا ’سہرا‘ بھی حکومت کے سر باندھا جائے گا۔ ہفتہ اور اتوار کی شب تقریباً 12بجے اچانک بجلی چلی گئی۔ میں نے سمجھا یہ معمول کی بندش ہے لیکن سوشل میڈیا پر یہ خبریں چلنے لگیں کہ پورے ملک میں بجلی بند ہو چکی ہے اور چاروں صوبوں میں بلیک آؤٹ کی کیفیت ہے۔ رات کو 4بجے اور پھر 7بجے اٹھ کر واش روم جانا پڑا تو ہنوز بلیک آؤٹ تھا۔ صبح کی نماز کے بعد نیند کا غلبہ ایک معمول بن چکا ہے۔ پھر آنکھ ساڑھے نو اور دس بجے کھلتی ہے۔ اللہ کریم نے جسمانی نظام کو بھی ٹیون کیا ہوا ہے۔ عین 10بجے آنکھ کھلی تو بجلی موجود تھی۔ لیکن دوچار دوستوں کی مس کال فون پر موجود تھیں۔ میں نے باری باری ان کو جوابی کال کی تو سب نے پوچھا کہ پورے پاکستان میں بجلی بند ہونے کی وجہ کیا یہ ہے کہ اپوزیشن کا ایجنڈا آخر پورا ہو گیا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ فوج نے عمران خان کو گھر بھیج دیا ہے اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میری آنکھوں نے پہلے چاروں مارشل لاؤں کا منظر دیکھا ہے لیکن ملک گیر بجلی بریک ڈاؤن کا منظر نہ پاکستانی مارشل لاؤں میں کبھی دیکھنے کو ملا اور نہ ان ممالک میں کہ جہاں مارشل لاء لگتا ہے۔ کئی دوستوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ مارشل لاء، بلیک لا گردانا جا رہا ہے۔ ایک دوست نے تو یہ ’نوید‘ بھی دی کہ انڈیا نے پاکستان کے تینوں چاروں بجلی پروڈیوس کرنے والے بڑے بڑے یونٹوں پر بمباری کر دی ہے۔…… اللہ اللہ خیر سلا…… میں نے کہا کہ یہ افواہیں ہیں لیکن دوست پھر بھی متذبذب رہے اور جب میں نے یہ بتایا کہ اس طرح کے بلیک آؤٹ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ماضی میں امریکہ میں بھی ایسا ہو چکا ہے اور سرد جنگ کے دور میں کئی بار ہوا ہے لیکن وہاں تو کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ سوویت یونین نے جوہری حملہ کر دیا ہے! اور جب میں نے یہ بتایا کہ لاہور میں بجلی آ گئی ہے تو پاک پتن، بہاولنگر، منچن آباد اور حجرہ شاہ مقیم وغیرہ کے دوستوں نے بتایا کہ ان کے ہاں ہنوز بجلی بند ہے۔
یہ تو خیر ہمارے عوام کی دیرینہ عادت بن چکی ہے کہ وہ افواہوں پر کان دھرنے کی لَت میں بُری طرح مبتلا ہیں۔ جن دوستوں کے فون آئے وہ سب گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ ڈگریوں کے حامل تھے۔ لیکن یہ ڈگریاں کامن سینس تو جنریٹ نہیں کرتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عامتہ الناس کی رائے اس قدر کھوکھلی اور وہمی ہو چکی ہے کہ بات کا بتنگڑ بنانے میں دیر نہیں لگاتی۔

