ریاض احمدچودھری 401

گلگت بلتستان میں انتخابات پر بھارتی برہمی کیوں؟

گلگت بلتستان میں انتخابات پر بھارتی برہمی کیوں؟
ریاض احمدچودھری
پاکستان نے گلگت بلتستان میں آئندہ انتخابات سے متعلق بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے ”غیرضروری اور غیر ذمہ دارانہ بیان“ کو یکسر مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کے پاس اس معاملے میں مداخلت کا کوئی قانونی، اخلاقی یا تاریخی جواز نہیں، بھارت کی جانب سے جھوٹے اور من گھڑت دعوے نہ تو حقائق کو تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی غیر قانونی کارروائیوں اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹا سکتے ہیں۔ بھارت نے گزشتہ 73 سال سے مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی اور غیر انسانی قبضہ کیا ہوا ہے، تاہم بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں کشمیری عوام پر بے پناہ مظالم کے باوجود مقامی سطح پر کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک مزید مضبوط ہوگئی ہے۔پاکستان بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے اپنا غیرقانونی قبضہ فوری ختم کرے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزادانہ اور غیرجانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے حق خود ارادیت کے استعمال کا حق دے۔
بھارتی دفتر خارجہ نے دعویٰ کیا تھا کہ جموں و کشمیر اور لداخ کی پوری یونین ٹیریٹریز بشمول نام نہاد گلگت بلتستان کا پورا علاقہ 1947ء میں اس سے الحاق کی وجہ سے بھارت کا لازمی حصہ ہے اور الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کا ان علاقوں پر اختیار نہیں ہے۔بھارت کے حالیہ اقدامات مثلاً گلگت بلتستان (الیکشن اور قائم مقام حکومت) ترمیمی آرڈر 2020ء اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس کے غیر قانونی اور جبری قبضے میں موجود علاقوں میں مادی تبدیلیوں کی کوششوں کو مسترد کرتا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس طرح کے اقدامات نہ تو جموں و کشمیر اور لداخ پر پاکستان کی جانب سے غیر قانونی قبضے اور نہ ہی گزشتہ 7 دہائیوں سے پاکستان کے مقبوضہ علاقوں میں رہنے والوں کو آزادی سے انکار، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، اور استحصال کو چھپا سکتے ہیں۔ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے قبضے میں موجود علاقوں کو خالی کردے۔
گلگت بلتستان پر بھارتی دعویٰ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے توجہ نہیں ہٹا سکتا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ بھارت کی طرف سے 1947ء میں ریاست پر جبری قبضے سے یہ تنازعہ کھڑا ہوا۔ پوری ریاست جموں و کشمیر متنازعہ علاقہ ہے۔ عالمی برادری بھی اسے متنازعہ قرار دیتی ہے۔ تنازعہ کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر طویل ترین تصفیہ طلب معاملہ ہے۔ بھارتی قبضہ جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور عالمی قوانین کے خلاف ہے۔ کوئی غیرقانونی اور یکطرفہ اقدام جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ جموں و کشمیر کے تنازعہ کا واحد حل سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر مکمل عملدرآمد میں ہی ہے۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جھوٹ، فریب اور مکاری و تعصب تو بھارتی حکمرانوں کی گھٹی میں پڑی ہے۔پاکستان کو ظالم ثابت کرنے اور اس کے خلاف عالمی رائے عامہ کو گمراہ اور خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے بھارت کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
گھٹیا سے گھٹیاحرکت بھی کر سکتا ہے۔ دراصل بھارت کو ساری پریشانی سی پیک کی ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سے سی پیک پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔بھارت کا سارا زور اس بات پر ہے کہ کسی طرح سی پیک ختم ہو جائے یا کم از کم اتنا متنازعہ ہوکہ اس کی اہمیت پہلے جیسی نہ رہے، کیونکہ سی پیک پاکستان کے پھلنے پھولنے کا منصوبہ ہے۔ دنیا بھر کی نظریں سی پیک اور گوادر بندرگاہ پر ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مکمل آپریشنل ہونے کے بعد سی پیک اور گوادر دبئی سے بھی بڑھ جائے گا۔ پاکستان کے دیرینہ دوست اور ہمسایہ ملک چین نے گلگت بلتستان کی عارضی صوبائی حیثیت کے حوالے سے بھارتی بیان کو مسترد کر دیا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کے مطابق پُر امن طریقے سے حل کرنا چاہئے۔ مسئلہ کشمیر پر چین کا موقف بالکل واضح اور اٹل ہے۔