یہ درست ہو گا کہ میڈیا نے عوام کو شعور وآگہی کی دولت سے ’مالا مال‘ کر دیا ہے لیکن اس شعور کی عمارت کچی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے اور آگہی کے کاخ و ایواں کی بنیادوں میں بھی نہ سیمنٹ بھرا گیا ہے اور نہ بجری استعمال کی گئی ہے۔ ہم دن رات ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھتے ہیں اور دن رات غزل اور جوابِ آں غزل کے مشاعرے سنتے ہیں۔ شام سات بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک جتنے بھی ٹاک شو ہوتے ہیں ان میں حکومتی اراکین اور اپوزیشن کے ترجمانوں کو برابر برابر جگہ دی جاتی ہے اور مساوی وقت دیا جاتا ہے۔ کہنے کو یہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ طرفین کا نقطہ ء نظر دکھانا اور بتانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر حکومت ہی کے وزیروں امیروں کو دکھایا جائے تو جو لوگ الیکشنوں میں ان کے خلاف ووٹ دیتے ہیں ان کی حق تلفی ہوتی ہے۔ حساب برابر کرنے کے لئے ملک کی تینوں مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی ضروری سمجھی جاتی ہے۔

اور تجزیہ گو اور مبصر بھی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے نقطہ ء ہائے نظر سے پہلے سے سامعین و ناظرین آگاہ ہوتے ہیں۔ ان کی زبان اپنے مخالفین کی ’مدح سرائی‘ میں قینچی کی طرح چلتی ہے۔ ہمارے ٹی وی اینکر حضرات و خواتین کی ہمدردیاں بھی ہر سامع کے نوکِ گوش رہتی ہیں۔ وہ جب زبان کھولتے ہیں تو سوال کی ساخت اور بُنت (Weaving) اس طرح کی ہوتی ہے کہ دیکھنے سننے والوں کو ذرہ بھر تعجب نہیں ہوتا کہ موصوف (یا موصوفہ) جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ان کے آدرش کے خلاف ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ ہر ٹی وی چینل اپنے مالک کی آنکھ کا اشارہ سمجھتا ہے اور مجبور ہوتا ہے کہ اپنی طلاقتِ لسانی کا حق ادا کرے…… یہ ایک عالمگیر کلچر ہے۔ میں اپنے ٹی وی چینلوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا۔ ملک کوئی بھی ہو، اس کا مین سٹریم میڈیا اپنے مالکان کی زبان بولتا ہے…… اور آج کل تو پاکستانی ٹیلی ویژن ایک اور کلچر کو پروان چڑھا رہا ہے۔

پرائم ٹائم کے ٹاک شوز اگلے روز بھی دو دو بار آن ائر کرکے وقت پورا کیا جاتا ہے۔ پانچ منٹوں کی خبروں کے بعد دس منٹ کے کمرشل چلتے ہیں …… معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سارے چینل اب صرف اور صرف کمرشلز چلا رہے ہیں، نہ کوئی خبر ہوتی ہے اور نہ خبروں کی Presentation کا کوئی قابلِ ذکر انداز ہوتا ہے۔ آپ جب بھی ٹی وی آن کریں، اشتہاروں کی بھرمار دکھائی دیتی ہے۔

بعض اوقات تو یہ کمرشلز دیکھ دیکھ کر ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔مختلف شہروں میں چینل کی جو ٹیمیں رکھی جاتی ہیں۔ وہ مجبور ہوتی ہیں کہ کوئی نہ کوئی ایسی خبر اپنے ہیڈکوارٹر (سنٹر) کو بھیجیں جس میں ناگہانیت کا کوئی نہ کوئی پہلو دکھایا جائے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ایسی خبریں بھی آج کل میڈیا پر سنوائی اور دکھائی جا رہی ہیں جن کا تصور تک لرزہ خیز ہے۔مثلاً بڑے بھائی نے اپنے چھوٹے سگے بھائی کے ساتھ زیادتی کی اور اس کے بعد اسے قتل کر دیا…… ایک باپ نے اپنی سگی بیٹی کی عصمت روند ڈالی اور پکڑا گیا۔ ان مردود کرداروں کو ٹی وی پر باقاعدہ دکھایا جاتا ہے۔ان کے چہرے اگر Blur کر دیئے جائیں تو چہروں کی دھندلاہٹ، خبر کی سنگینی کو تو کم نہیں کرتی۔ میں حیران ہوں کہ پیمبرا نے اب تک اس قسم کی ’واہیات‘ اور ’ننگی‘ خبروں کا نوٹس کیوں نہیں لیا۔ سوال یہ نہیں کہ یہ خبریں درست ہیں یا غلط…… سوال یہ ہے کہ ایسی خبروں کا وجود اگر ہے بھی تو ان کی تشہیر کا مقصد کیا ہے۔ کیا اس سے معاشرتی برائیاں دور ہوجاتی ہیں۔

بعض چینلوں پر ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں جن میں دیور بھابھی، چچی بھتیجا اور خالو بھانجی کے رشتوں کی تقدیس کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔ اگر میڈیا کا کام عوام کو انفارم اور ایجوکیٹ کرنا ہے تو یہ کہاں کی انفارمیشن اور ایجوکیشن ہے؟ اور پھر ہم صبح شام چیخنے لگتے ہیں کہ لاہور۔ سیالکوٹ روڈ پر رات 2بجے ایک اکیلی دکیلی عورت کو اس کے بچوں کے سامنے ’بے توقیر‘ کیا گیا۔ آپ کو یاد ہوگا پورا مہینہ وہ کیس ہمارے تمام میڈیا چینلوں کی ’زینت‘ بنا رہا لیکن اس کا انجام کیا ہوا، سیاہ کار آج کس حال میں ہے، کیس کی سماعت کس مرحلے میں ہے، کون مجسٹریٹ یا جج اس کی سماعت کر رہا ہے، وکلاء کون ہیں اور ان کی آراء اور دلائل کا لب لباب کیا ہے، ان تمام باتوں سے وہ ناظرین و سامعین بے خبر ہیں جن کو صرف چند ماہ پہلے دن رات مبتلائے عذاب رکھا گیا تھا۔

میڈیا پرنٹ ہو، سوشل ہو یا مین سٹریم اس کے آداب مقرر ہونے چاہیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ جن معاشروں نے ترقی کی ہے انہوں نے ان کے آداب اور ضابطے بھی بنائے ہیں۔ لیکن ہم جیسے ترقی پذیر معاشرے اس ضمن میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ہم یہ تسلیم تو کرتے ہیں کہ میڈیا حکومت کا چوتھا ستون ہے، اس کی تاثیر عالمگیر ہے اور وہ انسانی فکر و نظر کی گہرائیوں اور گیرائیوں کا عکاس ہے لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ اس کی اس ہر دلعزیزی، قوتِ جاذبہ اور عامتہ الناس میں اس کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اس کی چند ذمہ داریاں بھی ہیں۔ ان کا خیال رکھنا کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا مالکان کی یا ان لوگوں کی جو اس کے آپریشن کے کلیدی کردار ہوتے ہیں۔3

ذرا 50،60اور70کی دہائیوں میں پرانی فلموں کو یاد کیجئے…… ان کی سٹوریاں، مکالمے، اداکاری، گیت اور موسیقی کے علاوہ ان میں ایک سبق بھی ہوتا تھا۔جب سے وہ سبق ناپید ہوا ہے پرانی فیچر فلموں کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔یہ بھٹہ مالکان یا سرمایہ داروں نے نہیں بٹھایا بلکہ ہدایت کاروں، موسیقاروں،مکالمہ نگاروں اور گیت اور سٹوری لکھنے والوں نے بٹھایا ہے……آج کے ٹی وی چینل کے مالکان اتنے قابلِ گرفت نہیں جتنے اس کے پروگرام پروڈیوسرز اور ہدایت کار ہیں۔ خبریں پڑھنے والوں کو جو لوگ سلیکٹ کرتے اور جو سکرپٹ تیار کرتے اور ناظرین و سامعین تک پہنچاتے ہیں ان حضرات سے گزارش ہے کہ پاکستان کی رائے عامہ کو تقسیم ہونے سے بچائیں۔ اس راہ کا انتخاب کریں جو پاکستان کو خوشحالی کی طرف لے جائے۔ سیاسی رسہ کشی سے جتنا پرہیز کیا جائے گا، اتنا ہی ملک اور قوم کے حق میں بہتر ہوگا۔